"MIK" (space) message & send to 7575

ایک بچہ اور سہی

اگر کوئی بات آسانی سے سمجھ میں نہ آرہی ہو تو محققین بہت گھما پھراکر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آپ کے دماغ کی چُولیں اچھی طرح ہل جائیں۔ اگر چراغ ہوں اور بجھے ہوئے ہوں تو آپ تاریکی کا رونا روتے رہیں گے۔ تحقیق کرنے والے ایسی چال چلتے ہیں کہ چراغ ہی نہ رہیں تاکہ اندھیرے کو خوش دِلی کے ساتھ، حتمی مقدر کی حیثیت سے قبول کرنے کے سِوا چارہ نہ رہے! بہت سے موضوعات کو محققین نے اِس طرح پامال کیا ہے کہ اب اُنہیں نئی زندگی ملتی دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی موضوع سخت جان ہو اور ڈِھٹائی پر اُتر آئے تو اور بات ہے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ محققین جسے ٹِکٹِکی پر لٹکادیں وہ موضوع پھر کہیں نہیں رہتا! 
محققین کسی بھی معاملے کو براہِ راست بیان کرنے یا اُس پر سیدھے اور سادہ طریقے سے تحقیق کرنے کو اپنے ''فن‘‘ کے لیے زہر سمجھتے ہیں۔ ایک عام آدمی کے نزدیک یہ بات زیادہ اہم نہ ہوگی کہ کان اِدھر سے پکڑو یا اُدھر سے مگر محققین کے لیے تو یہ ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ والا معاملہ ہے! اُن کی تو دال روٹی ہی اِس بات پر چل رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، معاملات کو الجھایا جائے، گھما پھراکر اِس طرح بیان کیا جائے کہ پورا معاملہ ہی چکراکر گِر پڑے اور پھر کبھی نہ اُٹھے! 
اگر کوئی یہ کہے کہ گھر میں سُکون نہیں یعنی بیوی کے ہاتھوں پریشانی کا سامنا ہے تو ماہرین کا ''تیر بہ ہدف‘‘ قسم کا مشورہ یہ ہوگا کہ بیوی کے ہاتھوں مزید پریشان ہونے سے بچنے کے لیے دوسری شادی کرلیجیے! اگر کوئی معترض ہو کہ یہ کیا بات ہوئی، اِس طرح تو پریشانی دُونی ہوجائے گی ... تو محققین کی طرف سے جواب ملے گا اِس طریقے پر عمل کرنے سے انسان پہلی بیوی سے نصف پریشان ہوگا بلکہ باقی نصف پریشانی دوسری بیوی کے ہاتھوں واقع ہوگی! یعنی اگر کوئی گھریلو پریشانیوں کو کم کرنا چاہتا ہے تو اِس نُسخے پر عمل کرتے ہوئے چار شادیاں کرلے تاکہ پریشانی چار حصوں میں بٹ کر کم محسوس ہو! محققین کی محنت سے مستفید ہونے والے بہت سے ڈاکٹرز یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں یعنی کوئی جوڑوں کے درد کی شکایت لے کر آئے تو اُسے سخت سردی میں ٹھنڈے پانی سے نہانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اگر بندہ کہے کہ اِس طرح تو نمونیا ہوجائے گا تو جواب ملتا ہے: ''تب ہی تو ہم علاج کرسکیں گے کیونکہ ہم نمونیا کے ایکسپرٹ ہیں!‘‘ 
اگر آپ کو سستی چیز خریدنی ہو تو محققین کسی نہ کسی طرح تحقیق کرکے مشورہ دیں گے کہ پہلے آپ کوئی چیز خرید لیجیے، پھر اُسے فروخت کرنے کا اشتہار دیجیے اور پھر کسی کو پیسے دے کر بھیجیے یعنی اپنے پاس بلائیے اور وہ چیز نصف سے بھی کم یعنی معمولی قیمت پر خرید لیجیے! آپ سوچیں گے یہ کیا احمقانہ بات ہوئی۔ عرض ہے کہ تحقیق کرنے والوں کی محنت اور اُس کے نتیجے پر غور کیجیے گا تو ہمیں بخشتے ہوئے یہی رائے آپ اُن کے بارے میں قائم کیجیے گا! 
آج کل ہر جہالت بدوش معاملہ امریکہ سے آتا ہے، بالخصوص امریکی پالیسیوں کی دنیا سے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے زمانے بھر کے بہترین دماغوں کے ساتھ ساتھ بدترین حماقتیں بھی اپنے ہاں جمع کرلی ہیں۔ امریکہ میں محققین کو دیوتا سمجھ کر پوجا جاتا ہے۔ کوئی اگر بِلّی یا کُتّا پالنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے ماہرین سے رابطہ کرتا ہے جو تحقیق کی روشنی میں اُسے حیوانوں کی نفسیات سے آگاہ کرتے ہیں اور بہت معمولی نوعیت کی ''ڈی بریفنگ‘‘ کی بھی خاصی ہوش رُبا فیس وصول کرتے ہیں۔ اپنی کھانسی کی پروا نہیں لیکن اگر کُتّے کو کھانسی ہوجائے تو لوگ فوراً محققین اور ماہرین کی طرف لپکتے ہیں۔ اور پھر اُن کے مشورے سُن کر کُتّا بھی ہاتھ جوڑتے ہوئے کہتا ہے کہ آئندہ کھانسوں تو جو چور کی سزا وہ میری! 
صحت کے حوالے سے تحقیق کا تقریباً 90 فیصد زور موٹاپا ختم کرنے پر ہے۔ امریکہ میں لوگ کھانے پینے کے معاملے میں خطرناک حد تک لاپروا ہیں یعنی ایسی چیزیں کھاتے رہتے ہیں جن سے موٹاپا بڑھتا جاتا ہے۔ جاگنگ اور ورزش کا رجحان بھی ہے مگر فاسٹ فوڈ نے معاشرے کے جسم پر چربی کی تہیں چڑھادی ہیں۔ موٹاپے سے نجات کے نُسخے تجویز کرنا امریکہ میں محققین اور ماہرین کا بہترین کاروباری مشغلہ ہے یعنی شغل کا شغل، دام کے دام! لوگ ماہرین سے ملتے ہیں، معقول فیس دے کر مشورہ لیتے ہیں مگر ''احتیاطاً‘‘ عمل نہیں کرتے۔ اِس کا نتیجہ موٹاپے کے برقرار رہنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ موٹاپے سے بچنے کا امریکی محققین نے کیسا نادر نُسخہ تجویز کیا ہے۔ پڑھ کر آپ بھی پھڑک اٹھیں گے۔ 
یونیورسٹی آف مشیگن کے محققین کی نظر پہلوٹھی کے بچوں پر پڑی ہے۔ کسی گھرانے کا پہلا بچہ اگر فربہ اندام ہو تو ماں باپ بہت پریشان رہتے ہیں کہ اِسے دُبلا پتلا اور پُھرتیلا کیسے رکھیں۔ محققین نے پہلوٹھی کے بچے کو دُبلا پتلا اور چاق و چوبند رکھنے کا یہ نُسخہ تجویز کیا ہے کہ اُس کا ایک آدھ بھائی یا بہن ضرور ہو! 
کیوں حیران رہ گئے نا؟ محققین اِسی طور حیران و پریشان کیا کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف مشیگن کے محققین کہتے ہیں کہ عام طور پر ماں باپ پہلے بچے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اُسے زیادہ کھلاتے ہیں جس سے وہ موٹا ہو جاتا ہے اور گود میں لیے پھرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ چلتا پھرتا نہیں اور یُوں جسم پر چربی چڑھتی جاتی ہے۔ دوسرے بچے کی غایت یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلوٹھی کے بچے کو مسابقت درپیش نہیں ہوتی اس لیے اُس میں سُستی در آتی ہے۔ اگر پہلوٹھی کے بچے کا چھوٹا بھائی یا بہن ہوگی تو یہ دوسرا بچہ بڑے بھائی کی چیزوں پر جھپٹے گا، اُس کے کھلونوں سے کھیلنا چاہے گا۔ جب ایسا ہوگا تو بڑے بچے کو اپنی چیزیں بچانے کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑے گی، ہر وقت متحرک رہنا پڑے گا۔ اور یُوں وہ ہر وقت متحرک رہنے کے نتیجے میں دُبلا بھی رہے گا اور پُھرتیلا بھی! 
دیکھا آپ نے؟ کسی گھرانے کے پہلے بچے کو موٹاپے سے بچانے کا ایسا تیر بہ ہدف نُسخہ تو آئنسٹائن جیسے نابغے کو بھی نہ سُوجھا ہوگا! محققین کے معاملے میں ہم آپ کے لیے یہی دعا کرنا چاہیں گے ع
خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں