آج کا انسان بھی عجیب الجھنوں کا شکار ہے۔ ایک تناؤ ختم ہوتا نہیں کہ دوسرا تیار ملتا ہے۔ مسائل اور مصائب کا ایک پہاڑ ہے کہ سَر پر دَھرا ہے۔ اِس پہاڑ کا بوجھ سہارتے رہنا آج کے انسان کا مقدر ہے۔
دنیا بھر کے ماہرین میں دوڑ سی لگی ہے کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ راحت حاصل کرنے کے طریقے کس طور سُجھائیں۔ تناؤ دور کرنے سے متعلق تحقیق نے ماہرین کو عجیب سے تناؤ کا شکار کر رکھا ہے۔ وہ تحقیق کے پنجرے میں بند ہوگئے ہیں۔ آگے نکلنے کی خواہش نے اُن کے سُکون کے پَر کتر ڈالے ہیں۔ قدم قدم پر تحقیق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا تناؤ عام آدمی کے ساتھ ساتھ ماہرین کے لیے بھی دشواریاں پیدا کر رہا ہے۔ انسان کو زیادہ سے زیادہ راحت اور سُکون سے ہم کنار کرنے کی خاطر مشوروں اور تجاویز کا بازار گرم ہے۔ سب اپنا مال بیچنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ جی بھر کے منجن بیچ رہے ہیں!
ہم کراچی میں رہتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، سمندر بھی دیکھ رکھا ہے۔ سمندر کی تاثیر کیا ہوتی ہے یہ بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب ماہرین نے بتایا ہے تو ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ سمندر تو بہت کام کا آئٹم ہے! امریکا کی مشیگن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ہیلتھ جیو گرافی کے ماہرین نے ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ بلند و بالا عمارتوں اور گنجان آباد علاقوں میں رہنے والوں کے مقابلے میں سمندر کے کنارے رہنے والے زیادہ پُرسکون رہتے ہیں۔ سمندر کے کنارے کچھ بیٹھنا دل و دماغ کو بے مثال تازگی فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کے کنارے رہنے والوں کا پُرسکون طبیعت کا حامل ہونا معاشی حیثیت اور دیگر امور پر بھی منحصر ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سمندر کے کنارے چہل قدمی طبیعت کو فرحت سے ہم کنار کرکے پورے وجود کو تازگی کی منزل تک پہنچاتی ہے۔
مثل مشہور ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر۔ کراچی ساحلی شہر ہے۔ دنیا بھر میں وہ لوگ ساحل کی سیر کو ترستے ہیں جو سمندر سے بہت سے دور، میدانی یا کوہستانی علاقوں میں رہتے ہیں۔ ہم کراچی کے ہیں اور کراچی ہمارا ہے لہٰذا دونوں ہی کے لیے گھر کی مرغی دال برابر ہے۔ کراچی بہت کچھ ہے، دنیا اِس پر مرتی ہے۔ بڑی طاقتیں بھی اِس پر نظریں جمائے، بلکہ گاڑے ہوئے ہیں۔ مگر ہم اِسے درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ساحل کی سیر طبیعت کو فرحاں و شاداں رکھتی ہے۔ ہم اس معاملے میں قدرے لاپروا واقع ہوئے ہیں۔ ساحل پر گئے ہوئے ہمیں کئی برس ہوگئے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ ہم نے سمندر کے کنارے سے کنارا کر رکھا ہے!
اللہ کے خلق کیے ہوئے سمندر اور اس کے کنارے کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اگر ساحل کی سیر کو زیادہ نہیں جاتے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے سمندر اور اس کے ساحل سے کنارا کر رکھا ہے۔ بحیرۂ عرب بھی اِس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ وہ خود بھی ایک سمندر کے کنارے واقع ہے! کراچی بذاتِ خود سمندر سے کم ہے کیا؟ انسانوں کا ایک وسیع و عریض اور خاصا عمیق سمندر ہے جس کے کنارے بحیرۂ عرب کے کناروں سے ملتے ہیں! ایمان کی تو یہ ہے کہ اہلِ کراچی اب شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ ایک سمندر میں رہتے ہوئے دوسرے سمندر کو درخورِ اعتناء گردانیں یا نہیں!
بحیرۂ عرب کی فرحت بخش ہوائیں پورے کراچی کو اپنے آغوش میں لیے رہتی ہیں۔ سمندری ہوا کی بدولت موسم معتدل رہتا ہے۔ ہوا میں نمی کے باعث تھوڑی بہت چپچپاہٹ ضرور ہوتی ہے مگر بحیثیت مجموعی طبیعت بحال رہتی ہے۔ کسی بھی عمارت کے سائے میں کھڑے ہوجائیے اور ٹھنڈی ہوا سے لطف پائیے۔ یہ نعمت کسی کسی معمورے کا مقدر بنتی ہے۔
سمندر کے کنارے آباد ہونے کے باعث اب کراچی کا مزاج بھی سمندر جیسا ہوگیا ہے۔ ماہرین لاکھ کہیں کہ ساحل پر رہنے والے طبیعت میں گرانی کم محسوس کرتے ہیں، اہلِ کراچی کا حال یہ ہے کہ اُن کے مزاج میں سمندر کی بہت سی خصوصیات بڑھتی جاتی ہیں۔ سمندری پانی میں نمک کا تناسب فیصلہ کن حد تک زیادہ ہوتا ہے یعنی اِس پانی کو کسی خاص عمل سے گزار کر پینے کے قابل بنائے بغیر پیا نہیں جاسکتا۔ کراچی اور اہلِ کراچی کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ مزاج میں نمک بڑھتا جارہا ہے۔ نمکین مزاج نے ایک مدت سے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سمندر کی آب و ہوا میں چپچپاہٹ اچھی خاصی ہوتی ہے اس لیے سمندری مزاج کے حامل کراچی کی آب و ہوا میں بھی چپچپاہٹ پائی جاتی ہے۔ ڈیڑھ دو سال پہلے تک اسٹریٹ کرائمز کی چپچپاہٹ اِتنی تھی کہ اہلِ شہر کی طبیعت یومیہ بنیاد پر مُکدّر رہتی تھی۔ اسٹریٹ کرائمز کی چپچپاہٹ نے شہر کے عمومی مزاج میں خوف کے ساتھ چڑچڑے پن کا تناسب بھی خطرناک حد تک بڑھا دیا تھا۔ اب ذرا شہر کی طبیعت اعتدال پر آئی ہے۔
سمندر میں پینے کا پانی انتہائی کمیاب ہونے کے باعث سونے جیسا قیمتی ہوتا ہے۔ کراچی بھی انسانوں کا سمندر ہے ... تو پھر کراچی میں پینے کا پانی کمیاب اور سونے کے دام والا کیوں نہ ہو! پینے کے پانی کا بحران کراچی کو لپیٹ میں لیے رہتا ہے۔ دنیا کے ہر خطے کی طرح کراچی اور اس کے ارد گرد کا پورا خطہ بھی کبھی پتھر کے دور سے گزرا ہوگا۔ اُس کے بعد لوہے اور پھر صنعت و حرفت کا زمانہ آیا ہوگا۔ وہ تمام ادوار گزر گئے مگر ایک دور ایسا ہے کہ کراچی کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ہے قلّتِ آب کا دور! اِس وقت بھی کراچی قلّتِ آب کے دور سے گزر رہا ہے۔
سمندر کی ایک خصلت بے قابو ہو جانا بھی ہے۔ یہی خصلت اب کراچی میں بھی در آئی ہے۔ انسانوں کا یہ سمندر بھی بیشتر معاملات میں بے قابو ہی رہتا ہے، بالخصوص زمینوں اور دیگر سرکاری وسائل پر قبضے کے معاملے میں! عادات و اطوار کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جس طور سمندر میں موجیں اٹھتی ہیں بالکل اُسی طور بحیرۂ عرب کے کنارے آباد یہ انسانی سمندر بھی تموّج آشنا رہتا ہے۔ بحیرۂ عرب تو جتنا تھا اُتنا ہی ہے۔ اِس کے آباد انسانی سمندر کی وسعت میں البتہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کراچی کے مکین دو سمندروں کے درمیان جی رہے ہیں اور شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کس سمندر کے کنارے فرحت پائیں! ؎
میں کہاں جاؤں، ہوتا نہیں فیصلہ
اِک طرف اُس کا گھر، اِک طرف میکدہ!
اہلِ کراچی کے ذہنوں میں پایا جانے والا تناؤ مشکل ہی سے کم ہو پاتا ہے۔ کچھ دن سُکون سے گزرتے ہیں اور پھر حالات کا پرنالہ پھر اپنے اصل مقام پر بہنے لگتا ہے۔ شہر کے لوگ بھی حالات کے عادی ہوچکے ہیں۔ جس طور سمندر اپنے آغوش میں بہت کچھ سموئے ہوئے ہوتا ہے بالکل اُسی طور کراچی بھی سمندر کے مانند پورے ملک سے ہر رنگ و نسل و ثقافت کے لوگوں کو سموئے ہوئے ہے۔ سوا دو کروڑ سے زائد آبادی میں جب مختلف المزاج اور مختلف الخیال لوگ ہوں گے تو حالات میں سمندر کا سا تموّج بھی پیدا ہوگا۔ یہ کوئی ایسی غیر فطری بات نہیں جس پر حیران و پریشان ہوا جائے۔
سمندر کی فرحت بخش ہوا خوب سہی مگر مشکل یہ ہے کہ اہلِ کراچی کا مزاج اب کچھ اور چاہتا ہے۔ وہ اب مشکلات اور پریشانیوں کے ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ فرحت بخش ہوائیں حبس کا سماں پیدا کردیتی ہیں! الجھنوں کی ایسی عادت پڑگئی ہے کہ سلجھن دکھائی دے تو طبیعت مزید الجھ جاتی ہے! ؎
اتنے مانوس صیّاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے!
ماہرین کی تحقیق اپنی جگہ اور بحیرۂ عرب کی فرحت بخش ہوائیں بھی اپنی جگہ مگر کیا کیجیے کہ اہلِ کراچی کے مزاج کو اب حبس کی کیفیت راس ہے! بحیرۂ عرب کو ہم یہی مشورہ دیں گے کہ اپنے کناروں کی ٹھنڈک اور تازگی سنبھال کر رکھے۔ اگر کبھی انسانوں کے سمندر نے اپنا مزاج بدلا اور حبس کو پچھاڑنے کی خواہش نے دلوں میں انگڑائیاں لیں تو اصل سمندر سے بھی ضرور استفادہ کیا جائے گا!