گلی میں ہسٹری شیٹر رہتا ہو تو کوئی بھی واردات رونما ہونے پر شک کی سُوئی اُس کی طرف گھومتی ہے۔ یہی حال امریکہ ہے۔ اُس نے ایک صدی سے بھی زائد مدت تک دنیا بھر میں اِتنی گڑبڑ پھیلائی ہے کہ اب کہیں بھی کچھ ایسا ویسا ہو تو لوگ اُسی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اور لطف بالائے لطف یہ ہے کہ امریکی قیادت نے کسی بھی مرحلے پر ساکھ بہتر بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا۔ ایک ہی ہَلّے میں کئی ممالک، بلکہ پورے خطے کو تباہ کرنے کے بعد چند معمولی سے امدادی اقدامات کرکے یہ سوچا جاتا ہے کہ لوگ سب کچھ بھول بھال جائیں گے۔ ع
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
طاقت میں جیسے جیسے کمی واقع ہوتی جارہی ہے، امریکی قیادت بچی کھچی طاقت کو پوری شدت سے استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ زوال کا زمانہ کچھ طُول پکڑے۔ حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ امریکہ اپنی طاقت سے بہت حد تک محروم ہوجانے پر بھی دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ اِس وقت بنیادی مسئلہ امریکہ کو راستے سے ہٹانے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اِس تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاء کو کیسے پُر کیا جاسکے گا!
اسلامی دنیا نے بظاہر ٹریک تبدیل کرلیا ہے یا پھر یہ کہ ایسا کرنے کی تیاری کے حوالے سے حتمی مرحلے میں ہے۔ ترکی اور سعودی عرب نے مل کر جو 34 ملکی اتحاد تشکیل دیا ہے اُس کی عسکری قیادت پاکستان کو سونپنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ مشرق (بشمول اسلامی دنیا) اب اپنی طاقت منوانا چاہتا ہے اور طاقت کا مرکز بننے کے مرحلے میں ہے۔ روس اور چین اگرچہ عالمی قیادت کے پوری طرح اہل نہیں مگر اُن کی (اور بالخصوص چین کی) معاشی قوت سے انکار ممکن نہیں۔ روس بھرپور
عالمی قوت بننے کی پوزیشن میں تو نہیں مگر اس کی حالت ایسی گئی گزری بھی نہیں۔ ترکی، پاکستان، عرب امارات، خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب سے مل کر روس اور چین نیا بلاک بنانا چاہتے ہیں تاکہ طاقت کا عالمی مرکز مشرق کی طرف منتقل ہو۔ امریکہ اور یورپ پر مشتمل مغربی دنیا نے ڈھائی تین صدیوں تک دنیا پر راج کیا ہے۔ معاملہ راج کرنے تک محدود رہتا تو کچھ نہ تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ راج بہت سوں کو تاراج کرنے پر منحصر رہا ہے۔ جاپان ایک زمانے سے نرم قوت کی بات کر رہا ہے یعنی دنیا پر حکمرانی کرنا ہے اور اعلیٰ مقام پر رہنا ہے تو علوم و فنون اور معاشی قوت کے ذریعے آگے بڑھو۔ امریکہ اور یورپ نے تین صدیوں تک صرف عسکری قوت کے ذریعے اپنی بات منوائی ہے۔ چین اب تک نرم قوت کے ذریعے بات منوانے کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے۔ اب یورپ بھی اِسی راہ پر گامزن ہے۔ عسکری مہم جُوئی میں امریکہ کا ساتھ دینا یورپ کی مجبوری بھی ہے اور سب سے بڑا امتحان بھی۔ امتحان یوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں پوری اسلامی دنیا سمیت کئی خطوں سے بات بگڑنے کا خدشہ ہے۔
امریکہ اور یورپ نے کئی صدیوں تک دنیا کا شدید استحصال کیا ہے۔ جدید علوم و فنون میں پیش رفت کو انہوں نے اپنی عسکری قوت بڑھانے اور کمزور ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ یورپی ممالک اب نرم قوت کو سب سے پرکشش آپشن کی حیثیت سے اپنانا چاہتے ہیں۔ عسکری مہم جُوئی کا راستہ ترک کرکے وہ جدید علوم و فنون کی مدد سے اخلاقی اور ثقافتی بلندی کی راہ پر گامزن ہونے کے خواہش مند ہیں۔ امریکہ کے لیے یہ سب کچھ ہضم کرنا بہت دشوار ہے۔ دھونس دھمکی کی دکان وہ تنہا نہیں چلا سکتا۔ دنیا بھر میں وہ تن تنہا غنڈہ گردی کا بازار گرم نہیں رکھ سکتا۔ اُسے یورپ سے معاونت درکار ہے۔ اسلامی دنیا میں امریکہ دو ڈھائی عشروں سے جو کچھ کرتا آیا ہے وہ یورپ کی معاونت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ اب عالمی سطح پر طاقت کا توازن مشرق کی طرف منتقل ہونے کے آثار ہیں تو امریکہ سخت پریشان ہے اور یورپ کو آنے والے وقت سے ڈراکر اپنی طرف رکھنا چاہتا ہے۔ یورپ اور افریقہ جڑے ہوئے ہیں۔ افریقہ میں اسلامی ممالک بھی بڑی تعداد میں ہیں اور اِن سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد یورپ میں آباد بھی ہیں۔ ایسے میں یورپ کے لیے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہنا اور قدم قدم پر اس کی حماقت بدوش پالیسیوں کا ساتھ دینا ناقابل عمل ہوتا جارہا ہے۔
انڈر ورلڈ کا اصول ہے کہ کوئی ساتھ چھوڑے تو اُسے دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ امریکہ عالمی سیاست کے انڈر ورلڈ کا ڈان ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ یورپ ٹریک تبدیل کرے۔ امریکہ جو کچھ کرتا آیا ہے وہ سب کچھ تن تنہا کرتے رہنا اُس کے لیے کسی طور ممکن نہیں۔ اُسے ہر حال میں یورپ کا ساتھ چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ طرح طرح کی خرابیاں پیدا کرکے، یورپ کو ڈرا دھمکاکر اپنی طرف رکھنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ یورپ میں رائے عامہ کو اپنے حق میں رکھنے کی خاطر امریکہ وہ سب کچھ کر رہا ہے جو ایسے عالم میں کیا جاسکتا ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ہَوّا کھڑا کرکے ''اسلامو فوبیا‘‘ کو عملی شکل دی جارہی ہے۔ امریکی قیادت یورپ میں دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے یہ تاثر ہر یورپی باشندے کے دل میں کھونٹے کی طرح گاڑنا چاہتی ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانے کے درپے ہیں!
یورپ کے لیے فیصلے کی گھڑی آچکی ہے۔ ایک بڑا غلط فیصلہ اُسے پوری اسلامی دنیا اور کئی دوسرے خطوں کی ناراضی کا ہدف بنا سکتا ہے۔ اگر روس اور چین مل کر ایک مضبوط بلاک تشکیل دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو جاپان کو بھی لامحالہ اِسی بلاک کی طرف جھکنا پڑے گا۔ ایسا ہوا تو امریکہ اور یورپ کے لیے عالمی سیاست و معیشت میں اجارہ داری برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ اور یہ عمل شروع تو ہو ہی چکا ہے۔
یہ پیش گوئی بلا خوفِ تردید کی جاسکتی ہے کہ جیسے جیسے چین، روس، ترکی، پاکستان اور اسلامی دنیا کے دیگر ممالک مل کر مشرقی بلاک کو مضبوط کرتے جائیں گے، یورپ میں تخریب کاری اور دہشت گردی بڑھتی جائے گی اور ساری خرابی کا ذمہ دار مسلمانوں کو گردانا جاتا رہے گا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اہلِ یورپ کو مجموعی طور پر مسلمانوں سے انتہائی بدظن کردیا جائے یعنی اسلامو فوبیا کو اِس قدر ہوا دی جائے کہ مسلمانوں کو یورپ کی سرزمین پر قبول کرنے کی عمومی گنجائش بھی ختم ہو جائے!
یورپی طاقتوں کے لیے اصل امتحان یہ ہے کہ امریکہ کی مرضی کے خلاف جاکر باقی دنیا سے بہتر تعلقات کس طور استوار رکھے جائیں۔ اگر وہ بلا چُوں چرا کیے امریکہ کی مرضی کے تابع رہا تو اُس کے دشمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔
طاقت کے مرکز کی تبدیلی کا عمل امریکہ اور یورپ دونوں کے لیے سوہانِ روح ہے۔ ڈھائی تین صدیوں کا راج داؤ پر لگا ہو تو کون چاہے گا کہ ثانوی حیثیت سے گزر بسر کی جائے؟ امریکہ اور یورپ بھی اپنی برتری اور قائدانہ حیثیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ہاں، طاقت کو برقرار رکھنے کے عمل میں ناپسندیدہ حرکتیں زیادہ سرزد ہوتی رہیں تو معاملات کو کنٹرول کرنا مشکل تر ہوجائے گا۔
مشرق کے لیے بھی یہ وقت آسان نہیں۔ آزمائش سخت ہے۔ طاقت میں اضافے کا عمل کسی کی طاقت میں کمی کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ چین مجموعی طور پر غیر استعماری انداز سے چلتا رہا ہے۔ روس نے چند ایک ممالک میں بگاڑ ضرور پیدا کیا ہے مگر مجموعی طور پر وہ بھی قابل قبول ہے۔ ایسے میں اسلامی دنیا سے بہتر تعلقات کے ذریعے یہ دونوں بڑی طاقتیں (روس اور چین) ایک نئے بلاک کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ اور اگر چین اِن سے آ ملے تو امریکہ اور یورپ کے لیے رہی سہی کسر پوری ہوجائے گی۔ سرِ دست یورپ کو امریکہ سے محتاط رہنا پڑے گا۔ مسلمانوں کے خلاف ماحول بنائے رکھنے کے لیے یورپ کی سرزمین کو خرابیوں کی نذر کرنے کا سلسلہ رُکنا چاہیے، یعنی امریکہ کو اس عمل سے باز رکھنا ہوگا۔