زندگی کی شاہراہ پر سفر کو زیادہ آسان بنانے کی خاطر کسی ہم سفر کا انتخاب کوئی بہت پیچیدہ معاملہ نہیں مگر خیر ہو اہلِ جہاں کی جنہوں نے اِس معاملے کو اب کائنات کے ایک بڑے مسئلے میں تبدیل کردیا ہے۔ لیاقت علی عاصمؔ کا ایک شعر ہم ذرا سے تصرّف کے ساتھ عرض کر رہے ہیں ؎
جس کو دیکھو وہی شادی سے ڈراتا ہے مجھے
اِس محبت میں کوئی دوسرا ڈر ہے کہ نہیں!
کچھ ایسا ہی معاملہ گھریلو زندگی کا بھی ہے۔ ہر انسان کو گھر تو بسانا ہی ہوتا ہے مگر اِس عمل سے اِس قدر ڈرایا جاتا ہے کہ کبھی کبھی تو واقعی سب کچھ طلسمات کی دنیا جیسا لگتا ہے کہ مُڑ کر دیکھا تو پتھر کے ہوجائیں گے! پریشان کن بات یہ ہے کہ چند ایک شادی شدہ افراد کو گھریلو زندگی کی الجھنیں پتھر کا بنا بھی دیتی ہیں! ایسے لوگوں کا انجام دیکھ کر بہت سے کنوارے شادی کا ذکر چھڑتے ہی (اپنے) کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں!
ہم نے اپنے ماحول میں بہت سوں کو بعض لوگوں کے انجام سے سبق سیکھتے یعنی شادی کے نام سے بھاگتے دیکھا ہے۔ مگر خیر، بکرے کی ماں تادیر خیر نہیں منا پاتی اور چُھری کے نیچے آ ہی جاتی ہے۔ ہر معاشرے کی طرح ہمارا معاشرہ بھی شادی کے بعد کی زندگی کے حوالے سے بہت سی ایسی کہانیاں سُناتا ہے جو ہولناک ہوتی ہیں مگر خیر، یہ سب شادی کے بعد کی باتیں ہیں۔ جو اس راہ پر چل پڑتے ہیں وہ پلٹنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ سوچ یہ ہوتی ہے کہ ؎
جب چل پڑے سفر کو کیا مُڑ کے دیکھنا
دُنیا کا کیا ہے، اُس نے صدا بار بار دی
قصہ مختصر، شادی کے بعد مرد اور عورت دونوں ہی کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اوکھلی میں سَر دے ہی دیا ہے تو اب مُوسل سے کیا ڈرنا۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
شادی کے معاملے میں ہر معاشرے کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور اُن اصولوں کے مطابق ہی رسوم بھی ہوتی ہیں۔ شادی سے پہلے اور بعد کی بیشتر رسوم عورت اور مرد دونوں کو یہ باور کرانے کے لیے ہوتی ہیں کہ ؎
یہ ''عقد‘‘ نہیں آسان، بس اِتنا سمجھ لیجے
اِک آگ کا دریا ہے ... اور ڈوب کے جانا ہے!
مگر داد دینا پڑے گی کہ کوئی رسم خواہ کوئی پیغام دے رہی ہو، جنہیں گھریلو زندگی کا بھاری پتھر اٹھانا ہوتا ہے وہ اٹھاکر ہی دم لیتے ہیں۔ میر تقی میرؔ نے بھی سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی تھی کہ ؎
''عقد‘‘ میرؔ! ایک بھاری پتھر ہے
کب یہ مجھ ناتواں سے اٹھتا ہے؟
مگر یاروں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور اِس بھاری پتھر کو اٹھا اٹھاکر چُومتے ہی آرہے ہیں!
شادی کی انوکھی رسوم کے حوالے سے بیشتر معاشروں میں بہت عجیب و غریب رسوم پائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی شادی کے موقع پر رسوم کا گورکھ دھندا ایسا پھیلتا ہے کہ میلے کا سماں پیدا ہو جاتا ہے! کسی سے بھی پوچھ دیکھیے کہ یہ ہلّا گُلّا کیوں ہوتا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ شادی چونکہ خوشی کا موقع ہوتا ہے اس لیے سب مل کر خوشی مناتے ہیں، دل کی گہرائیوں سے مسرّت کا اظہار کرتے ہیں۔ بالکل ٹھیک۔ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے مگر ہم اپنے ذہنِ نارسا کی مدد سے کچھ سوچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سوال خوشی منانے سے زیادہ ان کی توجہ بٹانے کا ہے جن کے نام پر یہ خوشی منائی جارہی ہوتی ہے! جن کی شادی ہو رہی ہوتی ہے وہ بھی اِس میلے کی رنگینیوں میں گم ہوکر ''زمانہ مابعدِ شادی‘‘ کی ہولناکیوں اور سختیوں کو کچھ دیر کے لیے بھول جاتے ہیں! شادی والے گھر میں طرح طرح کی رسوم اور رواج کا دولہا اور دلہن کے حواس کے لیے وہی کردار ہوتا ہے جو انجیکشن لگانے سے قبل کلورو فارم میں بھیگے ہوئے روئی کے ٹکڑے کا ہوتا ہے۔ بازو کو سُوئی کی چُبھن سے بچانے کے لیے کلورو فارم میں بھگویا ہوا روئی کا ٹکڑا مسلا جاتا ہے۔ بس کچھ ایسا ہی کام شادی سے متعلق رواج بھی کرتے ہیں۔ کرشن بہاری نُورؔ نے ایسی ہی کیفیت کو یُوں بیان کیا ہے ؎
اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹوٹے خُدا کرے
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دکھائی دے!
ہمارے معاشرے کا شمار ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں لڑکا جوان ہو تو اِس سے پہلے کہ اُسے کیریئر کی یعنی کچھ کر دکھانے کی فکر لاحق ہو، والدین شادی کا سوچنے لگتے ہیں۔ اگر بیٹوں کی طرف گرین سگنل نہ مل رہا ہو تو مائیں آنچل پھیلا پھیلاکر اُن سے شادی کے لیے رضامند ہونے کی استدعا کرتی ہیں۔ اور جب بیٹوں کی شادی ہوجاتی ہے تو آنچل پھیلاکر استدعا کرنے کی قیمت بہوؤں سے وصول کرتی ہیں!
بات ہو رہی ہے شادی سے جُڑی ہوئی رسوم کی۔ بھارت کے ساتھ ساتھ افریقی معاشرہ بھی اِس معاملے میں غیر معمولی امتیاز رکھتا ہے۔ ان معاشروں میں شادی کے موقع پر اِتنا ہلّا گُلّا ہوتا ہے کہ ایک بڑے انٹرٹینمنٹ ایونٹ یا ڈراما فیسٹیول کا سماں پیدا ہونے سے باز نہیں رہتا!
کینیا چونکہ افریقا میں ہے اس لیے وہاں بھی شادی بیاہ کی عجیب و غریب رسوم پائی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک رسم ''سپانا‘‘ کہلاتی ہے۔ رسم یہ ہے کہ لڑکا جب بیس سال کا ہوجائے یعنی شادی کا خیال اُس کے دماغ اور خواہش دل میں انگڑائیاں لینے لگے تو بزرگ جمع ہوتے ہیں اور اُسے شکار پر بھیجنے کی تیاری کرتے ہیں! ارے، یہ کیا؟ شادی اور شکار! آپ عجلت میں کوئی غلط اندازہ نہ لگائیں۔ رسم یہ نہیں ہے کہ جسے شادی کرنے ہے وہ لڑکی کا شکار کرے۔ معاملہ یہ ہے کہ جسے شادی کرنی ہو اُسے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ ایک بھرپور زندگی بسر کرنے اور گھر چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہ ثابت کرنے کے لیے اُسے کوئی ایسا کام کرنا ہوتا ہے جس سے اُس کے پُرعزم اور طاقتور ہونے کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اب آپ ہی سوچیے کہ ایسا کام کیا ہوسکتا ہے؟
ہم نے شکار کا ذکر کیا۔ جی ہاں، شادی کی خواہش رکھنے والے لڑکے کو جنگل میں جاکر جنگلی سانڈ یعنی بھینسے کا شکار کرنا ہوتا ہے! بھینسے کی طاقت تو آپ جانتے ہی ہیں۔ جو بھینسے یعنی سانڈ کا شکار کرے اُسے تو طاقتور تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔
معاملہ بھینسے کے شکار پر ختم نہیں ہوتا۔ شادی کے خواہش مند نوجوان کو شکار کیے ہوئے بھینسے کا خون بھی پینا پڑتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں دونوں رواج برمحل ہیں۔ فی زمانہ شادی شدہ زندگی بسر کرنا ایسا ہی ہے جیسے یومیہ بنیاد پر بھینسے کا شکار کیا جائے۔ اور شادی کے بعد مرد اور عورت دونوں ہی کو روزانہ (اپنے) خون کے گھونٹ پینا پڑتے ہیں! ثابت ہوا کہ شادی کے حوالے سے تمام رسوم الل ٹپ نہیں ہوتیں۔ بعض رسوم موقع کی مناسبت سے بھی ہوتی ہیں اور شادی کے بعد کی زندگی کے لیے بہتر تربیت کا اہتمام کرتی ہیں!
ویسے یہ بات کتنی عجیب ہے کہ ''قربانی کے بکروں‘‘ سے بھینسے کا شکار کرایا جائے! ہوسکتا ہے کہ بزرگوں کے ذہن میں لڑکوں کی بھلائی ہو۔ یعنی شادی کے بعد معمول کے جھگڑوں کے دوران بیوی طعنہ مارے کہ تم نے کیا ہی کیا ہے تو لڑکا سینہ تان کر کہے بھینسا مارا تھا بھینسا! اور بے چارا جنگلی بھینسا بھی قابلِ رحم ہے کہ ایک خالص انسانی معاملے کے لیے اُسے جان سے جانا پڑتا ہے!