وزیر اعظم کے پسندیدہ ترین محاوروں میں ''پَلّے نہیں دھیلہ، کردی میلہ میلہ‘‘ ہے۔ بھارت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ لوگ بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں اور دِلّی سرکار چاہتی ہے کہ چاند پر ڈورے ڈالے جائیں، مِرّیخ کو زیرِ دام لایا جائے۔ گویا انوکھا لاڈلا کھیلن کو چاند مانگ رہا ہے۔
ایک زمانے سے دُہائی دی جا رہی ہے کہ بھارت کے بیشتر شہری اور دیہی علاقوں میں لوگ اِتنی حیثیت نہیں رکھتے کہ گھروں میں بیت الخلا بنوا سکیں۔ فِطرت کی پُکار پر لوگوں کو باہر جانا پڑتا ہے۔ دیہی علاقوں میں تو معاملہ نِبھ جاتا ہے کہ فِطرت خندہ پیشانی سے ''ضرورت مندوں‘‘ کا استقبال کرتی ہے۔ شہری علاقوں میں معاملہ بہت پیچیدگی اختیار کر جاتا ہے۔
نریندر مودی کے لیے بھی صحت و صفائی کا مسئلہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جی نہیں، آپ غلط نہ سمجھیں۔ ہم مودی جی کی بات نہیں کر رہے۔ ان کے گھر میں تو ''شوچالَے‘‘ یعنی بیت الخلا ضرور ہوگا۔ ہم تو ملک بھر کی صحت و صفائی کے حوالے سے اُن کے فکرمند رہنے کی بات کر رہے ہیں۔
تین دن قبل ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ وسطی بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع دھمتری کے ایک گاؤں میں ایک بزرگ خاتون غیر معمولی حد تک جذباتی ہو گئیں‘ اور اُن کے جذبات کے ریلے میں دس بکریاں بہہ گئیں! واقعہ یہ ہے کہ دِلّی سرکار اور ریاستی سرکاریں مل کر عوام کو تحریک دے رہی ہیں کہ صحت مند رہنے کے لیے گھروں میں بیت الخلا تعمیر کیے جائیں۔ کنور بائی نے یہ بات سُنی تو اُنہیں بھی احساس ہوا کہ اب تک وہ گھر سے باہر جاکر حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہوکر بیماریوں کو دعوت دیتی رہی ہیں۔ بس، اِس خیال کا آنا تھا کہ اُنہوں نے گھر میں بیت الخلا بنانے کی ٹھانی۔ ٹھان تو لیا مگر سوال اُٹھا کہ وسائل کہاں سے لائیں؟ خیال آیا کہ اور کچھ نہ سہی، گھر میں درجن بھر بکریاں ہیں سو اُنہی کو قربان کر دیا جائے۔ کنور بائی نے بیت الخلا کی تعمیر کے لیے ایک مستری سے بات کی تو اُس نے بتایا کہ گھر میں معیاری بیت الخلا کی تعمیر میں تقریباً 35 ہزار روپے لگیں گے۔ کنور بائی تو پریشان ہو گئیں۔ اُنہوں نے حساب لگایا تو اندازہ ہوا کہ فِطرت کی پُکار پر گھر سے باہر قدم رکھنے سے بچنے کے لیے اُنہیں بارہ میں سے دس بکریوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے! ایک لمحے کو خیال آیا کہ جہاں اِتنی زندگی درون خانہ بیت الخلا کے بغیر بسر کر لی ہے تو باقی عمر بھی یونہی گزار دی جائے۔ بقول غالبؔ
زندگی یُوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں تِرا راہ گزر یاد آیا!
مگر پھر اُنہوں نے سوچا کہ ایک مثال تو قائم ہونی چاہیے۔ گاؤں کے دیگر خاندانوں کو بھی گھر میں بیت الخلا بنانے کی تحریک ملے گی۔ بس، پھر کیا تھا۔ کنور بائی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، دس بکریاں بیچ ڈالیں۔ اور یُوں جو رقم ہاتھ آئی اُس سے بیت الخلا تعمیر کرایا۔
آپ سوچیں گے اِس میں حیرت کی کیا بات ہے‘ اچھی بات ہے کہ کوئی اپنے گھر میں بیت الخلا تعمیر کرائے۔ اِس صورت میں صحت و صفائی کا معیار بلند کرنے میں مدد ملے گی اور عزتِ نفس بھی محفوظ رہے گی۔ ہمیں حیرت اِس بات پر ہے کہ نریندر مودی کی زبان میں کیسا جادو ہے کہ کنور بائی کے سَر پر چڑھ کر بولا۔ کنور بائی کی عمر آپ جانتے ہیں؟ محترمہ پورے 104 سال کی ہیں! کیوں... آپ بھی حیران رہ گئے نا!
ایک زمانے سے بھارت میں تحریک چلائی جا رہی ہے کہ لوگ یومیہ بنیادی ضرورت کے لیے گھر سے باہر مارے مارے نہ پھریں اور عزتِ نفس کو داؤ پر نہ لگائیں۔ ملک بھر میں کروڑوں مکانات ایسے ہیں جن میں بیت الخلا نہیں۔ دیہی علاقوں میں تو لوگ اِس حوالے سے سوچتے بھی نہیں‘ لیکن شہروں کا یہ حال ہے کہ لوگ علی الصباح پیٹ پکڑے، لوٹا تھامے ''گوشۂ عافیت‘‘ تلاش کرتے پھرتے ہیں! ع
بھری دنیا میں آخر دل کو سمجھانے کہاں جائیں؟
ذہن کو ''ٹینشن کا دباؤ‘‘ گھیرے رہتا ہے کہ ذرا سی اونچ نیچ یا دیر سویر ہو گئی تو عزت داؤ پر لگ جائے گی! اگر کوئی ڈھنگ کا گوشہ ہاتھ نہ لگے تو پریشانی کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے ؎
نظر میں اُلجھنیں، دل میں ہے عالم بے قراری کا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سُکون پانے کہاں جائیں!
چند ماہ قبل خاصی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ ایک طرف حکومت عوام سے کہہ رہی تھی کہ گھروں میں بیت الخلا بنوائیں۔ اور دوسری طرف مہنگائی تھی کہ لوگوں کے سَروں پر چڑھ کر ناچ رہی تھی۔ ترکاری اور اناج کی قیمتیں اِتنی بلند ہوگئیں کہ لوگوں کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہو گیا۔ ٹماٹر، پیاز اور ترکاری کے دوسرے بہت سے آئٹمز 100 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہے تھے۔ یہی حال اناج کا تھا۔ دالیں بھی (پاکستانی کرنسی میں) 300 روپے فی کلو تک کے نرخ پر فروخت ہونے لگیں۔ فِطرت کی پُکار تو اُس وقت سنائی دیتی ہے جب پیٹ میں کچھ جاتا ہے۔ ایسے میں گھر کی چاردیواری میں بیت الخلا تعمیر کرنے کی تحریک پر لوگوں نے تنقید شروع کر دی۔ سوشل میڈیا پر لوگ طنز کرنے لگے کہ جب کچھ کھانے ہی کو نہیں مل رہا تو گھر کے بیت الخلا کا کیا اچار ڈالیں گے!
سرکار بھی سمجھ گئی کہ گھروں میں بیت الخلا بنانے کی تحریک اُسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب لوگ کچھ کھا پی بھی رہے ہوں۔ پیٹ خالی ہو تو گھر کا بیت الخلا بھی دِلّی سرکار کے بزرجمہروں کے دماغوں کی طرح خالی ہی رہے گا! اب جبکہ سبزی اور اناج کی قیمتیں قابو میں ہیں تو دِلّی سرکار ایک بار پھر گھروں میں بیت الخلا تعمیر کرنے کی تحریک کے حوالے سے اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام ہوتی جارہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اِس معاملے میں ایسے جذباتی ہو رہے ہیں کہ لوگ بھی اُن کے جذبات کے ریلے میں بہنے لگے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو 104 سال کی کنور بائی نے گھر میں بیت الخلا بنوانے کے لیے دس بکریوں کی قربانی کیوں دیتیں۔ ویسے عوام کی خون پسینے کی کمائی سرکار خلائی تحقیق پر بھی قربان کر رہی ہے‘ اور سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں عوام قربانی کے بکرے ثابت ہوئے ہیں۔ دِلّی سرکار کو مِرّیخ پر تِرنگا لہرانے، بلکہ گاڑنے کی فکر لاحق ہے۔ اور بے چارے عوام کا یہ حال ہے کہ اُن کے سینے میں سنگین حالات کا کِلّا گڑا ہوا ہے
جسے نکالنے کی فکر کسی کا لاحق نہیں! میڈیا پر تو سرکاری مشینری کا کنٹرول ہے۔ مرکزی دھارے کے میڈیا آؤٹ لیٹس کو وہی راگ الاپنا ہے جو سرکار نے طے کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر البتہ کچھ ایسی ویسی باتیں دکھائی اور سُنائی دے جاتی ہیں۔ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ اُن کے مسائل یعنی زمینی حقائق کو ''اَن دیکھا‘‘ کرکے حکومت سیّاروں اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی دُھن میں مگن ہے تو فریاد کی جاتی ہے ؎
تم آسماں کی بلندی سے جلد لَوٹ آنا
ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے!
دِلّی سرکار کا یہی رویہ پڑوسیوں کے ساتھ بھی ہے۔ کہیے مشرق کی تو وہ سُنتی ہے مغرب کی۔ بنیادی اِیشو نمٹانے کے بجائے صرف کاروبار کی بات کی جاتی ہے۔ اور اب معاملہ ''تفریحِ طبع‘‘ تک آپہنچا ہے۔ متوازی یا پسِ پردہ سفارت کاری کے لیے اب انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔ اِدھر پاکستان میں بھارتی فلموں کو داخلہ ملا تو اُدھر بالی وُڈ میں پاکستانی فنکاروں کو گلے لگایا جا رہا ہے۔
لوگ بیت الخلا کو رو رہے ہیں اور دِلّی سرکار کو خلا کی پڑی ہے۔ بنیادی مسائل کو ایک طرف ہٹا کر دِلّی سرکار چاہتی ہے کہ خلا کو تسخیر کیا جائے۔ پاکستان جب کبھی کسی بنیادی ایِشو کو نمٹانے کی بات کرتا ہے، بھارت تجارت کی توسیع اور ثقافتی بندھن مضبوط بنانے کی بات کرتا ہے‘ یعنی بھارتی عوام کی بات سُنی جاتی ہے نہ ہماری، دونوں ایک پیج پر ہیں!
مودی سرکار کے لیے اِس سے اچھا آپشن کیا ہو سکتا ہے کہ خلا میں بستیاں بسانے سے پہلے اپنے ہاں گھروں میں خلائی گھر یعنی بیت الخلا تعمیر کرنے کا ٹاسک کامیابی سے مکمل کرے! ایسا ہو تو چاند پر بستی نہیں بسانا پڑے گی۔ اگر بھارتی عوام کو گھروں میں بیت الخلا میسر ہو تو وہ اپنے دیس ہی کو چاند نگر سمجھ کر خوش ہو لیں گے!