"MIK" (space) message & send to 7575

پاناما لیکس کا شکریہ!

وکی لیکس والے کمزور پڑے تو اب پاناما لیکس والے میدان میں آگئے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کے نام پر ایسا شور مچا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں۔ پیالی میں طوفان اٹھانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ شکر خوروں کا نصیب اچھا ہے کہ انہیں کہیں نہ کہیں سے شکر مل ہی جاتی ہے۔ پاناما لیکس نے بھی یہی کیا ہے۔ جن کے پاس بولنے کے لیے بہت کم رہ گیا تھا اُنہیں کھل کر بولنے، بلکہ چیخ پکار کرنے کا بھرپور موقع ملا ہے۔ کون سی نئی بات ہے کہ اہلِ اقتدار اپنی سرزمین کا مال بٹور کر بیرون ملک کاروباری ادارے قائم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ قومی خزانہ بھلے ہی نہ لوٹا گیا ہو، ذاتی کاروباری اداروں کا ٹیکس بچانے کے لیے بھی بیرون ملک کچھ نہ کچھ کیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اندرون ملک کچھ الٹا سیدھا ہوجانے پر بیرون ملک اچھی زندگی بسر کرنا ممکن رہے۔ ہمارے اہلِ اقتدار کا بھی بنیادی مسئلہ یہی رہا ہے۔ وہ اپنے ہی ملک اور اس کے نظام پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مینڈیٹ ملنے پر وہ ریاستی مشینری کے ساتھ مل کر جو نظام چلاتے ہیں اُسی پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہے قوم کا سب سے بڑا المیہ۔ 
قوم سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ جن کے ہاتھ میں ہم نے ملک کا اقتدار و اختیار دے رکھا ہے انہیں اگر اپنے ہی نظام پر بھروسہ نہیں تو پھر سیاست کس کھاتے میں کر رہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ لگانے پر مائل کرنے کی کوشش کرنے والے حکمرانوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کوئی کیوں یہاں سرمایہ لگائے گا جبکہ آپ خود بیرون ملک سرمایا لگا رہے ہیں! 
سوئی ہوئی اپوزیشن تھوڑی سی جاگی ہے۔ پاناما لیکس نے تھوڑا بہت ہنگامہ ضرور برپا کیا ہے۔ میڈیا پر کچھ شور ہے، ہلچل ہے۔ تحریک انصاف کو اچانک یاد آیا ہے کہ اُسے انصاف یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ دس پندرہ دن پہلے کی بات ہے۔ پاناما لیکس کا جھنڈا نہیں لہرایا تھا تو تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں چوہے مارنے پر تُلی ہوئی تھی۔ ٹھیک ہے، انسان یا حکومت کو کبھی بیکار نہیں بیٹھنا چاہیے۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہنے ہی میں بھلائی ہے کہ اِس بہانے میڈیا والے بھی کیمرے اور مائکروفون لے کر پہنچتے ہیں۔ پاناما لیکس والوں کی مہربانی کہ خبروں میں زندہ رہنے کے لیے چوہوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوجانے والوں کو کچھ ایسا دیا ہے جس کے بارے میں بول کر وہ زیادہ آبرو مندانہ انداز سے قوم کے سامنے پیش ہوسکتے ہیں! 
پاناما لیکس نے کوئی ایسی حیرت انگیز چیز طشت از بام نہیں کی جس کی بنیاد پر کوئی بڑا ہنگامہ برپا کیا جاسکے۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے خواہ مخواہ جذباتی ہوکر استعفیٰ دے دیا۔ ہمارے ہاں ایسے بہت سے معاملات اچھلتے رہتے ہیں مگر بہت نچلی سطح پر بھی کوئی استعفیٰ سامنے نہیں آتا۔ آئے بھی کیسے؟ ہمارے لیڈر ترقی یافتہ ممالک کے لیڈرز کی طرح ''کمزور اعصاب‘‘ کے نہیں ہیں کہ ذرا سا دباؤ پڑا اور مستعفی ہوکر چل دیئے! ہمیں تو ترقی یافتہ ممالک کے وزرائے اعظم اور کابینہ کے ارکان پر حیرت ہوتی ہے کہ ذرا سا دباؤ تو ان سے برداشت نہیں ہوتا اور کسی چھوٹی سی غلطی پر بھی مستعفی ہونے کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر اتنی ترقی اور خوش حالی کیسے حاصل کی! اکثر سننے میں آتا ہے کہ چین، جاپان، جنوبی کوریا یا پھر یورپ میں کسی پر کرپشن کا الزام لگا اور اس نے استعفیٰ پیش کردیا۔ ہمارے خیال میں تو یہ ''بزدلی‘‘ اور ''اعصابی کمزوری‘‘ ہے۔ بندے میں ''دم‘‘ ہونا چاہیے۔ لیڈری کے لیے انسان کو محض لیڈر نہیں بلکہ اچھا خاصا ڈھیٹ بھی ہونا چاہیے۔ بات بات پر مستعفی ہونا تو قوم کو مزید الجھن میں ڈالنا ہے۔ ہم نے خیر سے ایسے لیڈر پیدا کیے ہیں جو بڑے سے بڑا دباؤ بھی خندہ پیشانی سے جھیلتے رہتے ہیں اور کبھی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلنے کا نہیں سوچتے یعنی مستعفی نہیں ہوتے! 
وکی لیکس نے سیاسی سطح پر قیامت ڈھائی تھی۔ پاناما لیکس نے معاشی امور بے نقاب کیے ہیں۔ جن ممالک میں نظام ''کمزور‘‘ ہے وہاں ضرور خرابیاں پیدا ہوئی ہوں گی۔ برطانیہ ہی کی مثال لیجیے۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پہلے تو یہ کہا کہ بیرون ملک کمپنیاں ان کے والد کی ہیں مگر پھر ہتھیار ڈالتے ہوئے اعتراف کرلیا کہ وہ خود کو اس معاملے میں بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ ڈیوڈ کیمرون نے تو ہمیں مایوس کردیا۔ ہم سمجھ رہے تھے وہ تمام معاملات کو باپ پر ڈال کر ایک طرف ہٹ جائیں گے اور یونین جیک لہراتے رہیں گے۔ اگر وہ چند لمحات کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ لیتے تو یقیناً اقتدار میں معزّز ڈھنگ سے رہنے کا کوئی نہ کوئی نسخہ ضرور پاجاتے۔ ٹھیک ہے، انگریز ہم پر راج کرتے رہے ہیں۔ اور کسی نہ کسی طور اب بھی کر ہی رہے ہیں مگر اب ایسا بھی نہیں ہے کہ انہیں سِکھانے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں۔ بہت سے معاملات میں ہم انگریزوں کے بھی باپ ہیں۔ وہ ہم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً اقتدار سے چمٹے رہنے کا ہنر، کسی بھی طرح کی ذلّت کا کوئی اثر قبول نہ کرنے کا فن وغیرہ وغیرہ۔ 
عمران خان اینڈ کمپنی نے کمال کردیا ہے۔ پاناما لیکس نے انگلی تھمائی تو وہ پہنچا پکڑ کر جُھول گئے۔ ایسا ہنگامہ کھڑا کیا ہے کہ اہلِ وطن حیران ہیں۔ کوئی بھی سمجھ نہیں پارہا کہ آخر پاناما لیکس پر اس قدر شور مچانے کی ضرورت کیا ہے۔ شریف خاندان نے ایسا کون سا غلط کام کیا ہے کہ اُس پر یوں کیچڑ اچھالا جائے؟ جو لوگ ایک زمانے سے ایوان اقتدار میں ہیں کیا انہیں بیرون ملک چند کمپنیاں چلانے کا بھی ''حق‘‘ نہیں؟ یہ تو ''ظلم‘‘ ہے۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ایکسائز یا کسٹم کے کلرک کئی کئی کروڑ کی سرمایہ کاری سے کامیاب کاروباری ادارے چلا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی اقتداری خاندان بیرون ملک محض دوچار کمپنیاں بھی نہیں چلائے گا تو معمولی کلرکوں سے مات کھا جائے گا ... اور جن سے ووٹ حاصل کیے ہیں اُنہیں کیا منہ دکھائے گا! 
پاناما لیکس کی مہربانی سے اتنا تو ہوا کہ عمران خان کی ایک دبی ہوئی خواہش ہونٹوں پر آئی۔ ایک زمانے سے وہ وزیر اعظم بننے کی خواہش دل میں دبائے بیٹھے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سِلوائی ہوئی شیروانی بھی شاید اب تنگ ہوگئی ہوگی۔ ایک بات طے شدہ ہے۔ یہ کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے کرنے کے لیے تقریر انہوں نے تیار کر رکھی ہے۔ یہ بات ہم پورے یقین سے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کی اجازت دی جائے! ارمان کسی حد تک تو نکل ہی جانا چاہیے۔ وزیر اعظم تو جب بنیں گے تب بنیں گے، خطاب پہلے کرلیا جائے تاکہ قوم محروم نہ رہے! 
خان صاحب کو اندازہ تو ہوگا کہ ریاستی ٹی وی پر قوم سے خطاب کا استحقاق صرف صدر اور وزیر اعظم کا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین شاید اب تک کرکٹ کے زمانے میں جی رہے ہیں اور ملک کے معاملات کو بھی کرکٹ ٹیم کی طرح یعنی خالصاً اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں! 
پاناما لیکس کے قضیے میں ایک آواز پوری توانائی اور ''اولوالعزمی‘‘ کے ساتھ بلند ہوئی ہے۔ یہ ہے مولانا فضل الرحمٰن کی آواز۔ مولانا کہتے ہیں کہ پاناما لیکس سے کچھ نہیں ہوگا، نواز شریف کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ اور وزیر اعظم کے لیے کوئی خطرہ نہ ہونے کی دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ وہ خود بھرپور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ نواز شریف کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ ہم مولانا کی ایسی ہی اداؤں پر تو فِدا ہیں۔ جب کسی کا ساتھ دینے کا وہ طے کرلیتے ہیں تو مشکل گھڑی میں اسے چھوڑ کر نہیں بھاگتے۔ اور ''آف شور‘‘ جانے کا بھی کبھی نہیں سوچتے۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ مولانا کا ''کیس‘‘ بہت ''بریف‘‘ ہے۔ یہ کہ ؎ 
مہرباں ہوکے بلالو مجھے چاہو جس دم 
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں! 
اور سچ تو یہ ہے کہ اقتدار کے ایوان سے وہ جاتے ہی کب ہیں کہ بلانے کی ضرورت پیش آئے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں