"MIK" (space) message & send to 7575

رب کا شکر ادا کر بھائی!

کامیاب ممالک وہ ہیں جو زندگی کے ہر معاملے کو نظر میں رکھتے ہیں، تحقیق کا بازار گرم رکھتے ہیں اور بھرپور لگن کے ساتھ وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جو ترقی و خوش حالی کو برقرار رکھنے کے لیے لازم ہو۔ ایک زمانے سے ہم یہ سوچتے آئے ہیں کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک ہماری نئی نسل کو پیار محبت کے چکر میں کیوں پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو بگاڑنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں وہ ایسے مشکل اور پیچیدہ بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکیں۔ مگر جوانی کا زمانہ ہوتا ہی ایسا ہے کہ کسی کی سمجھ میں کام کی کوئی بات مشکل ہی سے آتی ہے۔ دل و دماغ پر صرف جذبات سوار رہتے ہیں۔ حواس محبت کے طوفانی جذبے کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں محبت کے پنجرے میں قید ایک نوجوان پنچھی نے جو کچھ کہا اُس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ترقی یافتہ ممالک ہمارے جیسے ممالک میں نوجوانوں کو اس جال میں پھانس کر کیوں رکھنا چاہتے ہیں۔ ہوا یہ کہ ایک نوجوان کو کسی لڑکی سے پیار ہوا۔ معاملے نے زور پکڑا تو لڑکے نے سوچا اِس سے پہلے کہ معاملہ گڑبڑ ہوجائے، لڑکی کے گھر رشتہ بھیجا جائے۔ اس نے گھر والوں کو سب کچھ بتایا۔ جو کچھ اس نے گھر والوں سے کہا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ ؎ 
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام؟ 
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا! 
قصہ مختصر یہ کہ بہت سارے بول بچن دے کر نوجوان نے اپنے گھر والوں کو رشتے کے لیے لڑکی کے گھر بھیجا۔ لڑکی کے گھر والوں نے جب دیکھا کہ لڑکا محبت تو کرتا ہے مگر محبت کے علاوہ کچھ نہیں کرتا تو پلک جھپکتے میں اِس نتیجے پر پہنچے کہ معاملہ گڑبڑ ہے یعنی لڑکی کو رخصت کرنے کے بعد اُسی طور پالنا پڑے گا جس طور فی الحال پالا جارہا ہے! لڑکی والوں میں جو تھوڑی بہت عقل پائی جاتی تھی انہوں نے اس سے بھرپور کام لیا اور رشتے سے انکار کردیا! 
(لڑکی بھی تھوڑی بہت تو عقل مند نکلی اور گھر والوں کی اجتماعی عقل کے نتیجے کو چیلنج کرنے سے باز رہی!) یہ انکار لڑکے کے دل و دماغ پر قیامت بن کر ٹوٹا۔ اُس کا دل ٹوٹ گیا۔ کئی دن کھانا پینا اچھا نہ لگا۔ ہم نے پوچھا بھائی، کب تک یہ غم پالوگے؟ بس، بہت ہوچکا۔ اب نارمل زندگی کی طرف آجاؤ۔ اُس نے رنج و غم میں ڈوبے ہوئے لہجے میں اعلان کیا : ''اب زندگی میں کچھ نہیں رکھا۔ میں جہاد پر چلا جاؤں گا!‘‘ 
اِسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا، پُھوٹے آنکھ! 
یہ بھی خوب چلن ہے کہ جب تک محبت کا چکر چل رہا ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر محبت ناکام ہوجائے تو جہاد پر جانے کی ٹھان لیجیے۔ دو ایک کیس اور سُنے ہیں کہ کسی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی محبت کو گلے لگایا یعنی کسی لڑکی سے معاملہ سیٹ کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ عہد و پیمان میں کچھ وقت گزرا۔ مگر جب بات آگے نہ بڑھی بلکہ ختم ہوگئی تو نوجوان دل برداشتہ ہوکر آرمی میں چلا گیا! 
اب ہم سمجھے کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک مختلف بہانوں سے ہمارے ہاں عاشقی کو فروغ کیوں دے رہے ہیں۔ عشق میں ناکامی بعض نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک دیتی ہے اور دوسرے بہت سوں کو جہادیوں کی صف میں کھڑا کردیتی ہے۔ یعنی ''میری نہیں ہوئی تو پھر یہ دنیا باقی ہی نہیں رہے گی‘‘ والی سوچ حواس پر غالب آجاتی ہے! 
ایک انڈین چینل پر گھر بھر کے لیے پیش کیا جانا یومیہ ڈراما ''الٹا چشمہ‘‘ سات آٹھ سال سے بہت مقبول ہے۔ اس میں ایک کردار ''پترکار پوپٹ لعل‘‘ کا بھی ہے۔ یہ صحافی بے چارا لاکھ کوشش کے باوجود اب تک شادی نہیں کرسکا ہے۔ جب بھی کہیں رشتے کی بات چلتی ہے، کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی ہوجاتی ہے۔ رشتے کی راہ میں کہیں نہ کہیں سے کوئی دیوار آ جاتی ہے۔ پوپٹ لعل کا معاملہ یہ ہے کہ ہر بار ؎ 
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند 
دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا! 
والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ بے چارا پوپٹ لعل اِس غم میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں دنیا سے کنوارا ہی رخصت نہ ہو جائے۔ اُس کی زندگی میں اور کوئی غم نہیں۔ گوکل دھام سوسائٹی میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں، بس ایک پوپٹ لعل کی زندگی پر غم کے سائے چھائے رہتے ہیں۔ اور آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ بے چارے پوپٹ لعل پر کیا گزرتی ہوگی۔ (ویسے پوپٹ لعل کو اس کے تمام 'انسان دوست‘ پڑوسی اچھی طرح سمجھا چکے ہیں کہ بھائی، اگر شادی نہیں ہوئی تو ہمارے انجام سے کچھ عبرت پکڑ اور بھگوان کا شکر ادا کر۔) پوپٹ لعل کا بھی وہی آرمی اور جہاد والا کیس ہے۔ شادی نہ ہو پانے سے اس کے اندر جو فرسٹریشن بھری ہوئی ہے وہ اکثر اُس کی زبان پر آجاتی ہے۔ وہ بات بات پر جِھلّاکر کہتا ہے ''دنیا ہلا دوں گا!‘‘ 
لو، کرلو بات۔ شادی نہیں ہوئی تو اِس میں دنیا کا کیا قصور؟ مگر پوپٹ لعل دنیا کو ہلانے پر بضد رہتا ہے! ہم اب تک یہ بات سمجھ نہیں پائے کہ جن کی شادی نہیں ہو پاتی وہ رب کا شکر ادا کرنے کے بجائے ساری دنیا کو برباد کرنے کے بارے میں کیوں سوچتے رہتے ہیں! فی زمانہ شادی شدہ زندگی میں جتنی قباحتیں ہیں اُن پر غور کیجیے تو شادی میں تاخیر پر انسان کو سکون کا سانس لیتے ہوئے رب کا شکر ادا کرنا چاہے مگر معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ 
یہ سب کچھ ہمیں اِس لیے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ایک ترک قصبے کے نوجوان شادی نہ ہو پانے پر پوپٹ لعل کی طرح حواس باختہ ہی نہیں بلکہ مشتعل بھی ہیں۔ جنوبی ترکی کی ریاست مرسین کے قصبے اوزملو میں 9 سال سے کوئی شادی نہیں ہوئی۔ قصبے کی آبادی ڈھائی سو ہے جس میں 25 تا 45 سال کی عمر کے مردوں کی تعداد 25 ہے۔ قصبے کی کوئی لڑکی اِن میں سے کسی سے بھی شادی کے لیے تیار نہیں۔ سبب اِس کا یہ بیان کیا جاتا ہے کہ لڑکیاں دیہی ماحول میں زندگی بسر کرنا نہیں چاہتیں۔ بیشتر لڑکیاں شہر منتقل ہوچکی ہیں اور جو رہ گئی ہیں وہ بھی اپنی مرضی کے ماحول میں شادی کی آرزو مند ہیں۔ اوزملو کے کنوارے اس صورت حال سے سخت برداشتہ ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ بینر اٹھائے سڑکوں پر آئے اور رشتہ نہ ہونے پر شدید احتجاج کیا۔ 
مرزا تنقید بیگ نے یہ خبر پڑھی تو دنگ رہ گئے۔ ہم ہفتہ وار ملاقات کے لیے ان کے گھر پہنچے تو مرزا سرد آہ بھرتے ہوئے ہم سے مخاطب ہوئے : ''خرابیوں اور پیچیدگیوں سے عبارت اِس دور میں اگر کسی کی زندگی پُرسکون گزر رہی ہے تو اِس پر بھی وہ مشتعل ہے! اِن ترک نوجوانوں کو اندازہ ہی نہیں کہ قدرت اُن پر کتنی مہربان ہے! بزرگوں نے سچ ہی کہا ہے کہ شادی وہ لڈو ہے کہ جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔‘‘ 
جب بھی اخبار میں شادی کے ''فوائد‘‘ سے متعلق کوئی خبر شائع ہوتی ہے ہم خبر والا صفحہ چھپا دیتے ہیں کیونکہ ایسی خبریں ہمارے گھر کے ماحول کو اسی سطح پر لے آتی ہیں جو ٹی وی پر کرنٹ افیئر کے ٹاک شو میں پائی جاتی ہے! اور پھر گھر کی چار دیواری بہت دیر تک سکون کو ترستی رہتی ہے! 
ترکی تو اچھا خاصا خوش حال ملک ہے۔ خواندگی کی شرح بھی خاصی بلند ہے۔ ہم سمجھتے تھے وہاں سمجھ دار لوگ پائے جاتے ہوں گے۔ مگر اِن کنوارے ترک نوجوانوں نے احتجاج کرکے محمد حسین آزادؔ کا کہا بالکل درست ثابت کردیا کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا! 
اکیسویں صدی کا انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ دنیا بھر میں تحقیق ہو رہی ہے کہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ پرسکون کیونکر بنایا جائے۔ اس حوالے سے بازار میں ہزاروں، بلکہ لاکھوں کتابیں دستیاب ہیں۔ انٹرنیٹ پر لاکھوں مضامین پڑھے جاسکتے ہیں جو ''ٹپس‘‘ سے بھرے ہیں۔ اور دوسری طرف تماشا یہ ہے کہ اگر قدرت کی مہربانی سے پرسکون زندگی کا اہتمام خود بخود ہوگیا ہو تو لوگ مشتعل ہوکر بینر اٹھائے سڑکوں پر نکل آتے ہیں! کہتے ہیں جان بچی سو لاکھوں پائے۔ یعنی جان بچ جانے پر سمجھنا چاہیے کہ دنیا مل گئی۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ سلامت رہنے پر احتجاج کیا جائے؟ شادی نہ ہونے پر احتجاج کرنے والے ہر ترک نوجوان سے ہم یہی کہیں گے ؎ 
رب کا شکر ادا کر بھائی 
جس نے اب تک جان بچائی!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں