ترکی میں جو کچھ ہوا وہ اتنا حیرت انگیز تھا کہ ہمارے ہاں بہت سوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کہیں کسی منظم فوج کی طرف سے بھرپور طاقت کا مظاہرہ ہو اور عوام کمر کس کر، جان کی پروا کیے بغیر، اُس کے سامنے ڈٹ جائیں؟ ترک عوام نے جو کچھ کیا وہ انتہائی حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی خوشگوار بھی تھا۔ ترکی سے ہمارے خاصے برادرانہ تعلقات ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں اور ہر سطح پر تعلقات مضبوط ہوتے گئے ہیں۔ ایسے میں ترکی کے معاملات میں ہمارا دلچسپی لینا کچھ غلط ہے نہ اچنبھے کی بات۔
ترکی میں فوج کے ایک گروپ نے جو کچھ کیا وہ ناکامی سے دوچار ہوا۔ اور وہاں کی ناکامی نے حیرت انگیز طور پر ہمارے ہاں کچھ لوگوں میں اچھا خاصا جوش و خروش پیدا کردیا۔ آن کی آن میں موازنے کا بُخار ایسا چڑھا کہ ہذیانی کیفیت میں جو اول فول منہ سے نکلتا ہے کچھ ویسی ہی باتیں زبانوں پر آنے لگیں۔ ہمارے ہاں جو لوگ سیاست اور سلامتی کے امور کے حوالے سے اپنے آپ کو بزرجمہر کے درجے پر فائز سمجھتے ہیں وہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، موازنہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں پر موازنے کا بخار چڑھا اور پھر ترکی اور پاکستان کے حالات و معاملات کا موازنہ کیا جانے لگا۔
پاکستان اور ترکی کے بہت سے معاملات میں یکسانیت اور ہم آہنگی ضرور پائی جاتی ہے مگر موازنہ کسی ایک یا چند پہلوؤں کی مناسبت سے نہیں بلکہ مجموعی اعتبار سے کیا جاتا ہے۔ کسی کے خیال میں ترک عوام کا رسپانس جمہوریت کی بقائِ دوام کا سامان تھا اور کسی کی نظر میں یہ سب کچھ ہمارے ہاں بھی ممکنہ طالع آزماؤں کے لیے نوشتۂ دیوار سے کم نہ تھا!
عمران خان نے ترکی کی صورتِ حال کو بنیاد بناکر وزیر اعظم پر چاند ماری شروع کی۔ ڈھول پیٹ کر پیش گوئی کی گئی کہ اگر پاکستان میں ترکی جیسی کوئی صورتِ حال نمودار ہوئی تو کوئی بھی میاں صاحب کا اقتدار بچانے سڑک پر نہیں آئے گا۔ مزید یہ کہ عوام مٹھائی بانٹیں گے۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین کے اِس بیان پر بہت لے دے ہوئی۔ اور اِس میں کچھ غلط بھی نہ تھا۔ جو کچھ عمران خان نے کہا کہ وہ اُن کی سیاسی ناپختگی کی ''تابندہ علامت‘‘ کے سوا کیا تھا؟
ترکی میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے ہاں نہیں ہے اور ہونے کا امکان بھی نہیں ہے۔ مثلاً ترک باشندوں کی واضح اکثریت ایک نسل سے تعلق رکھتی ہے، ایک زبان بولتی ہے، مشترکہ روایات کی امین ہے، مشترکہ مذہب و مسلک پر کاربند ہے، ایک ہی خطے سے تعلق رکھتی ہے، تاریخی وراثت بھی مشترکہ ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ترکی باضابطہ ترقی یافتہ ملک ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ وہ یورپی یونین کا رکن بھی ہوگا۔ جدت کیا ہوتی ہے اس کا ترک باشندوں کو بخوبی اندازہ ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں اپنے آپ کو معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور عسکری اعتبار سے خوب مستحکم رکھتے ہوئے کس طور آگے بڑھنا ہے۔
اب آئیے پاکستان کی طرف۔ ہم کل ایک قوم تھے نہ آج ہیں۔ پاکستان میں کئی نسلیں بستی ہیں۔ ان کی زبانیں مختلف ہیں، ثقافتی ورثہ یکساں نہیں، معاشرت بھی مختلف ہے۔ بود و باش اور علاقائی روایات میں بھی ہم آہنگی کا عنصر خاصا کمزور ہے۔ اکثریت کا مذہب اگرچہ ایک ہے مگر مسلک کی بنیاد پر تقسیم اِس قدر ہے کہ ایک قوم بننے کا مرحلہ ہزار سال دور دکھائی دیتا ہے۔ معاشی اعتبار سے بیشتر پاکستانی کمزور ہیں۔ جدید علوم و فنون میں بھی پاکستانیوں کی اکثریت طفلِ مکتب سے بھی گئی گزری حالت میں ہے۔ جدت کیا ہوتی ہے اِس کا اندازہ ہمیں خوب ہے کیونکہ جدید ترین اشیاء ہم درآمد کرکے استعمال کرتے ہیں مگر خیالات میں جدت اب تک پیدا نہیں ہوئی اور پیدا ہونے کے فی الحال امکانات و آثار بھی نہیں۔ ترکوں نے ایک زمانے تک اسلامی دنیا کی قیادت کا فریضہ انجام دیا ہے۔ وہ سُلطانی کے اسرار و رموز سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں اپنے موقف پر ڈٹے رہنا کیا ہوتا ہے۔ اِس وقت بھی اُنہیں یہی کیفیت درپیش ہے۔ اب یہ بات بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ امریکا ترک معاشرے میں انتشار برپا کرنے کے درپے ہے۔ ایک امریکی جرنیل کا نام بھی سامنے آیا ہے کہ اُس نے ترکی میں حالیہ ناکام فوجی بغاوت کی بنیاد رکھی۔ یہ سب کچھ حیرت انگیز نہیں۔ امریکا اور دیگر مغربی قوتیں ایک زمانے سے اسلامی دنیا میں افتراق و انتشار برپا کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ اسلامی دنیا کے لوگ محض صارفین بن کر رہیں۔ جیسے ہی کوئی دُکان کھولی جانے لگتی ہے، مغربی قوتوں کو اپنی دکانداری خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ صارفین کو صارفین بنائے رکھنے کی کوشش تیز کردیتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کا مسئلہ محض معاشی یا معاشرتی نہیں۔ یہاں تو مسائل کا انبار لگا ہے۔ آپس میں جُڑے ہوئے چند خطوں میں مختلف السان، مختلف الثقافت اور مختلف المسلک برادریاں بسی ہوئی ہیں۔ 1947ء سے اب تک کسی بھی مرحلے پر وہ عمل شروع نہیں کیا گیا جو اِن برادریوں کو ایک لڑی میں پروئے، قوم بنائے اور بھرپور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں مدد دے۔ اِس مملکت کے قیام سے اب تک جو کچھ ہوتا آیا ہے وہ ہمیں تقسیم در تقسیم کے عمل ہی سے گزار رہا ہے۔ اب بھی ہم ایک قوم بننے کی منزل سے کم و بیش ہزار سال ہی دور ہیں۔
جو کچھ ترکی میں ہوا وہ محض اِس قدر نہیں ہے کہ چند سَر پھروں نے گھروں سے نکل کر فوجی بغاوت کچلنے میں مرکزی و فیصلہ کن کردار ادا کیا بلکہ معاملہ یہ ہے کہ ترک قوم جڑیں رکھتی ہے اور مختلف پہلوؤں سے متحد ہے۔ معاملہ زبان، ثقافت، مذہب، مسلک، تاریخ اور زمین کے ایک ہونے کا تو ہے ہی مگر اِس سے ایک قدم آگے جاکر اُس بھرپور اعتماد کا ہے جو قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے لازم ہوا کرتا ہے اور پھر اِسی کی کوکھ سے جنم بھی لیتا ہے۔ ترک عوام اِس امر کا شعور رکھتے ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے کیسے جینا چاہیے۔
رجب طیب اردوان کی ایک کال پر ہزاروں افراد گھروں سے نکل کر ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوگئے تو اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی تھا کہ پہلے استنبول کے میئر، پھر وزیر اعظم اور اب صدر کی حیثیت سے رجب طیب اردوان نے ''ڈیلیور‘‘ کیا ہے۔ جو لوگ کچھ دیتے ہیں اُن کے لیے کچھ کرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے کہ جھجھک۔ ترک عوام جمہوریت کو بچانے کے نام پر دراصل اُن لوگوں کو بچانے نکلے تھے جنہوں نے قیادت کا حق ادا کیا، بنیادی مسائل حل کیے اور ملک کو مزید استحکام کی راہ پر آگے بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان کشمکش کچھ ہمارے معاشرے کی میراث نہیں۔ بہت سے اسلامی و غیر اسلامی معاشروں میں یہ تماشا ہوتا آیا ہے۔ اور عوام کا فیصلہ ہمیشہ اُن کے حق میں ہوتا ہے جو ''ڈیلیور‘‘ کرتے ہیں یا پھر ایسا کامیاب تاثر پیدا کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کچھ ''ڈیلیور‘‘ کیا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ عوام جنہیں اپنی قیادت کے لیے باضابطہ طور پر منتخب کرتے ہیں وہ عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع بندر بانٹ میں ضائع کردیتے ہیں۔ قومی خزانے پر اختیار نصیب ہوتے ہی یار لوگ اُسے لُوٹنے میں لگ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں عوام کیا کرسکتے ہیں؟ وہ جانتے ہیں کہ سیاست دان منتشر ہیں، فوج ایک ادارے کی حیثیت سے انتہائی منظم ہے۔ عوام وہیں جائیں گے جہاں نظم دکھائی دے گا۔
پاکستان کے حالات کا ترکی کے حالات سے موازنہ طفلانہ معصومیت یا پھر حماقت ہے۔ دونوں معاشروں کے حالات یکسر مختلف ہیں۔ بہت سے معاملات میں مماثلت کے باوجود بہت کچھ مختلف ہے۔ موازنہ کرکے اپنا اور قوم کا دل بہلانے والوں کو زمینی حقائق پر نظر ضرور رکھنی چاہیے۔ کسی ایک پہلو کو ذہن میں رکھ کر ڈھول پیٹنا یقیناً قابل ستائش عمل نہیں۔ سیاست دان یہ نہ بھولیں کہ وہ ''ڈلیور‘‘ کریں گے تب ہی عوام بھی ''ڈیلیوری‘‘ کے لیے سڑک پر آئیں گے!