کوئی بڑا پتھر سر پر آ گرے تو دماغ کے ساتھ ساتھ دل کا بھی بینڈ بج جاتا ہے۔ اگر پتھر بہت بڑا ہو اور لگے بھی زور سے تو سمجھ لیجیے کھٹیا کو کھڑی ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ بھی عجب تماشا ہے کہ پتھر کے زمانے کو گزرے ہوئے زمانے گزر گئے مگر اب بھی ایک پتھر قیامت ڈھانے پر تُلا رہتا ہے۔ اور پتھر بھی کیوں، پتھری کہیے، پتھری۔ یہ ہے گردے کی پتھری جو اچھے اچھوں کا پِتّہ پانی کرکے دم لیتی ہے۔ جس طرح خواتین لال بیگ، چھپکلی اور چوہے سے ڈرتی ہیں بالکل اُسی طرح مردوں کے لیے گردے کی پتھری ڈراؤنے خواب جیسی ثابت ہوتی رہی ہے۔ بڑے بڑے جواں مرد گردے کی پتھری تشخیص ہونے پر ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔
خواجہ یونس علی چشتی سے ہماری دعا سلام رات کی بیٹھک کی بدولت ہے۔ ہم دفتر سے واپسی پر اپارٹمنٹ بلڈنگ کے نیچے چائے پراٹھا ہوٹل میں بیٹھ کر سستاتے اور سوچتے ہیں اور چشتی صاحب نعت خوانی یا سماع کی محفل سے واپسی پر اِس ہوٹل کو رونق بخشتے ہیں۔ چشتی صاحب روحانی سلسلوں کے ماننے والے ہیں۔ خود بھی پیر کا درجہ رکھتے ہیں اور ''ابّا‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان کے مریدوں اور عقیدت مندوں کی تعداد ہمارے قارئین سے کئی گنا ہے! جب کبھی عقیدت مندوں کا حِصار ٹوٹتا ہے تو ہم بھی چشتی صاحب سے دو چار باتیں کرلیتے ہیں، دوسری دنیاؤں کا کچھ علم حاصل کرلیتے ہیں۔
گردے کی پتھری نے جہاں اور بہت سوں کا ناک میں دم کیا ہے وہاں چشتی صاحب کو بھی کم پریشان نہیں کیا۔ ویسے تو خیر، وہ بڑے بڑے آلام و مصائب کو خاطر میں نہیں لاتے اور محض دم کرکے اُنہیں ٹال دیتے ہیں۔ مگر اس کم بخت گردے کی پتھری نے اُنہیں بھی الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ چشتی صاحب محض سماع کی محافل سے روحانی تسکین نہیں پاتے بلکہ اوراد و وظائف بھی جانتے ہیں اور انہیں زندگی کا حصہ بھی بنایا ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے لوگ اِنہیں جِنّات سے گلو خلاصی کے لیے بھی لے جاتے ہیں۔
جب سے چشتی صاحب کی ہم سے دعا سلام ہوئی ہے، وہ برملا کہتے ہیں کہ جِنّات سے متعلق اُن کے علم میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ صحافیوں اور بالخصوص اخباری تجزیہ نگاروں کو بھی جِنّات کے درجے میں رکھتے ہیں! چشتی صاحب سے مل کر ہم یہ سمجھے تھے کہ شاید وہ روحانی امور میں کچھ رہنمائی فرمائیں مگر جب اُنہوں نے ہمیں جِنّات کے درجے میں رکھا تو ہم شرمندہ ہوتے ہوئے اپنی نظروں میں مزید مشکوک ہوگئے!
چشتی صاحب خاندانی آدمی ہیں اور پتھری کے معاملے میں بھی خاندانی ہیں۔ اوراد و وظائف تو اِنہیں سیکھنا پڑے ہیں یعنی ریاضت کی منزل سے گزرنا پڑا ہے مگر گردے کا مرض اِنہیں کچھ کیے بغیر ہی مل گیا ہے یعنی موروثی طور پر منتقل ہوا ہے۔ چشتی صاحب خاصے زندہ دل ہیں مگر ایک ذرا سی پتھری نے اُن کے لیے دردِ سر کا سامان کر رکھا ہے۔ اُنہوں نے اپنے گردے کی پتھری کا جو قصہ ہمیں سنایا وہ یقیناً اس قابل ہے کہ آپ کے لیے بھی بیان کیا جائے تاکہ سند رہے۔
ہوا یہ کہ جب پیٹ میں درد رہنے لگا تو چشتی صاحب نے اِسے کوئی معمول کا درد سمجھ کر نظر انداز کیا۔ عمومی نوعیت کی درد کُش گولیاں کھاکر پیٹ اور دل کو بہلاتے رہے۔ علاج کا یہ طریقہ، ظاہر ہے، عقل اور ضرورت کے مطابق نہ تھا۔ درد کُش ادویہ کی تاثیر گھٹتی گئی یعنی درد بڑھتا ہی گیا۔ چشتی صاحب دُعا کے آدمی ہیں اِس لیے دوا سے زیادہ عقیدت نہیں رکھتے۔ جب درد ناقابل برداشت ہوا تو خاندانی ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ چیک اپ سے معلوم ہوا کہ گردے میں پتھری، جیسا کہ چشتی صاحب کی خاندانی روایت ہے، وارد ہوچکی ہے! مشورہ دیا گیا کہ چھوٹا سا آپریشن کرکے پتھری سے نجات پالیجیے مگر وہ نہ مانے۔ جس طرح اوراد و وظائف سے جِنّات بھاگتے ہیں بالکل اُسی طرح چشتی صاحب آپریشن سے بھاگتے ہیں! لوگوں نے بہتیرا سمجھایا کہ گردی کی پتھری کے خلاف آپریشن ڈاکٹرز کریں گے، رینجرز نہیں! مگر اُنہیں کسی پر، حتیٰ کہ اپنے عقیدت مندوں اور خاندانی ڈاکٹر پر بھی بھروسہ نہ تھا۔
چشتی صاحب کو پتھری کا جو علاج سُجھایا جاتا رہا کرتے رہے۔ کبھی چینی چاٹی تو کبھی دم کیے ہوئے بادام کھائے۔ کبھی جنگلی پھولوں کا شہد چاٹا اور کبھی کڑوی جڑی بوٹیوں کا قہوہ پیا۔ پھر علاقے ہی میں ایک ڈاکٹر کی شہرت سُنی کہ وہ محض گولیوں سے پتھری کو ختم کردیتا ہے۔ خود پیر ہوتے ہوئے چشتی صاحب نے اُس ڈاکٹر کے آستانے پر حاضری دی اور پھر وہاں حاضری دینے کو معمول بنالیا۔ معمول یُوں بنا کہ گولیاں کھانے کے باوجود درد مستقل مزاجی سے بڑھتا ہی گیا۔ چشتی صاحب نے اُس ڈاکٹر سے شکایت کی کہ درد تو بڑھتا ہی جارہا ہے، پتھری کب ختم ہوگی۔ جواب ملا: ''جناب! یہ بھی کوئی درد ہے؟ کوئی کے ٹو یا ہمالیہ کی چوٹی ہے کہ سَر نہ ہو؟ یہ درد تو کچھ ہے ہی نہیں، گردوں کا ایک سے بڑھ کر ایک درد محض ہماری گولیوں سے گیا ہے۔‘‘
چشتی صاحب یہ باتیں سن کر مروّتاً چُپ رہے اور گولیاں کھاکر درد کو پالتے رہے۔ جب درد ناقابل برداشت ہوا تو پھر خاندانی ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انہوں نے ایکس رے کروایا تو پتا چلا کہ پتھری خاصی بڑی ہوچکی ہے! خاندانی ڈاکٹر ہی کے مشورے پر چشتی صاحب ایک بڑے ہسپتال گئے تاکہ آپریشن کے حوالے سے مشورہ کرسکیں۔
چشتی صاحب کا ہسپتال جانا ایک اور تماشے کا سبب بن گیا۔ ہسپتال کے ایک وارڈ میں چشتی صاحب کا سامنا اُسی ڈاکٹر سے ہوگیا جس کی دی ہوئی درد کُش گولیاں کھانے سے معاملہ اِس حد تک بگڑا تھا کہ اُنہیں ہسپتال جانا پڑا تھا! چشتی صاحب سمجھے کہ وہ ڈاکٹر شاید ہسپتال کے پینل کا حصہ ہے۔ مگر چند ہی لمحات کے بعد وہ ہسپتال کے بستر دراز دکھائی دیا۔ چشتی صاحب نے خیریت دریافت کی تو اُس نے بتایا کہ گردے میں چھوٹی سی پتھری ہے، بہتر یہ جانا کہ چھوٹا سا آپریشن کرکے نکلوادی جائے تاکہ بعد میں کوئی بڑی الجھن کھڑی نہ کرے!
یہ سُننا تھا کہ چشتی صاحب تو آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے۔ اُنہوں نے منتخب مغلظات سے اُس ڈاکٹر کی تواضع کی اور قریب تھا کہ اُس کی باضابطہ، آفیشل انداز سے دُھنائی بھی شروع کرتے کہ وہاں موجود طِبّی عملے نے بیچ بچاؤ کرادیا۔ چشتی صاحب نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ جو شخص اپنے گردی کی پتھری نکلوانے کے لیے بستر پر لیٹا ہے وہ لوگوں کو گولیوں پر ٹرخاکر اُن کے گردوں کی پتھریاں توانا کرنے کا ماہر ہے!
اُس ڈاکٹر پر چار حرف بھیج کر چشتی صاحب نے متعلقہ ڈاکٹرز سے مشورہ کیا تاکہ آپریشن کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوا جاسکے۔ یہ کوئی آسان مرحلہ نہ تھا۔ چشتی کے لیے کسی خبیث جِن کو بھاگنے پر مجبور کرنے سے زیادہ دشوار مرحلہ تھا خود کو آپریشن ٹیبل پر لیٹنے کے لیے آمادہ کرنا! اِس مرحلے میں معاونت کرنے والا کوئی ورد یا وظیفہ اُنہیں یاد نہ آیا! تھک ہار کر خود کو ڈاکٹرز کے حوالے کیا اور آپریشن ٹیبل پر لیٹنے کے لیے تیار ہوگئے۔ یہ سارا قصہ چند برس پہلے کا ہے۔ تب تو پتھری نکال لی گئی تھی مگر اب پھر پتھری یعنی پتھری نمبر دو کی پیدائش واقع ہوچکی ہے۔ گویا چشتی صاحب کے لیے ؎
اِک اور دریا کا سامنا تھا مُنیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا!
والی صورت حال پیدا ہوچکی ہے! چشتی صاحب کی زندہ دلی اور بذلہ سنجی کے تو ہم قائل ہیں مگر یہ بات ہماری سمجھ میں نہ آئی کہ کسی کی آنکھوں کو ذرا غور سے دیکھ کر ''اثرات‘‘ بتانے کی صلاحیت رکھنے والی ہستی گردے کے درد کو گولیوں سے دباکر پتھری کو تگڑی بنانے والے ڈاکٹر کی آنکھیں کیوں نہ پڑھ سکی! ہم نے یہ بات چشتی صاحب سے کہی تو بولے : ''میاں! ہم کیا اور ہماری بساط کیا؟ بس یہ سمجھ لو، اللہ نے کچھ عزت دے رکھی ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔ آج کے زمانے میں جِنّات کو کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ انسانوں سے اُلجھیں؟ آج کے انسان ایسی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ بہت سے شریر جِنّات بھی اُنہیں دیکھ کر ہی پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں! اِسی کیفیت کے لیے بزرگوں نے کہا ہے کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ! اب حالت یہ ہے کہ بہت سے جِنّات انسانوں سے بچنے کے عملیات ڈھونڈتے پھرتے ہیں!‘‘
یہ بات سُننے کے بعد ہم نے چشتی صاحب کی روحانی صلاحیتوں سے استفادے کا خیال دل سے نکال دیا، ورنہ ہماری خواہش تھی کہ میڈیا کی دنیا کے چند احباب کے دل و دماغ پر سوار نادیدہ و پراسرار طاقتوں کا کچھ علاج چشتی صاحب سے کروائیں! چشتی صاحب نے تو مایوس کردیا۔ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے اپ گریڈ ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔