"MIK" (space) message & send to 7575

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

ایک زمانے سے ہم ترس رہے تھے کہ لکھنے کی حقیقی تحریک دینے والا کوئی آئے اور ہمارا کام آسان بنائے۔ اللہ نے سُن لی۔ شاہ سائیں یعنی سید قائم علی شاہ رخصت ہوئے ہیں تو سید مراد علی شاہ آئے ہیں۔ مراد علی شاہ ہماری مراد نہیں ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ جو کچھ مراد علی شاہ کرنا چاہتے ہیں اُس سے ہمیں کچھ ڈھنگ کا لکھنے کی تحریک مل سکتی ہے۔ اور وہ تو بولنے کے معاملے میں بھی بہت محتاط ہیں۔ سید عبداللہ شاہ کے فرزند غیر معمولی حد تک سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں سنجیدگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں وہاں ہمارے قیام کی کیا گنجائش؟ 
شاہ سائیں کے رخصت ہوتے ہی منظور وسان کو صوبائی کابینہ میں داخل ہونے کا موقع ملا ہے۔ یہ تبدیلی ہم جیسوں کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ کہتے ہیں شکر خورے کو اللہ کہیں نہ کہیں سے شکر دے ہی دیتا ہے۔ ہم تو موقع کے انتظار میں تھے کہ کوئی آئے، کچھ کہنے کے نام پر گل کھلائے اور اُن گلوں کی مہک سے ہم بھی اپنے جسم و جاں اور تحریر کو کچھ معطّر کریں۔ منظور وسان کی آمد ہم جیسے ہلکا پھلکا لکھنے والوں کے لیے شدید حبس کے عالم میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ 
منظور وسان کو اللہ نے وہی وصف عطا کیا ہے جو شاہ سائیں کو ودیعت ہوا ہے اور ذوالفقار مرزا کو بھی ملا ہے۔ یہ اصحاب جب بھی لب کُشائی فرماتے ہیں کچھ نہ کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں کہ لوگ سَر دُھنتے رہ جاتے ہیں۔ ایک بات کے دس پہلو تلاش کرنے نکلیے تو گیارہواں بھی کہیں نہ کہیں سے سامنے آجاتا ہے۔ ع 
یُوں لب کُشا ہوئے کہ گلستاں کِھلا دیا! 
منظور وسان صاحب کی خوبی یہ ہے کہ بھرپور جاگتی ہوئی آنکھوں میں بھی خواب سنجوئے رہتے ہیں۔ میڈیا والوں سے گفتگو کے دوران وہ ''سب اچھا ہے‘‘ کے ساتھ ساتھ ''سب اچھا ہو جائے گا‘‘ کی بھی گردان جاری رکھتے ہیں اور اگر کوئی یقین کرنے کو تیار نہ ہو تو وہ سند کے طور پر فوراً سے پیشتر کوئی خواب بیان فرماتے ہیں! 
خوابوں کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ انسان بھرپور یعنی گہری نیند میں ہو تو خواب دیکھنا سمجھ میں آتا ہے۔ منظور وسان کے معاملے میں خواب اِس بات کے بھی مُکلّف نہیں کہ آنکھیں بند کی جائیں اور اُن میں نیند بھی بہو۔ ایسا لگتا ہے جیسے خواب اُن کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں کہ جو بھی پسند آئے اُسے بیان کر دیجیے۔ سید مراد علی شاہ نے منظور وسان کو اپنی کابینہ کا حصہ بنا تو لیا ہے مگر شاید وہ بھی نہیں چاہتے کہ اُن کے وزیر صنعت خواب دیکھیں۔ ہمارے خیال میں منظور وسان کو صنعتوں کا محکمہ دینا کچھ زیادہ غلط نہیں۔ وہ اور کسی صنعت کے ماہر ہوں نہ ہوں، خوابوں کی صنعت کے ماہر تو ہیں ہی! اُنہیں وزیر جیل خانہ جات بھی بنایا جا چکا ہے اور اس محکمے کے لیے بھی ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔ منظور وسان کی آنکھیں وہ جیل ہیں جس میں خواب قیدیوں کی طرح پڑے رہتے ہیں! خیر، بات ہو رہی تھی مراد علی شاہ کے خاص ارادے کی یعنی یہ کہ منظور وسان خواب نہ دیکھیں۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے کابینہ کے تمام ارکان کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ صبح آٹھ بجے اپنے اپنے دفتر پہنچ جایا کریں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے صبح آٹھ بجے کابینہ کا اجلاس بھی کر دکھایا ہے۔ منظور وسان سمیت بہت سوں کے لیے تو یہ خواب ہی کا سا معاملہ ہوگا! 
''سازش‘‘ یہ ہے کہ منظور وسان صبح آٹھ بجے دفتر پہنچیں۔ جب دفتر آٹھ بجے پہنچنا ہو تو انسان کو صبح کے 6 اور 7 کے درمیان بیدار ہونا پڑے گا۔ یعنی زیادہ نیند نصیب ہوگی نہ زیادہ خواب دیکھنے کی گنجائش نکل پائے گی! مگر صاحب جو خواب دیکھ اور بیان نہ کر پائیں وہ منظور وسان کیا ہوئے! صنعت کا قلمدان ملتے ہی منظور وسان صاحب نے دفتر میں انٹری کے وقت میڈیا سے گفتگو میں تازہ ترین خواب بیان کر دیا۔ پہلے تو اُنہوں نے کہا کہ اب ہر کام میرٹ کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ بات سُن کر کچھ لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ گویا خاموشی کی زبان سے کہہ رہے ہوں ع 
آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے!
ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر مرزا تنقید بیگ وہاں موجود ہوتے تو جذبات پر قابو نہ رکھ پاتے اور کہہ اٹھتے ؎ 
اِتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت 
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ! 
یہ تو ہوئی مرزا تنقید بیگ کی بات۔ ہم تو خدا لگتی کہیں گے کہ جب ہم نے منظور وسان صاحب لبِ شیریں مقال سے میرٹ کا ذکر سُنا تو ایسا لگا جیسے کہیں سے کچھ آ کر لگا ہو ع 
اِک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے 
میرٹ کا ذکر کرکے وزیر صنعت کی حیثیت سے اپنے انتخاب کو ذرا گھما پھرا کر درست قرار دے چکنے کے بعد منظور وسان نے ''خوش خبری‘‘ سُنائی کہ سالِ رواں کے دوران سندھ میں مکمل امن قائم ہو جائے گا۔ میڈیا والوں نے یہ بات سُنی تو زیادہ متوجہ نہ ہوئے۔ ٹھیک ہی تو ہے، ایسے دعوے تو سبھی کیا کرتے ہیں۔ جن کا امن کے قیام سے کوئی تعلق نہ ہو وہ بھی اِس حوالے سے ''خوش خبری‘‘ سُنانے سے باز نہیں آتے! سیدھی سی بات ہے کہ جو بات صوبائی وزیر داخلہ کو کہنی ہے وہ وزیر صنعت کیوں کہیں؟ جب منظور وسان نے دیکھا کہ امن کی بات پر لوگ زیادہ متوجہ نہیں ہوئے تو فوراً کہا کہ اُنہوں نے خواب دیکھا ہے کہ ایم کیو ایم سندھ حکومت کے ساتھ چلے گی! 
ایم کیو ایم سندھ حکومت کے ساتھ چلے گی؟ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اِس سے ثابت ہوا کہ منظور وسان واقعی خواب دیکھتے ہیں، بلکہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں! 
شاہ سائیں کی حکومت بھی بہت حد تک منظور وسان کے نقشِ قدم ہی پر چلتی رہی تھی۔ جو کچھ شاہ سائیں کے دور میں ہوتا رہا اُسے اپنے، پرائے سبھی خیال و خواب کا معاملہ قرار دیتے رہے! جب بھی شاہ سائیں کوئی اعلان فرماتے تھے، سُننے اور پڑھنے والوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوتی تھی اور چہرے کِھل اُٹھتے تھے۔ محض بیان اور اعلان سے کیا ہوتا ہے؟ شاہ سائیں کی باتیں بھی خواب کی سی ہوا کرتی تھیں۔ ؎ 
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ 
جب آنکھ کُھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سُود تھا! 
جب بھی کوئی شاہ سائیں کی باتوں سے متاثر ہوکر کوئی اُمّید وابستہ کر بیٹھتا تھا تب وہ بہت پیار سے سمجھاتے تھے ؎ 
میں تو اِک خواب ہوں، اِس خواب سے تو پیار نہ کر 
پیار ہو جائے تو پھر پیار کا اظہار نہ کر! 
اور لوگ سمجھ جاتے تھے کہ اُن کی باتیں ع 
دِل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے 
کے قبیل کی ہیں۔ منظور وسان کی باتیں بھی بہت حد تک اِسی ذیل میں آتی ہیں۔ وہ خواب بیان کرتے ہیں تو محض اِس لیے کہ لوگوں کو اُن سے کچھ تو ملے۔ گُڑ نہ سہی، گُڑ جیسی میٹھی بات ہی سہی۔ وہ اپنے خواب بیان کرکے لوگوں کی مایوسی دور کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کچھ کہنے میں کیا ہرج ہے جو بے جان سے ہونٹوں کو تھوڑی سی مُسکان عطا کرے! یہ سب تو ٹھیک ہے مگر ہم منظور وسان صاحب کی خدمت میں عرض کریں گے کہ ؎ 
خواب تو کانچ سے بھی نازک ہیں 
ٹوٹنے سے اِنہیں بچانا ہے 
اگر اُنہیں سندھ کابینہ کا حصہ رہنا ہے اور علی الصباح اُٹھ کر سید مراد علی شاہ کی من موہنی صورت دیکھنی ہے تو خوابوں سے بالا ہوکر کچھ کہنا اور کرنا ہوگا۔ یہ اقتدار و اختیار اور قلمدان وغیرہ سراسر آنی جانی چیزیں ہیں۔ ؎ 
ساقیا! یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ 
چل سکے بس جب تک ساغر چلے 
ہم جو بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ منظور وسان کے لیے نئی نہیں۔ وہ سندھ کابینہ میں لائے اور نکالے جاتے رہے ہیں۔ اگر وہ عمل کی دُنیا سے دور رہے اور محض خوابوں کی نگری میں گھومنے پھرنے پر اکتفا کرتے رہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ؎ 
خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی 
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں