"MIK" (space) message & send to 7575

سفید ہاتھی

بے زبان جانوروں نے ہر دور میں زبان دار، بلکہ زبان دراز جانور یعنی انسان کو شرمندہ کرنے کی اپنی سی کوششیں کی ہیں۔ یہ تو انسان کی ''استقامت‘‘ اور ''اولوالعزمی‘‘ ہے کہ وہ بے زبان جانوروں کی کوششوں سے متاثر نہیں ہوتا، کسی بات کو دل پر نہیں لیتا اور اپنی ''تابندہ روایات‘‘ پر ڈٹا رہتا ہے ورنہ لینے کے دینے پڑ جائیں! 
شیر اور ہاتھی جنگل میں طاقتور ترین جانور تسلیم کیے جاتے ہیں۔ دونوں کی انوکھی دنیا ہے۔ ہاتھی اس اعتبار سے تھوڑی سی اخلاقی برتری رکھتا ہے کہ وہ بہت طاقتور ہو کر بھی اپنے سے کہیں کمزور جانوروں کو خواہ مخواہ ہلاک نہیں کرتا اور گھاس پھوس پر گزارا کرتا ہے۔ اور یہ کہ وہ اب تک ایک ایسی روایت کا امین ہے جو کبھی انسانوں کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔ ہم معاشرت کی بات کر رہے ہیں۔ ہاتھیوں میں اب بھی معاشرتی نظام پایا جاتا ہے۔ ہاتھی مل کر رہتے ہیں اور ہر مصیبت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ویسے تو شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہاتھی کے سامنے اُس کی شان بھی ماند پڑ جاتی ہے اور جنگلی حیات پر دستاویزی فلمیں بنانے والوں نے بارہا دیکھا ہے کہ ہاتھی سامنے آ جائے تو شیر کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی! ہاتھی کا جُثّہ ہے ہی ایسا کہ اُسے دیکھ کر ہر جانور کا دم نکلنے لگتا ہے۔ 
ہاتھی ہے بہت عجیب جانور۔ جُثّہ ایسا ہے کہ کوئی بھی اُس سے ٹکرانے کا نہیں سوچتا اور اگر وہ ضِد پر آئے تو بستی کی بستی اجاڑ دے‘ مگر یہی ہاتھی جب کسی کے اشاروں پر ناچنے کو راضی ہو جائے تو لوگ ٹکٹ لے کر تماشا دیکھیں! انسانوں سے تربیت پانے کے بعد ہاتھی سرکس میں کرتب دکھا کر لوگوں کا دل بہلاتا ہے۔ کہاں تو جنگل میں شیر اور بھینسے سے نہ ڈرنا اور کہاں سرکس میں سائیکل چلانا! 
اللہ نے جتنے بھی جاندار خلق کیے ہیں اُن میں صرف انسان ہے جو دوسرے جانداروں کو سِدھا کر اپنے کام کا بنا سکتا ہے اور اگر ایک قدم آگے جائے تو اُنہیں اپنا گرویدہ بھی بنا سکتا ہے۔ تھائی لینڈ میں ہاتھیوں کے لیے تیارکردہ پناہ گاہ میں لوگ ایسا ہی ایک منظر دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ لیک شائلرت کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے... ہاتھیوں کی نسل کو معدوم ہونے کے خطرے سے بچانا۔ شائلرت کی زندگی ہاتھیوں میں گزری ہے۔ وہ رات دن ہاتھیوں کی بقا اور بہبود کے لیے کام کرتی ہیں۔ بنکاک میں ہاتھیوں کے لیے بنائی گئی ایک پناہ گاہ میں لوگ شائلرت اور ہاتھیوں کے درمیان تال میل دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ ایک ہاتھی ایسا بھی ہے جو شائلرت سے لوری سُن کر سو جاتا ہے! فامائی کو اب شائلرت سے لوری سُنے بغیر نیند نہیں آتی۔ وہ جب سونے کے موڈ میں ہوتا ہے تب اپنی سُونڈ کی مدد سے شائلرت کو گلے لگاتا ہے۔ شائلرت لوری سُنانا شروع کرتی ہے اور پھر چند ہی لمحات میں فامائی گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے بعد لیٹ جاتا ہے۔ 
جانور سِدھانے والوں کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ شائلرت کی خدمات ویسے تو بہت سے ممالک کو درکار ہوں گی مگر ہماری ضرورت شدید تر ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے جانور ایسے ہیں جو قومی معاشرت و معیشت دونوں ہی کے لیے خطرہ ہیں۔ لازم ہو گیا ہے کہ ان سے کسی نہ کسی طور نجات حاصل کی جائے۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنا تو ہو کہ یہ ہمارے لیے زیادہ نقصان دہ نہ رہیں! 
آج کے پاکستان میں درجنوں جانور ہیں جو ہمارے قومی وجود کے لیے خطرہ ہیں۔ بے علمی کی جُونکیں خُون چُوس کر ہمارے ذہن و دل کی رگوں کو خشک کرنے پر کمربستہ ہیں۔ بے عملی کے سانپ ہمیں ڈس رہے ہیں۔ بے حِسی کے گِدھ ہمیں نوچ رہے ہیں۔ مکاری کے لگڑبگے ہمارے گرد ناچ رہے ہیں۔ ہڈ حرامی کے مگر مچھ ہمیں اپنے جبڑوں کے آغوش میں لینے کو بے تاب ہیں۔ بے راہ روی کی دیمک ہمارے اخلاق کے ہر سُتون کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اور بھی کئی جانور ہیں جو ہمارے وجود کے سَر پر خطرے کی طرح منڈلا رہے ہیں مگر دو جانور ایسے ہیں جو فوری توجہ چاہتے ہیں۔ یہ ہیں چوہے اور ہاتھی۔ 
ہماری معاشرت کو بے ایمانی، لاپروائی اور بے انتظامی کے چوہوں نے بُری طرح کُتر ڈالا ہے۔ چوہوں سے طاعون پھیلتا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم طاعون سے بہت آگے کے مرحلے میں ہیں۔ طاعون صرف جسم کو ختم کرکے اِس دنیا سے چلتا کر دیتا ہے۔ یہاں روح بھنبھوڑی جا چکی ہے... اور ہم خوش ہیں کہ جسم سلامت ہیں، سانسوں کا آنا جانا لگا ہوا ہے! ہمارے چاروں طرف بے ایمانی، لالچ اور بے ضمیری کے چوہے دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان چوہوں نے ہماری نَفسی ساخت کا وہی حشر کیا ہے جو شیر کے جبڑے ہرن یا کسی اور نازک و معصوم جانور کا کرتے ہیں! 
دوسرے نمبر پر ہاتھی ہیں یعنی سفید ہاتھی۔ ایک زمانے سے یہ سفید ہاتھی ہمارے ہر سفید کو سیاہ میں تبدیل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کیفیت کچھ یُوں ہے کہ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں! گویا محنت کسی کی ہو اور پھر کوئی اور کھائے۔ سفید ہاتھی قومی وسائل کو گنّوں کی طرح چُوس چُوس کر پھینک رہے ہیں۔ کئی ادارے ہیں جو سفید ہاتھی کا روپ دھار کر محض معیشت نہیں بلکہ پورے قومی وجود پر حقیقی بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ان سفید ہاتھیوں کا وجود معیشت اور معاشرت کے ایک بڑے حصے کو معدوم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ ہمیں لیک شائلرت کے سے ماہرین کی ضرورت ہے۔ ہمارا بہت کچھ ڈکارتے جا رہے سفید ہاتھیوں کو سُلانا اب لازم ہو گیا ہے۔ حکمرانوں سے یہ توقع وابستہ رکھنا فضول ہے کہ وہ اِن سفید ہاتھیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ کریں گے۔ یہ اُنہی کے تو پالے ہوئے ہیں۔ اب تو شائلرت جیسی چند ہستیوں کی خدمات میسر ہوں تو کچھ بات بنے۔ شائلرت سے لوری سُن کر فامائی سو جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ شائلرت کے سے مزاج اور خصوصیات والی چند شخصیات ہمارے ہاں بھی ہوں جو معیشت و معاشرت پر بوجھ بنے ہوئے سفید ہاتھیوں کو ایسی لوری سُنائیں کہ وہ سو جائیں اور پھر کبھی اُن کی نیند نہ ٹوٹے! 
شائلرت کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ ہاتھیوں کی باتیں سمجھ لیتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کی مدد سے ہم اپنے سفید ہاتھیوں کی مرضی اور عزائم معلوم کر سکتے ہیں۔ اگر سفید ہاتھیوں کے عزائم کا کچھ اندازہ ہو تو ہم اپنے دفاع میں کچھ تو کر سکتے ہیں۔ مگر ایک بات دھیان میں رہے۔ ہمارے ہاں کے سفید ہاتھی کئی جانوروں کا ملا جلا مزاج رکھتے ہیں۔ حصّہ لینے کی بات ہو تو یہ شیر ہیں اور کام کرنے کا معاملہ ہو تو گدھا گاڑی میں مرکزی یعنی گاڑی کھینچنے والے گدھے کے ساتھ نمائشی طور پر چلنے والے گدھے جیسے ہوتے ہیں! یعنی پہلا اور انتہائی دشوار مرحلہ تو ان سفید ہاتھیوں کے مزاج کو سمجھنا ہے۔ 
سفید ہاتھی جتنی دیر سوئیں گے، قومی وسائل ان کی دست بُرد سے محفوظ رہیں گے۔ ایسے سفید ہاتھیوں کو قومی وسائل ڈکارنے سے روکنا اور سُلانا ایسا آسان نہیں۔ لازم ہے کہ لوری زبردست اور آواز انتہائی شیریں ہو۔ فامائی خوش نصیب ہے کہ اُسے شائلرت جیسی مہربان دوست ملی ہے جو مدھر آواز میں لوریاں سُنا کر اُسے پُرسکون نیند سے ہم کنار کرتی ہے۔ اب دیکھیے، ہم اِتنے خوش کب ثابت ہوتے ہیں کہ ہمارے سفید ہاتھیوں کو بھی شائلرت ملے جو انہونی کو ہونی کر دکھائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں