"MIK" (space) message & send to 7575

’’اِنچان کو شب پتا ہوتا ہے!‘‘

وقت کا تیزی سے گزرنا ہمارے عہد کی خصوصیت ہے مگر اِس سے بڑی خصوصیت ہے ہمارے اپنے وجود کی رفتار کا وقت کی رفتار سے بڑھ جانا۔ ہزاروں سال کے دوران انسان ایسی زندگی بسر کرتا آیا تھا جس میں شیر خوارگی کے بعد بچپن، لڑکپن، شباب، ادھیڑ عمر اور بڑھاپا ... تمام مراحل ترتیب سے آیا کرتے تھے۔ عمر کی ہر منزل کے چند تقاضے ہوتے تھے جو اُسی منزل سے مطابقت رکھتے تھے۔ شیر خوار بچہ، ظاہر ہے، چلتے پھرتے بچوں جیسی حرکتیں نہیں کرتا تھا۔ اِسی طور لڑکپن میں کوئی ''بچپنا‘‘ دکھاتا تو بے نقط سُنتا تھا! یہی حال جوانی کا تھا جس میں لڑکپن ہوتا تھا نہ بڑھاپا۔ یعنی سب کچھ ٹھکانے پر تھا۔ 
اب ایسی قیامت برپا ہوئی ہے کہ سب کچھ اُلٹ پلٹ کر رہ گیا ہے۔ زمانے کی رفتار نے انسان کو ایسا تیز رفتار کردیا ہے کہ حواس بھی فاسٹ فارورڈ کے اصول کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ بچپن کی معصومیت ناپید ہونے کی منزل میں داخل ہوچکی ہے۔ 
پروین شاکر نے کہا تھا ؎ 
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں! 
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے 
منفرد لہجے کی حامل شاعرہ کو اِس دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال سے زائد مدت گزر چکی ہے۔ ان 21 برسوں میں بہت کچھ، بلکہ تقریباً سبھی کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ پروین شاکر آج ہوتیں تو اپنے ہی شعر میں ترمیم کرکے آج کے بچوں کی خصوصیات کو اپ گریڈ کرتیں یعنی تشویش ناک یا خطرناک قرار دیتیں! اور جگنو کی کیا ہستی ہے، آج کے بچے تو بزرگوں کو پرکھنے اور پٹخنے پر بضد رہتے ہیں! 
رونے کو تو خیر اور بھی بہت سے معاملات ہیں مگر ایک بڑا رونا اِس بات کا ہے کہ بچوں سے معصومیت رُوٹھ گئی ہے۔ چار پانچ سال کی عمر تک بچوں میں جو معصومیت ہوا کرتی تھی وہ اب ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ سادگی اور بھولپن کا مرقّع دکھائی دینے والے بچے اب ناپید سے ہوچلے ہیں۔ آج کے بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہی بڑے ہوجاتے ہیں، بڑوں کی طرح دیکھنے اور سوچنے لگتے ہیں۔ وہ شوخیاں، وہ شرارتیں، وہ اٹکھیلیاں ... سبھی کچھ جیسے غیر فعال ہوکر رہ گیا ہے۔ آج کے بچوں کی شوخیوں میں معصومیت اور شرارت سے زیادہ ''بڑپّن‘‘ پایا جاتا ہے۔ یہ بچوں کی اور ہماری مشترکہ بدنصیبی ہے۔ کوئی بھی چیز اپنی اصل سے ہٹ کر کبھی اچھی لگی ہے نہ لگے گی۔ 
کچھ دن ہوئے، عارف انصاری تشریف لائے اور زبان کی ہتھیلی پر باتوں کی سرسوں جمائی۔ وہ جب بھی آتے ہیں جی بھر کے بَتیاتے ہیں اور ہمیں کالم کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور دے جاتے ہیں۔ اِس بار بھی ان کا آنا مایوس کُن نہ رہا۔ اب کے انہوں نے اپنے چار سالہ بیٹے رامش کے حوالے سے ایسی پھڑکتی ہوئی بات کہی کہ ہم اس بات میں کالم کا مزا لیتے ہوئے جھوم اٹھے۔ ہمارا دعوٰی ہے کہ آپ بھی وہ بات پڑھ کر پھڑکے اور جھومے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ 
عارف نے بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ اور رامش کے ساتھ کیبل پر کوئی انگریزی فلم دیکھ رہے تھے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ فلم کہیں کی ہو اور کسی بھی زبان کی ہو، ہیروئن کا رُوٹھے بغیر گزارا نہیں ہوتا! اس انگریزی فلم کی ہروئن بھی ایک منظر میں رُوٹھ کر چلی دی۔ ہماری فلموں کے ہیرو کی طرح انگریزی فلم کا ہیرو بھی ہیروئن کو منانے چلا۔ ہیرو منانے کی کوشش کرتا رہا اور ہیروئن ٹھنکتی رہی۔ 
رامش میاں نے یہ تماشا دیکھ کر قدرے توتلی زبان میں اپنی امّی سے کہا : ''جے دونوں پیال تلتے ہیں!‘‘ (یہ دونوں پیار کرتے ہیں) 
یہ سن کر بینش دم بخود رہ گئیں۔ اپنے بچے کی کسی بات میں کوئی جینیس جھلک دکھائے تو والدین کو حیرت ہوتی ہی ہے! مگر چار سال کی عمر میں اِتنا ''شاندار‘‘ اور بنیادی جینیس پن! 
بینش کو حیران دیکھ کر عارف بھی متوجہ ہوئے۔ استفسار کیا تو رامش میاں کی ''گل کاری‘‘ معلوم ہوئی۔ اور اب حیران ہونے کی باری ابّا میاں کی تھی! اُنہیں ایک لمحے کو یقین ہی نہ آیا کہ اُن کے جگر کا ٹکڑا ایسی دل ہلا دینے والی بات کہہ رہا ہے! اگر اردو فلم ہوتی تو تسلیم کیا جاسکتا تھا کہ مکالموں کو سمجھ کر رامش میاں نے کچھ اخذ کیا ہے۔ انگریزی فلم کے مکالمے بڑوں کی سمجھ میں نہیں آتے تو بچوں کی سمجھ میں کیا خاک آئیں گے؟ 
بینش نے ڈانٹتے ہوئے کہا : ''بیٹا، ایسی بات نہیں کہتے۔‘‘ 
اپنی امّی کی بات اَن سُنی کرتے ہوئے رامش میاں نے اپنا موقف دُہرایا۔ یہ گویا تازیانے پر تازیانہ تھا۔ یعنی رامش میاں نے جو کچھ بھی کہا تھا وہ محض اتفاق یا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر چھجّے کے نیچے میڈیا کے سامنے داغے جانے والے الل ٹپ ریمارکس نہ تھے بلکہ سوچ سمجھ کر جاری کیا جانے والا پالیسی بیان تھا! 
بینش نے اِس مرتبہ زیادہ سختی لہجے میں کہا : ''آپ کو کیا پتا یہ دونوں پیار کرتے ہیں؟‘‘ 
رامش میاں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا : ''مُجے پتا ہے، اِنچان (انسان) کو شب (سب) پتا ہوتا ہے!‘‘ 
رامش میاں جو کچھ فرما رہے تھے اُسے سن کر عارف اور بینش کے ''کنے‘‘ اب محض مُہر بہ لب ہو رہنے کا آپشن رہ گیا! میاں بیوی چند لمحات تک ایک دوسرے کو گھورتے، گویا رامش میاں کی ''شاندار پرفارمنس‘‘ کا ''کریڈٹ‘‘ ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہوں! ایک گھورنے کا سیشن ختم ہوا مگر خاموشی برقرار رہی۔ رامش میاں نے کچھ کہنے کی گنجائش چھوڑی کہاں تھی! 
یہ واقعہ سُن کر ہم نے عارف انصاری کو مبارک باد دی۔ ہدیۂ تبریک پاکر وہ پہلے تھوڑے سے حیران اور پھر جُزبُز ہوئے۔ اُن کے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ رامش میاں کی ''وہ مارا‘‘ ٹائپ پرفارمنس کا سُن کر ہم شاید اُن پر طنز فرما رہے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں تھا۔ ہم تو یہ پورا معاملہ سُننے کے بعد حیرت کے mode میں آگئے تھے! جو کچھ رامش میاں کو چار سال کی عمر میں پتا ہوگیا تھا وہ ہم جیسوں کو اٹھارہ بیس سال کی عمر میں معلوم ہوسکا تھا! رامش میاں کے جملے کا سِحر کچھ کم ہوا تو رشک نے حیرت کو زیرِ دام کرلیا۔ ہم اِس بات پر رشک کر رہے تھے کہ محض چار سال کی عمر میں رامش میاں محبت کا اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں! یہاں بڑوں کا یہ حال ہے کہ زندگی گزر جاتی ہے اور نفرت کی سطح سے بلند نہیں ہو پاتے اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کبھی اِتنا بھی نہیں سوچتے کہ اِس دنیا میں نفرت سے ہٹ کر اُس کی ٹکّر کا کوئی مخالف جذبہ بھی موجود ہے! 
کمالات تو خیر اِتنے ہیں کہ گنتے ہی چلے جائیے مگر رامش میاں کے کیس سے ہمیں خیال آیا کہ اکیسویں صدی کا ایک بڑا اور نمایاں کمال یہ ہے کہ بچوں کو اور کچھ نہ سہی، کم از کم محبت کی پہچان تو کرا ہی رہی ہے تاکہ ذرا بڑے ہونے پر وہ بہتر انداز سے، تمام تقاضے نبھاتے ہوئے دادِ محبت دے سکیں! 
میرزا نوشہ نے کہا تھا ع 
بازیچۂ اطفال ہے دُنیا مِرے آگے 
ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے 
یہاں معاملہ ہے کہ بچوں کے آج کی دنیا بازیچہ بن گئی ہے! آج کے بچے اپنے پیروں پر کھڑتے ہوئے ہی موبائل مانگتے ہیں تاکہ ہر آن اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرسکیں! وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب چاند گاڑی (واکر) میں بیٹھا ہوا شیر خوار بھی فیڈر تھامنے سے پہلے فرمائش کرے گا کہ پہلے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کردیں! 
رامش میاں خاصے ''پیرینٹ فرینڈلی‘‘ واقع ہوئے ہیں! انہوں نے والدین کی کم از کم ایک بڑی مشکل تو آسان کردی۔ ابھی انہیں (رامش میاں کو) بہت کچھ سیکھنا ہے مگر اُن کے والدین کم از کم پیار کے بارے میں تو رامش میاں کی ''اوریئینٹیشن‘‘ کے جھنجھٹ سے بچ گئے۔ ؎ 
ہم انتظارِ حشر کی زحمت سے چُھٹ گئے 
دیکھے کوئی کہ حشر بہ داماں ہے زندگی! 
رامش میاں اکیسویں صدی کے دوسری عشرے میں پیدا ہوئے ہیں اِس لیے ''اِنچان‘‘ کی منزل تک آکر رک گئے۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کا بچہ ذرا آگے جاکر جواب دیا کرے گا : ''آچک (عاشق) کو شب پتا ہوتا ہے!‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں