"MIK" (space) message & send to 7575

’’تحقیق‘‘ کی مشین گن

کہتے ہیں خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ انسان ذہین ہو یا کند ذہن، اگر فارغ بیٹھا ہو تو کچھ نہ کچھ ایسا کرکے دم لیتا ہے جو اوروں کا ناک میں دم کردے! یہ تماشا ہم اپنے حلقے میں یعنی احباب اور اعِزّاء وغیرہ میں آئے دن دیکھتے ہیں۔ مگر ہم یہاں ذاتی معاملات کا رونا نہیں رونا چاہتے۔ بات ہو رہی ہے اعلیٰ حلقوں کی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں ایک سلسلہ ہے جو کچھ کر دکھانے کے نام پر دراصل کھانے پینے کا دھندا ہے، اور کچھ نہیں۔ ہر معاشرے میں کچھ لوگ ہیں جو کچھ نیا کر دکھانے کے نام پر تحقیق کا بازار گرم رکھتے ہیں اور جب ڈھنگ سے کچھ کر دکھانے کی گنجائش نہیں ہوتی تو بگاڑ کی طرف مُڑ جاتے ہیں۔ بیشتر محققین پورس کے ہاتھیوں کی طرح اپنے ہی لشکر کو روندنے پر تُل جاتے ہیں۔ 
تاریخ کھنگالیے تو اندازہ ہوگا کہ جو کچھ بھی انسان کے لیے بہت ضروری یا ناگزیر تھا وہ تقریباً دو ہزار سال کے عرصے میں ایجاد یا دریافت کیا جاچکا ہے۔ سترہویں صدی سے بیسویں صدی عیسوی کے درمیانی عرصے میں ایجادات اور دریافتوں کے سلسلے نے تیزی پکڑی۔ اِس دوران وہ سب کچھ ایجاد ہوا جو معیارِ زندگی بلند کرنے اور پُرسکون انداز سے جینے کے لیے ناگزیر تھا۔ یہی حال دریافتوں کا تھا۔ 
اکیسویں صدی میں کچھ بھی نیا ایجاد نہیں ہو رہا۔ جو کچھ پہلے سے موجود ہے اُسی کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بہت سی چیزیں پہلے الگ الگ پائی جاتی تھیں، اب انہیں ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ دور کیوں جائیے، موبائل فون ہی کی مثال لیجیے۔ ڈیڑھ عشرے پہلے تک موبائل فون صرف کال کرنے یا سُننے کے لیے ہوا کرتا تھا۔ اضافی خوبی یہ تھی کہ پیغام ٹائپ کرکے بھیجا جاسکتا تھا۔ پھر اِس میں کیمرا ڈالا گیا۔ اُس کے بعد مووی بنانے کا آپشن آیا۔ پھر آواز ریکارڈ کرنے اور سُننے کی خصوصیت موبائل فون سیٹ کا حصہ بنی۔ اِس کے بعد ڈیٹا جمع رکھانے کا آپشن شامل کیا گیا۔ کچھ اور آگے بڑھے تو موبائل فون سیٹ کے ذریعے مختلف فارمیٹس کی ڈاکیومنٹس پڑھنا بھی ممکن بنایا گیا۔ درجنوں دوسری خصوصیات تو خیر موبائل فون سیٹ میں پائی ہی جاتی تھیں۔ اب موبائل فون کے ذریعے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آپ کسی بھی شہر میں کس جگہ کھڑے ہیں۔ اور یہ کہ آپ کی کون سی کال کہاں سے کی گئی تھی یا کہاں موصول ہوئی تھی! یہ تمام خصوصیات الگ الگ آلات میں پائی جاتی تھیں۔ اب اُنہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا گیا ہے۔ گویا نیا کچھ نہیں ہے۔ ہاں، اپ گریڈیشن کا عمل جاری ہے۔ 
تحقیق کے معاملے میں یوں تو اور بھی کئی ممالک ہیں جن کے ماہرین ستم ڈھانے پر تُلے رہتے ہیں مگر جاپانیوں کا اپنا حساب کتاب ہے۔ وہ تحقیق کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ ایسا کر دکھاتے ہیں کہ اُن کے کاندھے تھپتھپانے کے ساتھ ساتھ اپنے سَر پیٹنے کا بھی جی چاہتا ہے! جاپانی ماہرین نے اعلان کیا ہے کہ اُنہوں نے بیس سال کی محنتِ شاقّہ کے بعد ایسی پیاز تیار کی ہے جسے کاٹتے وقت کوئی نہیں روئے گا! اُن کا کہنا ہے کہ پیاز میں ایک اینزائم پایا جاتا ہے جس کے باعث آنکھوں میں جلن ہوتی ہے اور آنسو نکل آتے ہیں۔ اِس مرکب کو ''اسنپرو پینتھائل ایس آکسائڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب پیاز کاٹی جاتی ہے تب یہ مادّہ گیس کی شکل میں خارج ہوکر آنکھوں میں جلن پیدا کرتا ہے اور آنسو نکل آتے ہیں۔ جاپانی ماہرین نے جو پیاز تیار کی ہے اُسے ''اسمائل بال‘‘ کا نام دیا گیا ہے یعنی مُسکراتی گیند۔ 
''اسمائل بال‘‘ کو کاٹنے سے تو خیر آنکھوں میں جلن ہوگی نہ آنسو نکلیں گے مگر جاپانی ماہرین کو کچھ اندازہ نہیں کہ اُن کی محنت خون کے آنسو رُلانے کی تیاری کیے بیٹھی ہے۔ ذرا دل تھام لیجیے کیونکہ اب ہم آپ کو بتانے والے ہیں کہ جاپانی ماہرین اپنی محنتِ شاقّہ کی قیمت وصول کرکے اِس انوکھی پیاز کے خریداروں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرنے والے ہیں۔ آپ نے سُنا ہی ہوگا کہ جاپان میں پھل بہت مہنگے ہیں۔ سُنا ہے ایک ایک آم کئی ہزار روپے میں ملتا ہے۔ پیاز کو بھی آم کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جلن پیدا نہ کرکے آنسو روکنے والی ایک پیاز (یعنی تقریباً 100 یا 125 گرام) ''صرف اور صرف‘‘ 225 روپے میں دستیاب ہوگی! 
کیوں؟ آپ بھی سکتے میں آگئے نا! جب ماہرین کسی بے مصرف معاملے میں تحقیق کا ڈھول پیٹنے کے بعد اپنا نذرانہ وصول کرنے پر آتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اِتنی مہنگی پیاز خریدنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان نارمل پیاز کاٹے اور چند نمکین آنسو بہالے۔ دو ڈھائی ہزار روپے فی کلو کے نرخ والی پیاز کاٹ کر خون آنسو رونے سے نارمل آنسو بہانا خالص نفع کا سَودا ہے! 
ایک پیاز پر کیا موقوف ہے، ماہرین اور محققین جب بھی کوئی تیر چلاتے ہیں تو جگر کا خون ہی کر ڈالتے ہیں۔ اختراعات کے نام پر ایسی ایسی چیزیں متعارف کرائی جاتی ہیں کہ انسان دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا سوچا جائے، کیا سمجھا جائے۔ قدرت نے ہر چیز کو ایک خاص رنگ، ذائقے اور تاثیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اب کریلے ہی کی مثال لیجیے۔ کریلا سَر سے پاؤں تک کڑوا ہوتا ہے۔ اور یہ قدرت کی حکمت کے تحت ہے۔ بہت سی الرجیز کا علاج کریلا کھانے میں ہے مگر شرط یہ ہے کہ پکانے کے دوران تلخی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے کئی بار کریلے کا ایسا سالن کھایا ہے جس میں تلخی نام کو نہیں پائی گئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نمک کے پانی میں خاصی دیر تک رکھ کر کریلے کی تلخی ختم کرنے اور پیاز زیادہ ڈال کر مٹھاس پیدا کرنے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے! وضاحت چاہی تو جواب ملا کہ کریلا چونکہ کڑوا ہوتا ہے اِس لیے اُسے جُوں کا تُوں نہیں کھایا جاسکتا۔ ایسی بات سُن کر (اپنا) سَر پیٹنے کا جی چاہتا ہے۔ ارے بھئی، جب تلخی کو برداشت ہی نہیں کرنا ہے تو پھر کریلا پکانے کی ضرورت کیا ہے؟ کریلے کی ساری تاثیر اُس کی تلخی میں پائی جاتی ہے۔ 
یہی حال ماہرین کا ہے۔ وہ بھی ہر معاملے کی فطری تلخی دور کرکے اُسے خواہ مخواہ شیریں اور قابلِ برداشت بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔ بعض معاملات قدرت نے دانستہ ٹیڑھے رکھے ہیں تاکہ اُن سے نمٹنے کی صورت میں انسان پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے کا ہُنر سیکھے! 
پیاز کا سارا مزا اُس کی تیزی اور تُرشی ہی میں تو ہے۔ اگر اُس کی تیزی ہی ختم کردی جائے تو اُس میں رہا کیا؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ چوکوں، چھکوں کے دھماکے کرنے والے کرکٹ کی دنیا کے ''دہشت گرد‘‘ شاہد آفریدی کو نئے سِرے سے تربیت دے کر سنیل گواسکر، لیری گومز یا مدثر نذر جیسے ''امن پسند‘‘ بیٹسمین میں تبدیل کردیا جائے! ہر معاملے کو قابل قبول بنانے کی دُھن میں بھٹکنے والوں کو کون سمجھائے کہ لوگوں کو گواسکر، گومز یا مدثر نذر کی ''امن پسندی‘‘ نہیں بلکہ شاہد آفریدی کی ''دہشت گردی‘‘ سے پیار ہے! 
اِس وقت ایسے ماہرین تیار کرنے کی ضرورت ہے جو محققین کو سمجھائیں کہ اِس دنیا کو ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی اختراع ضرور درکار ہے مگر اصل معاملے کو داؤ پر لگاکر نہیں۔ جاپانی محققین نے نہ رُلانے والی پیاز اُگاکر کوئی بہت بڑا تیر نہیں مارا بلکہ قدرت کے بخشے ہوئے اصل ذائقے کو داؤ پر لگادیا ہے۔ اگر محققین کی ہٹھ دھرمی برقرار رہی تو وہ دن دور نہیں جب بازار میں میٹھے کریلے اور کڑوے آم دستیاب ہوں گے! یہ ستم ظریف قدرت کے کاموں میں دخل دینا اور ہمارے منہ کا ذائقہ خراب کرنا نہیں چھوڑیں گے۔ 
تحقیق کے نام پر محققین نے مشین گنیں تھام رکھی ہیں اور ٹریگر دبا رکھا ہے۔ اختراعات کی گولیاں تڑتڑ برس رہی ہیں۔ کچھ نہ کچھ نیا کر دکھانے کے نام پر ستم ڈھانا محققین کا کام ہے اور بچ نکلنا آپ کی ذمہ داری۔ اِن ظالموں نے تو ہر چیز کو اصلیت سے محروم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ دعا ہے کہ قدرت کے بخشے ہوئے ذائقے محفوظ رہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں