پاناما لیکس کا پوٹلا جب سے کھلا ہے، سیاست دان لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں۔ اور عوام بے چارے سکتے کی سی حالت میں ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کسے سچا جانیں اور کسے جھوٹا۔ دعووں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ ایسی بڑھکیں ماری جارہی ہیں کہ پنجابی فلموں کے رائٹرز بھی سُن کر تھوڑے بہت تو شرمندہ ضرور ہوتے ہوں گے!
کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کون کیا کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ کچھ کرنا چاہتا بھی ہے یا نہیں۔ وقت کو دھکّا دیا جارہا ہے۔ بہت شور مچتا ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مگر پھر اچانک خاموشی چھا جاتی ہے۔ قبرستان کا سا سنّاٹا پورے ماحول پر محیط ہو جاتا ہے۔ عوام ایسے میں ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ زیادہ تکلیف اس دعوے سے پہنچتی ہے کہ یہ سب کچھ قوم کے وسیع تر مفاد میں کیا جارہا ہے! عوام حیران ہیں کہ اگر سیاست دان یہ سب کچھ ان کے مفاد میں کر رہے ہیں تو پھر عملی سطح پر کچھ بھی ہوتا دکھائی کیوں نہیں دیتا۔ کیا اعمال اور اقدامات نے بھی سلیمانی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے؟ اور عمل کی بات تو جانے ہی دیجیے، یہاں تو خیالات بھی خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب بنیاد ہی کمزور ہو تو عمارت کے دیرپا ہونے کا تصوّر کیسے کیا جاسکتا ہے؟
پاناما لیکس پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایسی ٹھنی ہوئی تھی کہ لوگ سوچ سوچ کر سہم جاتے تھے کہ کہیں معاملہ خون خرابے تک نہ پہنچ جائے۔ منّتوں اور مرادوں سے پائی ہوئی جمہوریت کے کھو جانے کا دھڑکا سا لگا رہتا تھا۔ پارلیمنٹ کو جمہوریت کی سب سے بڑی نشانی، علامت اور اثاثہ خیال کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کے استحکام کے نام پر رچایا جانے والا یہ کیسا سوانگ تھا کہ پارلیمنٹ تو کہیں بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ ساری دھما چوکڑی پارلیمنٹ سے باہر تھی۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں بنے ہوئے چھجّے کے نیچے میڈیا والوں سے خوب بتیایا جارہا تھا۔ دل کی تھوڑی بہت بھڑاس نکالنے کے بعد عوام کے منتخب نمائندے بھاگم بھاگ ٹی وی چینلز کے اسٹوڈیوز پہنچتے تھے اور باقی بھڑاس وہاں نکالی جاتی تھی۔ ٹی وی کے ٹاک شوز کا یہ حال تھا کہ سیاست کی ساری رونق اُن میں سمٹی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ ہر لڑائی میڈیا کے میدان میں لڑنے کا شوق اس قدر پروان چڑھ چکا ہے کہ اب اِس سے ہٹ کر کچھ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی جاتی۔ پاناما لیکس کے حوالے سے بھی سارا شور شرابہ میڈیا کے محاذ ہی پر ہوا۔ ہاں، ذرا سی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ جلسوں کے چمن پر بھی بہار آگئی۔ حلق پھاڑ کر مخالفین کو لتاڑنے کا شوق میڈیا پر پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ تھوڑی بہت کسر رہ گئی یا کمی محسوس ہوئی تو جلسوں کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور جلسوں کی ٹرین اب تک فرّاٹے بھر رہی ہے۔
جلسوں کے نام پر شہر شہر سیاسی سرکس لگانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور یہ سب کچھ عوام کو ''حقائق‘‘ سے باخبر رکھنے کے نام پر ہو رہا ہے۔ عوام حیران ہیں کہ آخر وہ حقائق ہیں کہاں جنہیں بیان کرنے کے نام پر اتنا بہت کچھ کیا جارہا ہے۔ مگر خیر، وہ زیادہ پریشان بھی نہیں اور صورت حال کو خوب انجوائے کر رہے ہیں۔ کیوں نہ کریں؟ مفت کی تفریح ہاتھ لگی ہے۔ عوام نے غالبؔ کے اس مصرع کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے کہ ع
مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے!
جمہوریت میں جلسے اپوزیشن کا ہتھیار ہوا کرتے ہیں مگر اب کے کچھ انوکھا ہوا ہے۔ اپوزیشن کا ہتھیار وزیر اعظم نے بھی اٹھالیا ہے۔ اب وہ بھی جلسوں کی پگڈنڈی پر چل رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے جلسوں کو عوام سے رابطے کی مہم قرار دیا جارہا ہے۔ عوام مزید حیران ہیں کہ کیسا رابطہ اور کہاں کا رابطہ؟ دن رات ٹی وی پر وزیر اعظم کو دیکھتے تو ہیں، پھر جلسے کس کھاتے میں ہیں؟ مگر خیر، اُن کے لیے یہ بھی تفریح ہی کا سامان ہے۔ اس بہانے عوام کو چند نئے وعدے سُننے کو ملیں گے۔ سیانے کہتے ہیں کسی کو گُڑ نہ دے پاؤ تو کم از کم گُڑ جیسی بات تو کرو۔ حکومت کی عنایت ہے کہ عوام کی ڈھارس بندھانے کے لیے وعدوں اور دعووں کو تھوڑا بہت re-shuffle تو کیا جارہا ہے!
اپوزیشن نے پاناما لیکس کے حوالے سے جو شور مچایا تھا وہ سمندر کے جھاگ کے مانند اس وقت بیٹھ گیا جب وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں ''انٹری‘‘ دی! قوم کو توقع تھی کہ قومی اسمبلی کے فلور پر کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔ اپوزیشن اپنے دعووں کو درست ثابت کرنے کے لیے شواہد کے نام پر کچھ تو پیش کرے گی۔ وزیر اعظم نے واضح کردیا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کا دائرہ جب وسعت اختیار کرے گا تو پارسائی کا دعوٰی کرنے والے بھی محفوظ نہ رہ سکیں گے۔ یہ دو ٹوک انتباہ تھا جسے سمجھنے میں اپوزیشن نے کوئی غلطی نہ کی۔ میڈیا پر چیخ چیخ کر وزیر اعظم سے پارلیمنٹ میں آنے کا مطالبہ کرنے والوں نے ایک بار پھر قوم کو حیران کردیا۔ تماشا یہ ہوا کہ جب وزیر اعظم قومی اسمبلی کے فلور پر گرجے اور برسے تو اپوزیشن رہنماؤں کے ہونٹوں پر چُپ کے تالے لگ گئے۔ ذرا سی دیر میں شور و شغف کے بادل چَھٹ گئے۔ بقول شہزاد احمد ؎
اب نہ وہ شور، نہ وہ شور مچانے والے
خاک سے بیٹھ گئے خاک اڑانے والے
جواب تو کیا دینا تھا، ایوان میں بیٹھے رہنا بھی گوارا نہ کیا گیا اور واک آؤٹ کا آپشن اپنایا گیا۔ کہاں تو اپوزیشن دعوے کرتی نہیں تھک رہی تھی کہ اُس کے پاس تمام شواہد ہیں اور وزیر اعظم کو ہر حال میں احتساب کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ اور کہاں یہ عالم کہ آن کی آن میں چراغوں میں روشنی نہ رہی! کسی کی زبان کبھی کوئی روک سکا ہے؟ کہا جارہا ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کا میچ فکسڈ تھا! سچ تو یہ ہے کہ ہر معاملے میں میچ فکس کرنا بھی اب ہمارے لیے ''نیشنل فکسیشن‘‘ کا درجہ اختیار کرگیا ہے!
اپوزیشن نے رات دن طرح طرح کی باتیں کرکے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ میڈیا پر نمودار ہونے والے تجزیاتی بزرجمہر کہتے نہیں تھک رہے تھے کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ ہر دن آخری دن قرار جارہا تھا۔ مگر وہ آخری دن آکر نہ دیا!
وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں انٹری دے کر وہی کیا ہے جو فلم میں ہیرو اپنی انٹری کے ذریعے کرتا ہے ... یعنی مخالفین کی دُھنائی۔ اب ہر طرف ''شانتی‘‘ ہے۔ پاناما لیکس کا پوٹلا کھلنے پر جو لوگ احتساب کا چُھرا تھام کر وزیر اعظم کی طرف لپکے تھے وہ اب اپنے ہی چُھرے سے بچنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاست کے حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ ایسے میں کوئی کسی کا احتساب کیا کرے، کیسے کرے۔ کسی کو سنگسار کرنے کے لیے مجمع لگانا کون سا مشکل کام ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پتھر مارنے کا حقدار اور مجاز کون ہوسکتا ہے؟ وہ کہ جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو؟ یہاں بھی تو یہی مشکل پڑی ہوئی ہے۔ جس جس کا دامن بدعنوانی کے داغوں سے اٹا ہوا ہے وہ احتساب کی بات کر رہا ہے! اور جب احتساب کا تیر پلٹ کر اُس کی طرف آتا ہے تو وہ دُم دباکر بھاگ نکلتا ہے۔ اور بعض تو اتنا بھی نہیں کر پاتے کیونکہ بے چارے دُم کٹے ہیں!
قومی سیاست کے حوالے سے جن کا شعور ابھی بہت نچلی سطح پر ہے وہ بھی سمجھتے تھے کہ پاناما لیکس کا جھاگ کچھ دن میں بیٹھ جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اب صرف بھرتی کے بیان داغے جارہے ہیں۔ قوم کا شاید یہی مقدر ہے۔ بھرتی کے بیان اور بھرتی کے اقدامات۔ یہاں ہر جھاگ کے نصیب میں بیٹھ جانا ہی لکھا ہے۔ ؎
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سَحر تک