اب تو یہ عالم ہے کہ ہم اپنا پرائم ٹائم خبروں، تبصروں اور تجزیوں کی چوکھٹ پر قربان کردیا کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی پر رات آٹھ سے نو بجے تک ڈرامہ نشر ہوا کرتا تھا۔ پرائم ٹائم کو ڈھنگ سے گزارنے یا ٹھکانے لگانے کا کوئی اور بہتر طریقہ قوم کے پاس نہ تھا۔ جو لوگ پی ٹی وی کی مہربانی سے بچنا چاہتے تھے وہ غیر ملکی نشریاتی اداروں کے ریڈیائی خبر ناموں کی چُھری سے اپنے وقت کو قتل کیا کرتے تھے! اب خیر سے چینلز کی بھرمار ہے۔ بصری مواد کی اس انتہائی ''اوور ڈوز‘‘ نے ہمیں شدید نوعیت کی نفسی بدہضمی سے دوچار کردیا ہے۔ تمام اطراف سے ہماری آنکھوں، کانوں اور ذہن پر اتنے حملے ہو رہے ہیں کہ سکون کا سانس لینے کا موقع بھی نہیں مل پارہا۔ ہر طرف نظارے ہی نظارے ہیں، لشکارے ہیں لشکارے ہیں۔ جو کچھ بھی دیکھیے، دل کش معلوم ہوتا ہے۔ آنکھوں کو دل کش محسوس ہونے والا نظارہ جب دل میں اترتا ہے تو اپنی ساری رنگینی کھو بیٹھتا ہے۔ شان الحق حقّیؔ نے برمحل کہا ہے ؎
دل کی توفیق سے ملتا ہے سُراغِ منزل
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے
ہماری حالت یہ ہے کہ پتا نہیں کیا کیا سمجھ میں آرہا ہے مگر افسوس کہ جو کچھ سمجھنا ہے وہی سمجھ میں نہیں آرہا! ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آں سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں؟
سنتے تھے ایک زمانہ آئے گا جب کام کی ہر بات غیر متعلق باتوں میں گم ہوکر رہ جائے گی۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ وہ زمانہ آچکا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ ہم وہ زمانہ نہیں گزار رہے بلکہ وہ زمانہ ہم میں سے ہوکر گزر رہا ہے۔ اور اس کیفیت کے ہاتھوں دل و دماغ پر جو کچھ گزر رہی ہے وہ بس ہم جانیں یا ہمارا رب جانے۔
اب جبکہ سب کچھ الجھ کر رہ گیا ہے، کچھ یاد ہی نہیں آرہا کہ جب اتنے سارے چینلز نہیں تھے تب ہم شام سات سے رات گیارہ بجے تک کا وقت کس طور کاٹا کرتے تھے! ہاں، اتنا ضرور یاد ہے کہ تب وقت کاٹنا کچھ کچھ دردِ سَر تھا، عذاب جیسا تھا۔ یہ آج والی بات نہیں تھی۔ اب تو وقت پَڑ لگاکر اڑ رہا ہے۔ ذرا سی دیر میں کئی گھنٹے، بلکہ دن یوں گزر جاتے ہیں کہ کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔
جو کیفیت الیکٹرانک میڈیا نے پیدا کی ہے وہی اداکارہ میرا نے بھی پیدا کر رکھی ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ کہ جب میرا منظر عام پر نہیں آئی تھیں تب ہم تناؤ کے لمحات سے نجات پانے اور دل و دماغ کو فرحت بخشنے کے لیے کس نوعیت کی خبروں کا سہارا لیا کرتے تھے! جب سے میرا نے خبروں میں جگہ بنائی ہے، ہماری توجہ بھی یوں پائی ہے کہ ہم اُن کی طرف سے مسکراہٹ بکھیرتی باتوں کے منتظر رہتے ہیں۔ ان کی طرف سے وارد ہونے والی خبریں دل کے شیشے سے تناؤ کی گرد یوں اتارتی ہیں کہ اپنی ہی آنکھوں پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔
میرا اور کیا کیا جانتی ہیں یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں، اتنا ہم ضرور جانتے ہیں کہ خبروں میں رہنے کے فن میں وہ طاق ہیں، بلکہ اس طاق میں اچھی طرح بیٹھ گئی ہیں! کچھ خاص کیے بغیر یعنی خود کو فن کی دنیا میں مصروف رکھنے کی زحمت اٹھائے بغیر خبروں میں in رہنے کا فن ہمیں دلیپ کمار میں نقطۂ عروج پر دکھائی دیا تھا۔ اب رائے بدلنا پڑی ہے۔ میرا نے مسلسل خبروں میں رہ کر ثابت کیا ہے کہ وہ اب شوبز کی ہر رمز کو اچھی طرح جان گئی ہیں، عوام کی نفسی ساخت کو سمجھ چکی ہیں۔
لنگڑی لُولی انگریزی خود نہیں چل سکتی مگر میرا کو خوب چلا رہی ہے۔ وہ جب بھی انگریزی میں ''اظہارِ خیال‘‘ کرتی ہیں، ایک زمانہ متوجہ ہوکر سُنتا ہے۔ میڈیا والے ہمہ تن گوش ہوکر نوٹس لیتے ہیں تاکہ کوئی کام کی خبر بنائی جاسکے۔ ہم جیسے بھی ایسی حالت میں میرا کے خِرمن سے خوشہ چینی کرتے ہیں تاکہ کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے کوئی مُقوّی نکتہ ہاتھ لگے! اور سچ یہ ہے کہ بیشتر مواقع پر میرا مایوس نہیں کرتیں۔
گزشتہ دنوں میرا نے ایک بار پھر اپنی شادی کا معاملہ یُوں اٹھایا کہ میڈیا والوں کے مزے ہوگئے۔ کرکٹ کا سیزن چل رہا ہے۔ پیش گوئی کا بازار گرم ہے۔ ماہرین اور مبصرین ٹیموں کی حالیہ کارکردگی، ٹریک ریکارڈ، موسم اور مجموعی صورت حال کو بنیاد بناکر پیش گوئی کرتے ہیں اور ناکام ہونے پر بیان کرنے کے لیے محرّکات تیار رکھتے ہیں! انسانوں کے ساتھ ساتھ مشینیں اور جانور بھی پیش گوئی کرتے ہیں۔ میرا نے سوچا جب پیش گوئی کا سیزن چل ہی رہا ہے اور زمانہ کمپیوٹرائزیشن کا ہے تو کیوں نہ اپنی شادی کے معاملے میں کمپیوٹر کو زحمت دی جائے۔ اُنہوں نے اعلان کردیا کہ وہ جیون ساتھی کا انتخاب کمپوٹر کی مدد سے کریں گی!
کہتے ہیں مشینوں کے جذبات نہیں ہوتے۔ علامہ اقبالؔ نے ''مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کے سے انداز سے کہا ہے ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
میرا نے کہا ہے کہ وہ پانچ ''خوش نصیبوں‘‘ کو منتخب کرکے ان کے جامع کوائف کمپیوٹر میں فیڈ کریں گی۔ کمپیوٹر اُن کا تجزیہ کرکے بتائے گا کہ جیون ساتھی کی حیثیت سے کون اُن کے لیے موزوں ترین ہے۔ ''سوئمبر‘‘ کے لیے اکیسویں صدی کا انداز اپناکر میرا نے اپنے پرستاروں کے ساتھ ساتھ مشین کو بھی آزمانے کی ٹھان لی ہے۔ ہم کوئی کمپیوٹر تو نہیں ہیں کہ میرا کے لیے کوئی پیش گوئی کریں مگر ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پر پورے یقین سے اِتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جس مشین کو علامہ اقبالؔ نے جذبات سے عاری اور مروّت کے احساس کو کچلنے والی بتایا ہے وہ بھی میرا کے ہاتھوں آزمائے جانے پر خُون کے آنسو روئے گی!
کئی مَن چلے پرستار میرا کو شادی کی آفر کرچکے ہیں مگر اُنہوں نے اب تک سیدھا سادہ طریقہ اختیار کرنے سے گریز کیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، شادی ہوگئی تو ایک شُغل میلہ ختم ہوجائے گا۔ ع
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی
گئی گزری انگریزی کی بات ہو یا شادی کا معاملہ، میرا نے ذاتی محنت سے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے، کچھ رونق لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں وہ کیوں چاہیں گی کہ پرنالے اپنی جگہ پر بہنے لگیں۔ میرا وہی کر رہی ہیں جو اِس معاشرے کے مزاج کے مطابق ہے۔ ایسے میں اُنہیں بدنام کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ جو اُنہیں کرنا ہے وہ کر رہی ہیں اور جو ہم کرنا ہے وہ ہم کر رہے ہیں یعنی محظوظ ہو رہے ہیں! قوم کو دل بہلانے والی خبریں چاہئیں۔ قدرت بہت فیّاض ہے، شکر خوروں کو شکر دے ہی دیتی ہے!