"MIK" (space) message & send to 7575

سینے میں جلن، آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے؟

سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ پورے عزم کے ساتھ میدان میں آئے ہیں یعنی کچھ کر دکھانے کی تمنّا ہے، اپنے آپ کو کچھ ثابت کرنے کا ارادہ ہے۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی نِیّت کے حامل بھی دکھائی دیئے ہیں۔ 
مگر کراچی کی بھی کیا تقدیر ہے۔ ہر بار مقطع میں سُخن گسترانہ بات آ پڑتی ہے۔ کوئی اِس شہر کی تقدیر کا خوابِ خرگوش توڑنے کی کوشش کرے تو معاملہ ''ماروں گھٹنا، پُھوٹے آنکھ‘‘ کی منزل تک پہنچ جاتا ہے! جب بھی کوئی کچھ کرنے کی بات کرتا ہے پتا نہیں کیا کیا ہونے لگتا ہے۔ لوگ حیرانی کے دائرے سے باہر نکل نہیں پاتے۔ ؎ 
روز اِس شہر میں اِک حکم نیا ہوتا ہے 
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے! 
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پیر کو ایک اجلاس میں کراچی کو صاف رکھنے کے ذمہ دار اداروں کے اعلیٰ افسران کا اجلاس طلب کیا۔ مراد علی شاہ نے ایک حکم دیا اور شہر میں سب کچھ بدل گیا۔ بڑی مشکل سے اِس شہر کو گندا کیا گیا ہے ... اور مراد علی شاہ اِسے صاف دیکھنا چاہتے ہیں! خیر، اُنہوں نے حکام کو حکم دیا کہ کراچی کو دس دن کے اندر مکمل طور پر صاف کردیا جائے تاکہ کچرے کا کوئی ڈھیر دکھائی نہیں دینا چاہیے۔ 
وزیر اعلیٰ سندھ کے حکم کا جاری ہونا تھا کہ شہر کا شہر کچھ کا کچھ دکھائی دینے کی تیاری کرنے لگا۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
نہ پُوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتشؔ 
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے! 
کراچی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اِدھر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ قائد کا شہر دس دن کے اندر صاف سُتھرا چاہیے اور اُدھر ''قائد‘‘ سے بیزاری کے اظہار کی ایسی لہر اُٹھی کہ شہر بھر میں کچرا ہی کچرا دکھائی دینے لگا۔ 
ہوا یہ کہ کراچی پریس کلب کے باہر متحدہ قومی موومنٹ کے تحت قائم ہڑتالی کیمپ کے شرکاء سے پارٹی کے قائد ایسا خطاب کیا کہ ریاستی کے کان میں افسوں پُھنک گیا! اِس خطاب نے بہت سوں کے لیے بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والی کہاوت کو برحق ثابت کردکھایا۔ متحدہ کے قائد نے اپنے خطاب میں پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے کے ساتھ ساتھ میڈیا ہاؤسز پر حملوں کے لیے بھی کہا۔ متحدہ کے کارکنوں نے دو چینلز پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ بھی کی۔ اِس عمل کو روکنے اور کچلنے کے لیے جو کچھ کیا گیا اُس نے آن کی آن میں شہر کو کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ مراد علی شاہ چاہتے تھے کہ کچرے کے ڈھیر ختم ہوجائیں۔ متحدہ قائد کے خطاب نے ایسی کیفیت پیدا کردی جیسے کسی سڑک پر کچرے سے بھرا ہوا ٹرک الٹ جائے! 
متحدہ کا بھوک ہڑتالی کیمپ اکھاڑ دیا گیا۔ متحدہ کے قائد کا خطاب سُن کر جو لوگ چینلز کے دفاتر پر حملوں کے لیے نکلے ان کے خلاف کارروائی ہوئی یعنی طاقت استعمال کی گئی۔ پیر کی شام کو رینجرز نے ایم کیو ایم کے مرکزی رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان اور خواجہ اظہارالحسن کو حراست میں لیا۔ 
پیر اور منگل کی درمیانی شب نے ایم کیو ایم کے مرکزی قائدین کی خدا جانے کیسی ''میزبانی‘‘ کی کہ منگل کی شام تک بہت کچھ بدل گیا اور مزید بہت کچھ بدلنے کے لیے بے تاب دکھائی دینے لگا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں محترمہ نسرین جلیل اور خواجہ اظہارالحسن کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور متحدہ کے قائد کے اُس پورے خطاب سے یکسر لاتعلّقی کا اعلان کیا جو انہوں نے کراچی پریس کلب کے باہر لگے ہوئے بھوک ہڑتالی کیمپ میں کیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اب فیصلے ایم کیو ایم پاکستان کیا کرے گی۔ 
ڈاکٹر فاروق ستار اور اُن کے رفقاء کی پریس کانفرنس نے پورے ملک کو چونکا دیا۔ بادی النظر میں تو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے مائنس ون فارمولا تعمیل کی منزل تک پہنچ گیا ہے مگر پھر ردعمل پیدا ہونے کا مرحلہ شروع ہوا تو اچانک بہت کچھ بدلتا دکھائی دیا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کراچی پریس کلب میں ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس کاحصہ بن کر اشارا دیا تھا کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ہیں مگر رات گئے اُنہوں نے ایم کیو ایم سے لاتعلّقی کا اعلان کیا۔ 
ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے بعد سب کچھ ایسا گنجلک دکھائی دینے لگا کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے یا کیا ہونے والا ہے۔ سیاسی معاملات میں قیاس کے گھوڑے دوڑانے والے بھی حیران تھے کہ ایسی پیش گوئی کس طور کریں جو چند گھنٹے ہی کے لیے سہی، کارگر تو ثابت ہو! 
وزیر اعلیٰ کراچی کو دس دن میں صاف ستھرا دیکھنے کے خواہش مند تھے اور یہاں معاملہ یہ ہے کہ بہت سی سیاسی کچرا کنڈیاں الٹ گئی ہیں۔ کچرے کے ڈھیر تو پھر بھی غنیمت ہیں کہ ایک جگہ ہوتے ہیں۔ مصیبت کی گھڑی یہ ہے کہ ہر طرف سیاسی کچرا قوتِ پرواز کا مظاہرہ کر رہا ہے اور تعفّن ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایسے میں کوئی کیونکر یہ توقع پالے کہ شہر کا کچرا وزیر اعلیٰ کے حکم کے مطابق اٹھ جائے گا؟ 
کراچی کے بارے میں اب کھل کر کہا جانے لگا ہے کہ یہ کوئی شہر نہیں بلکہ ملک ہے۔ بات رقبے کی ہو یا آبادی کی، دونوں ہی اعتبار سے قائد کے شہر کو سنبھالنا اور چلانا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ ویسے تو کئی جماعتیں کراچی کی اسٹیک ہولڈرز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ مینڈیٹ ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ایم کیو ایم خود غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے اور وہ جس عمل سے گزر رہی ہے اُس کے ہاتھوں شہر مزید بے یقینی کی طرف جائے گا۔ 
ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں تقسیم ہو جانے کی منزل تک آگئی ہے۔ دعا یہ ہے کہ ایسا نہ ہو کیونکہ اگر ایسا ہوا تو شہر میں خون خرابے کا نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ایم کیو ایم کے منتشر ہونے سے جو خلاء پیدا ہوگا اُسے پُر کرنا سخت اذیّت ناک عمل ہوگا۔ 22 اگست کو رونما ہونے والی صورتِ حال سے قبل ''احتیاطی اقدام‘‘ کے طور پر سابق سٹی ناظم مصطفٰی کمال پاک سرزمین پارٹی کا جھنڈا تھامے کراچی کو own کرنے اور اُس کا اسٹیک ہولڈر ثابت ہونے کے میدان میں اُترے تو ہیں مگر اب تک پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کچھ دکھانے کے قابل ہو پائے ہیں یا نہیں۔ 
ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اُس کے جواب میں ایم کیو ایم لندن کی طرف سے واسع جلیل اور مصطفٰی عزیز آبادی نے ایم کیو ایم کے قائد پر غیر متزلزل اعتماد و یقین کا اظہار کیا ہے۔ مگر اب تک خود الطاف حسین کھل کر کچھ کہنے سے یکسر مجتنب رہے ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں ہو پارہا کہ جو کچھ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ وہ واقعی اُن کے دل کی آواز ہے یا پاکستان مخالف نعروں سے پیدا ہونے والی بلا ٹالنے کے لیے کی جانی والی متفقہ حکمتِ عملی ہے! تجزیہ کار اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما و ترجمان کو اب تک یقین نہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی زبان پر وہی ہے جو اُن کے دل میں ہے! صورتِ حال ایسی گنجلک ہے کہ ہر بات گمان سے شروع ہوکر گمان تک لَوٹ آتی ہے۔ یقین دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ 
حق تعالیٰ سے دعا کی جانی چاہیے کہ کراچی کا حقیقی یعنی ''فزیکل‘‘ کچرا بھی ٹھکانے لگایا جانا ممکن ہو اور سیاسی کچرے کے ڈھیر ختم کرنا بھی ناممکن نہ رہے۔ 
سید مراد علی شاہ کے لیے یہ پورا معاملہ ''سر منڈاتے ہی اولے پڑے‘‘ جیسا ثابت ہوا ہے۔ وہ قدرے جوان بھی ہیں اور بہت متحرّک بھی۔ ایسے میں کسی بھی صورتِ حال کو اِس قدر بے لگام نہ چھوڑا جائے کہ وہ وزیر اعلیٰ سندھ کے عزائم کی راہ میں دیوار ثابت ہو۔ 
اِس وقت اہلِ کراچی کی جو بھی کیفیت ہے اُس کی عکّاسی شہریار کے اِس مطلع سے بخوبی کی ہوسکتی ہے۔ ؎ 
سینے میں جلن، آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے؟ 
اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے؟ 
سینے کی جلن اور آنکھوں کے طوفان کو خاتمے کی منزل تک جلد از جلد پہنچانا لازم ہے۔ ملک کی مختصر سی تاریخ گواہ ہے کہ کراچی کی ہر سیاسی بیماری اُڑ کر ملک کے دیگر حصوں کو لگتی ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں