"MIK" (space) message & send to 7575

تعلیم کہاں سے بیچ میں آ جاتی ہے!

ہم واقعی بہت جذباتی ہیں۔ ارے بھئی، ہم سے مراد ہم یعنی خود ہم نہیں بلکہ ہم تو پوری قوم کی بات کر رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب بھی ہمیں یعنی پوری قوم کو اپنے اندر کوئی خامی دکھائی دیتی ہے، ہم فوراً سے پیشتر اور ضرورت سے بہت زیادہ جذباتی ہوکر اپنے بارے میں بہت کچھ طے کرلیتے ہیں۔ 
اگر یقین نہیں آتا تو تعلیم ہی کا معاملہ لیجیے۔ ایک زمانے سے ہمارے ہاں تعلیمی معیار میں شدید گراوٹ کا رونا رویا جارہا ہے۔ جسے بھی کچھ کہنے کا موقع ملتا ہے وہ سب سے پہلے تعلیم کے شعبے کو ہدفِ ملامت بناتا ہے۔ جو موضوعات انتہائی گِھس چکے ہیں اُن میں تعلیم بھی شامل ہے۔
لکھاریوں اور دانشوروں کو تو خیر سمجھایا ہی نہیں جاسکتا۔ اگر وہ کوئی سمجھ لیں تو دانشور کاہے کے ہوئے! بیشتر سِکّہ بند دانشور ہماری نظر میں ''دان شور‘‘ ہیں کیونکہ یہ علم و حکمت کا دان (عطیہ و خیرات) تو کم کرتے ہیں، شور زیادہ مچاتے ہیں! وہ تعلیم کی بُری حالت کا بیان جس انداز سے کرتے ہیں اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بہت سے وٹامنز کی طرح تعلیم کی کمی کا بھی شکار ہیں! 
ہمارے دوستوں میں بھی تعلیم کے نام کا رونا رونے والوں کی کمی نہیں۔ ہم نے انہیں بارہا سمجھایا ہے کہ زیادہ دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ویسے تو دنیا بہت بڑی ہے لیکن اگر وسعت سے ڈر لگتا ہے اور بہت آگے دیکھنے والی آنکھیں اور بینائی عطا نہیں کی گئی تو مایوس ہونے اور احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ذرا آس پاس کے ماحول پر طائرانہ سی نظر ڈالیے اور دِل و نظر کا اطمینان پائیے۔ ہمارے پڑوس میں ایسے کئی ممالک ہیں جو بیشتر معاملات میں تعلیم کی شدید کمی سے دوچار ہیں مگر کبھی اِس معاملے کو جی کا روگ نہیں بناتے۔ بھارت ہی کی مثال لیجیے جہاں کروڑوں افراد ایک فیصد بھی تعلیم پائے بغیر پُرسکون اور کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں! اور سچ تو یہ ہے کہ اُن کی زندگی کا سُکون اور استحکام دیکھ کر بہت سے پڑھے لکھے بھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ اسکول نہ گئے ہوتے تو بہتر زندگی بسر کی جاسکتی تھی! ایسا اِس لیے ہے کہ تعلیم انسان کو بہت سے معاملات میں شدید الجھن سے دوچار کرکے دم لیتی ہے۔ ایسے میں پُرسکون زندگی بسر کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ تعلیم ہی تو ہے جس کا بلند معیار انسان کو زیادہ سے زیادہ سوچنے کی تحریک دیتا ہے، بلکہ اکساتا ہے۔ اگر انسان کی زیادہ تعلیم نہ کی گئی ہو تو وہ بہت سے معاملات میں سوچنے کی زحمت سے بچ جاتا ہے۔ اور فی زمانہ سوچنے کی زحمت سے بچ جانا بھی کسی نعمتِ عالی سے کم نہیں! 
ہم (یعنی پاکستانی قوم) خوش نصیب ہیں کہ بہت سے معاملات میں غیر ضروری طور پر سوچنے کی زحمت سے اچھے خاصے بچے ہوئے ہیں اور بہت حد تک پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں! 
جب بھی ہمارے ہاں سرکاری اسکولوں کی حالت سے متعلق کوئی خبر شائع ہوتی ہے تو لوگ تعلیم کا رونا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اساتذہ پڑھاتے نہیں۔ کوئی اس بات کا رونا روتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کو فنڈز نہیں ملتے جس کے باعث اُن کی حالت بہت خراب ہے یعنی عمارت خستہ ہے، عملہ پورا نہیں اور سہولتیں میسر نہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو بھوتوں سے تو نہیں ڈرتے مگر گھوسٹ اسکولوں کے نام کا ماتم کرکے ایک زمانے کو ڈرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں! 
سچ یہ ہے کہ ہمیں زیادہ مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر آپ جذباتی ہوئے بغیر اپنے خطے اور اس سے ذرا آگے کے حالات پر نظر دوڑائیں گے تو ایسا بہت کچھ دکھائی دے گا جو تعلیم کے حوالے سے آپ کے دِل کی تشفّی کا سامان کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ تقریباً اڑتیس سال قبل احمد رُشدی نے جو گیت گایا تھا اُسے بنیاد بناکر کبھی کچھ مت سوچیے۔ گیت کا مُکھڑا تھا ع 
اِک میں ہی بُرا ہوں، باقی سب لوگ اچھے ہیں! 
یقین کیجیے جب آپ پورے خطے کا مشاہدہ کریں گے تو اندازہ ہوگا کہ صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ خطے بھر میں تعلیم کی بھینس پانی میں جاچکی ہے! گھوسٹ اسکول صرف ہمارے ہاں نہیں، بیشتر بلکہ تمام پڑوسی ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے سرکاری اسکولوں میں انرولمنٹ شرم ناک حد تک کم ہے۔ مگر خیر، یہ کیفیت بہت سے بھارتی، بنگلہ دیشی اور نیپالی اسکولوں کی بھی ہے۔ اور افغانستان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ تعلیم کا وہاں جو حال ہے کیا وہ کسی سے ڈھکا چُھپا ہے؟ تو کیا افغانستان ختم ہوگیا؟ نہیں نا! بس، زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ 
اگر آپ کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ تعلیم کے شعبے کی خرابی کچھ اپنے ملک یا خطے ہی کی خصوصیت ہے تو آئیے، آپ کو اردن لے چلتے ہیں۔ اردن سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک اسکول کی کارکردگی اِتنی خراب رہی ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود طلباء وہ طالبات کو پڑھنا آیا نہ لکھنا۔ بورڈ کے امتحانات سے قبل جب اسکول کی سطح پر سالانہ امتحان لیا گیا تو نتائج اِس قدر حوصلہ شکن اور مایوس کن رہے کہ اسکول کو ایک سال کے بند کردیا گیا! 
مغلوب الجذبات ہو جانا شاید اِسی کو کہتے ہیں۔ اسکول کی انتظامیہ کی مایوسی بھی بلا جواز ہے اور اسکول کو بند کرنے کا فیصلہ بھی منطق سے یکسر عاری۔ بھلا ''اِتنی سی‘‘ بات پر کوئی اسکول کو بند کرتا ہے؟ بچوں کا پڑھنا لکھنا نہ سیکھ پانا یقیناً تھوڑی سی پریشان کن بات ہے مگر دل برداشتہ ہوکر اسکول بند کردینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ اسکول ناکام ہوا تو اُسے بند کردیا گیا۔ اِس سے تو یہ اُصول طے پایا کہ اگر ڈاکٹرز آپریشن کے ذریعے کسی کی جان بچانے میں ناکام رہیں تو اُنہیں بند کردیا جائے! اگر یہ اصول اپنالیا جائے تو دنیا کی دکانداری ہی ختم ہوجائے گی! ایسا ہے تو کل کو یہ کہا جائے گا کہ کوئی ملک ڈھنگ سے جی نہ سکتا ہو یعنی ناکام ریاست قرار پائے تو اُسے بھی بند کردیا جائے! 
تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سے بلکہ بیشتر شعبوں میں اعلٰی کارکردگی کا مظاہرہ ان لوگوں نے کیا ہے جو رسمی تعلیم پانے سے یعنی اسکول کا منہ دیکھنے سے محفوظ رہے ہیں! اس معاملے میں موجد تو واقعی بہت سنگ دل ثابت ہوئے ہیں۔ جنہیں کسی بھی وجہ سے کند ذہن قرار دے کر اسکول سے فارغ کردیا جاتا ہے وہ عملی زندگی میں قدم رکھ کر رسمی تعلیم کو بالکل غلط ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ایجاد کرکے وہ ''سسٹم‘‘ کا ناکام ثابت کرکے رہتے ہیں! بہت سے بڑے لکھاری اس لیے اچھا اور زیادہ لکھ پائے کہ انہوں نے رسمی یعنی لگی بندھی تعلیم نہیں پائی تھی! 
کبھی کبھی تو ہمیں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک باضابطہ نظام کے ذریعے دی جانے والی تعلیم صلاحیتوں کو اسناد کے پنجرے میں قید کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں! اب یہی دیکھیے کہ صحافت میں بھی وہی لوگ زیادہ کامیاب رہے ہیں جو تلمیذ الرحمٰن ہیں یعنی تعلیم و تربیت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ کر ''سسٹم‘‘ سے الگ ہوئے اور سیکھتے چلے گئے۔ ہم نے شعر کہنا شروع کیا تو رئیسؔ امروہوی مرحوم سے اصلاح لینا شروع کیا۔ اُستادِ محترم نے کبھی مدرسے یا اسکول کا منہ نہ دیکھا۔ ساری تعلیم اور تربیت گھر ہی میں کی گئی۔ جب کبھی ہمیں گھر میں تعلیم کے حوالے سے کوئی طعنہ دیا جاتا تھا تو ہم اُستادِ محترم کا حوالہ دیتے تھے۔ اِس پر اہل خانہ چند جملوں کے ذریعے اُن کی شان میں بھی اضافہ فرماتے تھے! اُستادِ محترم سے اہل خانہ زیادہ خوش اِس لیے نہیں تھے کہ اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ ہمیں شعر گوئی سے بد دِل نہیں کیا بلکہ صحافت کا بھی چسکا لگادیا! 
ہم نے سمجھانے کی اپنی سی کوشش کیجیے۔ خط کو تار اور تھوڑے کو بہت جانیے۔ دنیا بھر میں جینیس کسی اسکول کی پیداوار نہیں رہے۔ جنہیں کچھ کر دکھانا ہو وہ اپنے طور پر سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی شاید ریاستی مشینری نے طے کرلیا ہے کہ رسمی تعلیم کی راہ مسدود کرکے جینیس پیدا کیے جائیں! قتیلؔ شِفائی مرحوم نے کہا ہے ؎ 
خود نُمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا 
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں! 
جنہیں پڑھنا ہو وہ اسکول کے محتاج نہیں ہوتے۔ ہماری ریاستی مشینری سمجھ چکی ہے کہ اسکول ہوں گے تو بچوں کی صلاحیتیں محدود ہوجائیں گی۔ اچھا ہے کہ اسکول کو راستے میں دیوار بننے ہی نہ دیا جائے۔ جسے کچھ بننا ہو وہ رکاوٹ پاکر زیادہ اہتمام سے کچھ بنتا ہے۔ غالبؔ نے کہا ہے ؎ 
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے 
رکتی ہے مِری طبع تو ہوتی ہے رواں اور! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں