"MIK" (space) message & send to 7575

’’مُردہ خرابی‘‘ کی روایت

انسان خطاؤں کے ساتھ ساتھ خوش فہمیوں کا بھی تو پُتلا ہے۔ ہر وقت کسی نہ کسی خوش فہمی میں مبتلا رہنا انسان کی فطرت ہے۔ اس معاملے میں دنیا کے تقریباً تمام انسان ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔ اور ایک خوش فہمی آفاقی نوعیت کی ہے یعنی دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ یہ کہ جتنے بھی دکھ، جھگڑے اور جلاپے ہیں وہ سب کے سب سانسوں کے تسلسل تک ہیں۔ گویا اِدھر دَم نکلا اور اُدھر سو طرح کی رنجشوں سے نجات نصیب ہوئی۔ ع 
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا! 
انسانوں کی اس سادہ لوحی پر تو واقعی مر مٹنے کو جی چاہتا ہے۔ سب نے اپنے طور پر طے کرلیا ہے کہ جو بھی دکھ ہے وہ جیتے جی ہے۔ ایک زمانے سے اردو کے خزانے کا ایک معروف محاورہ بھی تو ہے آج مرے اور کل دوسرا دن۔ ٹھیک ہے، مگر یہ بات مرنے پر رونے والوں کے لیے کہی جاتی ہے۔ خود مرنے والے کی جان کیسے چُھوٹے گی، اِس باب میں سیانے خاموش ہیں۔ اگر واقعی سارا جھگڑا سانسوں کی لڑی کے نہ ٹوٹنے تک ہے تو پھر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کے باضابطہ استاد، خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ یہ کہنے پر کیوں مجبور ہوئے تھے ؎ 
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے 
مر کے بھی چَین نہ پایا تو کِدھر جائیں گے؟ 
اگر آنکھیں بند ہونے پر رنج و الم کا باب بند ہو جانے کی بھی ضمانت دی جاسکتی تو کیا بات تھی مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں۔ شیخ ابراہیم ذوقؔ کا خدشہ کچھ بے جا بھی نہ تھا۔ روئے زمین پر ایسے قبائل اور برادریاں بھی پائی جاتی ہیں جو مرنے والوں کو چَین سے مرے رہنے کا موقع دینے کو تیار نہیں۔ ایسی بہت سی رسوم ہیں، کئی رواج ہیں جن کے تحت مُردوں کو زندوں کی طرف لاکر مستقل اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے۔ افریقا اور انڈونیشیا میں ایسے قبائل موجود ہیں جو زندوں اور مُردوں کو ایک پیج اور ایک پلیٹ فارم پر رکھتے ہیں۔ انڈونیشیا کے بعض قبائل میں یہ چلن عام ہے کہ سال ڈیڑھ سال بعد مُردوں کو قبروں سے نکال کر سجایا، سنوارا جاتا ہے۔ پھر ڈھول تاشوں کے ساتھ گلیوں اور بازاروں میں گھما پھرانے کے بعد ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور خوب کھا پی چکنے کے بعد مُردوں کو دوبارہ قبروں میں لِٹا دیا جاتا ہے! مُردوں کو مکمل طور پر گلنے سڑنے سے بچانے کے لیے چند مقامی مسالوں، جڑی بوٹیوں کے علاوہ کیمیکلز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ 
اب آپ ہی بتائیے کہ رُسوم کے نام پر اِس نوعیت کی دھماچوکڑی مچائی جائے تو مُردہ کیا کرے، کہاں جائے؟ گویا ع 
تِرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا 
اُستاد قمرؔ جلالوی زمانے کی قدر ناشناسی اور بے حِسی کا رونا روتے تھے کہ مرنے پر کوئی پوچھتا نہیں، سب نظریں پھیر کر چل دیتے ہیں۔ ؎ 
لِٹاکے قبر میں سب چل دیئے، دُعا نہ سلام 
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو! 
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یار لوگ مرنے پر بھی بخشنے کو تیار نہیں! قبر میں سُکون سے لیٹے رہنا بھی زندوں کو کَھلتا ہے۔ مُردوں کو سال کے سال قبر سے نکال کر تر و تازہ فضاء میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے(!)، تزئینِ نو کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے۔ توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ سال کے سال قبر سے نکالنا دراصل مُردوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا ہے یعنی وہ یہ تصور نہ کریں کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں! ٹھیک ہے جناب، مگر مُردوں سے بھی تو پوچھیے کہ اُنہیں یہ سب پسند ہے یا نہیں۔ مُردوں کی مرضی جانتے نہیں اور قبر کُشائی فرمانے لگتے ہیں۔ اور پھر یہ دنیا ایسی کون سی آئیڈیل جگہ ہے جہاں کوئی بار بار آنا پسند کرے؟ بڑی مشکل سے تو لوگ پنڈ چُھڑاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی یہاں دوبارہ آنا یا لایا جانا کیوں پسند کرے گا! لوگ اِس عزم اور یقین کے ساتھ مرتے ہیں کہ ع 
جو ایک بار گئے ہم تو پھر نہ آئیں گے 
ایسے میں سال کے سال قبر کُشائی کے ذریعے مُردہ خراب کرنے اور یہ احساس دلانے کی کیا ضرورت ہے کہ اِس دنیا سے گلو خلاصی ایسی سہل نہ جانو، کئی جنم گزریں گے تب ''مکتی‘‘ مل پائے گی! 
مُردہ پرستی میں ہم نے ایسی مہارت پیدا کی ہے کہ دو چار سال پرانے اِشو کو بھی کلاسک کا درجہ دینا اب چنداں دشوار نہیں رہا۔ یار لوگ ایسا شور مچاتے ہیں کہ کوئی بھی اِشو آن کی آن میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور اِس کے بعد شروع ہوتا ہے اُس اِشو کا سَمے! زندہ ہاتھی لاکھ کا، مرا ہاتھی سوا لاکھ کا۔ یعنی کوئی اِشو مُردہ ہوجائے تو اُس میں زیادہ جان پڑجاتی ہے اور پھر اُس کی جان کو رویا بھی زیادہ جاتا ہے! 
ہم کسی کو جیتے قابلِ تعظیم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے یعنی انتظار کرتے رہتے ہیں کہ وہ اِس دنیا کی منزل سے گزرے۔ اور جب وہ جاں سے گزرتا ہے تو اُس کی توصیف، بلکہ حاشیہ برداری میں ہم بھی جاں سے گزرنے لگتے ہیں! ہماری سیاست بھی مُردہ اِشوز کو زیادہ سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھنے کی روایت پر عمل پیرا رہی ہے۔ جس طور بعض سینئر فنکاروں کو اُن کی اولاد وقفے وقفے سے نئے کپڑے پہنانے کے بعد آرٹس کونسل یا پریس کلب میں پیش کرکے امداد مانگا کرتی ہے بالکل اُسی طور ہمارے سیاست دان بھی مُردہ اِشوز کو وقفے وقفے سے نئے کپڑے پہناکر سامنے لاتے ہیں، اُن پر ہار پھول چڑھاتے ہیں، ایک ماحول بناتے ہیں اور من کی مراد پاتے ہیں! ملک کے قیام سے اب تک یہ تماشا جاری ہے اور کوئی بھی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا۔ 
اِس پوری بحث سے صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ ذہن سے یہ خوش فہمی کھرچ کر پھینک دیجیے کہ سانسوں کی ڈور ٹوٹنے سے رنج و غم کی مالا بھی ٹوٹ جائے گی۔ خاکسار کا شعر ہے ؎ 
آ ہی جائے گا اِک دن ہمیں بھی قرار 
آخرِکار ہم بھی تو مر جائیں گے 
مگر یہ بھی محض خوش فہمی و خوش خیالی ہے۔ کس نے دیکھا ہے کہ مرنے کے بعد بھی سُکون مل پاتا ہے یا نہیں۔ یہاں تو مُردہ خراب کرنے کی روایت دن بہ دن توانا تر ہوتی جارہی ہے۔ اور اِس کے لیے مُردے کو قبر سے نکالنا بھی لازم نہیں رہا۔ ہم ٹیکنالوجیز کے دور میں جی رہے ہیں۔ جس طور موبائل فون کہیں بھی رکھا ہو اور ایزی لوڈ کے ذریعے رقم اکاؤنٹ میں پہنچ جاتی ہے بالکل اُسی طرح مُردہ قبر ہی میں رہتا ہے اور اُسے مزید خرابی سے دوچار کردیا جاتا ہے! 
کتنا ہی سمجھائیے اور گِڑگِڑائیے، لوگ باز نہیں آتے۔ معاشرے کی عمومی اور مجموعی روش ہی کچھ ایسی ہے کہ مردہ پرستی اور ''مردہ خرابی‘‘ بڑھتی جاتی ہے۔ لوگ دل پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ ع 
ہائے کیا کیجیے اِس دل کے مچل جانے کو 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں