"MIK" (space) message & send to 7575

قدم قدم پہ بِچھے ہیں عجیب ’’گالی چے‘‘

بہت سے لوگ جب گاڑی لے کر سڑک پر آتے ہیں تو اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ سڑک خالی کردی جائے تاکہ وہ آسانی سے گزر سکیں۔ اس خواہش کو حقیقت تبدیل کرنے کی کوشش میں وہ قدم قدم پر ہارن بجانا اپنا فرض اور حق سمجھتے ہیں۔ کبھی کبھی تو گمان گزرنے لگتا ہے کہ ایسے لوگوں کی گاڑی ڈیزل، پٹرول یا گیس کے بجائے شاید ہارن بجانے سے چلتی ہے! 
ہارن بجاکر گاڑی چلانے اور بدگوئی و ہرزہ سرائی کے ذریعے زندگی کی گاڑی چلانے میں کیا فرق ہے؟ شاید کچھ بھی نہیں۔ کراچی کسی زمانے میں اہل زبان کا شہر سمجھا جاتا تھا۔ زہے ''نصیب‘‘ ... اب ایسا نہیں ہے۔ ویسے تو خیر جس کے منہ میں زبان ہے وہ اہل زبان ہی کہلائے گا مگر محض منہ میں زبان ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ منہ میں زبان تو جانور بھی رکھتے ہیں مگر وہ کبھی یہ دعوٰی، التجا یا استدلال نہیں کرتے ؎
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں 
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے 
یہ معروف جملہ تو آپ نے بھی سُنا ہوگا کہ محبوب، گاہک، موت اور کراچی کے موسم کا کوئی ٹھکانا نہیں! دل و دماغ پر ضرب لگانے والے اس ضرب المثل نما جملے میں پایا جانے والا موسم اپنا رنگ پل پل بدل سکتا ہے اور بدلتا ہے۔ مگر کراچی میں کوئی ایک موسم تھوڑا ہی ہے جس پر اکتفا کرلیا جائے۔ محل وقوع یعنی سمندر سے ملحق ہونے کی بدولت کراچی کا ایک فطری یا جغرافیائی موسم ضرور ہے جس کا کوئی اعتبار نہیں مگر اس شہر کے اپنے بھی کئی ''سماجی‘‘ موسم ہیں۔ اور ہر موسم کا اپنا ہی رنگ ڈھنگ ہے۔ اور انتہائے ستم یہ ہے کہ اگر کوئی سماجی موسم آپ کو پسند نہ آئے تو پیسے بھی واپس نہیں ملتے! 
داغؔ دہلوی کہہ گئے ہیں ؎ 
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی 
آپ سے تم، تم سے تو ہونے لگی 
یہ کلیہ داغؔ ہی کو مبارک کہ آپ سے تم اور تم سے تو کرنے کے لیے رنج کی گفتگو لازم ہے۔ اہل کراچی اب ایسے کسی تکلّف کے عادی، پابند یا محتاج نہیں رہے۔ 
وہ زمانے ہوا ہوئے جب لوگ آپس کی روزمرّہ گفتگو میں کہیں کہیں ''زیبِ داستاں‘‘ کے لیے دو چار اصیل و ثقیل قسم کی گالیاں ٹانک دیا کرتے تھے۔ دو ڈھائی عشروں کے دوران کچھ ایسا ہوا ہے کہ کراچی میں بات چیت کا ڈھنگ ہی بدل گیا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی لوگ ہیں اور یہ وہی زبان ہے جس کے بارے میں داغؔ دہلوی نے کہا تھا ع 
سارے جہاں میں دُھوم ہماری زباں کی ہے 
دُھوم تو خیر اب بھی ہے، بلکہ پہلے سے بڑھ کر ہے مگر یہ کہ دُھوم کا مفہوم تبدیل ہوگیا ہے! یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دُھوم کے ساتھ دھڑکّا یوں جُڑ گیا ہے کہ جہاں چار یار مل جائیں وہاں رات گلزار ہوکر رہتی ہے، تھوڑی دیر کی گفتگو بھی دیکھتے ہی دیکھتے دُھوم دَھڑکّا برپا کردیتی ہے! 
ایک دور میرزا نوشہ کا تھا کہ لبوں کی شیرینی ثابت کرنے کے لیے یہ حقیقت بیان کی گئی کہ رقیب گالیاں کھاکے بے مزا نہ ہوا! اگر آج میرزا نوشہ ہوتے تو یہ دیکھ کر (اپنا) سَر پیٹتے (بلکہ پیٹتے ہی رہتے) کہ گالیاں کھاکے کوئی بے مزا نہیں ہوتا جبکہ لب بھی پرلے درجے کے تلخ ہیں! 
کراچی ملک کا سب سے بڑا مالیاتی اور تجارتی مرکز ہے۔ سیدھی سی بات ہے، جہاں مالیاتی معاملات اور تجارت کو اولیت دی جاتی ہو وہاں تہذیبی اور اخلاقی اقدار کے بہت زیادہ پنپنے کی گنجائش نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود کراچی کا اپنا ایک رنگ اور ذائقہ تھا۔ اور یہ رنگ یا ذائقہ کچھ ایسا نہ تھا کہ کسی کو خواہ مخواہ بے مزا کردے۔ پھر خدا جانے کیا قیامت ٹوٹی کہ وہ رنگ رہا نہ ذائقہ۔ 
اہل زبان کی بستی قرار پانے والے شہر میں اب گفتگو کا عمومی انداز کچھ اِس ڈھنگ کا ہے کہ بات بات پر غالبؔ خستہ کا کہا یاد آ جاتا ہے ؎ 
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں 
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں 
ہم بھی تو کچھ ایسے ہی بے بس ہیں۔ جو کسی طور سُنا نہ جائے وہ ناچار سُننا پڑ رہا ہے۔ لوگ چار پانچ جملوں کے تبادلے میں بھی بہت سے قریبی اور محترم رشتوں کو آن کی آن میں ایک پیج پر لے آتے ہیں اور ذرا سا حَسّاس دل رکھنے والوں کی حالت عجیب ہو جاتی ہے۔ ع 
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے 
لوگ ایسی سلاست اور روانی سے ''دریائے لطافت و معانی‘‘ بہا رہے ہوتے ہیں کہ ع 
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی 
والا ماحول پیدا ہوئے بغیر نہیں رہتا! کبھی کبھی تو بدگوئی کا سمندر اس قدر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے کہ لوگ اِس خیال سے دانستہ داد نہیں دیتے کہ (بقول محسنؔ بھوپالی مرحوم) تسلسل ٹوٹ جائے گا! 
اوروں کی طرح ہم بھی ایک زمانے سے سُنتے آئے ہیں کہ دیگر بہت سے امور کی طرح گالی دینے کے بھی چند ایک اسباب اور اصول ہوا کرتے ہیں۔ خیال تھا کہ ع 
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے 
کُتّے بھی بلا سبب نہیں بھونکتے۔ کسی اجنبی کو دیکھ کر، کسی دوسرے علاقے کے ہم جنسوں کو سامنے پاکر خطرے کی گھنٹی بجانے کی مد میں، شدید بھوک لگنے پر یا پھر جسم میں کسی خرابی کے نمودار ہونے کے باعث بھونکنا سمجھ میں آتا ہے۔ محض پیٹ بھرے کی مستی کے طور پر بھونکنا تو کوئی بھونکنا نہ ہوا! 
بزرگوں سے (چند ایک ہوائی قسم کی گالیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی) سنا ہے کہ گالیاں بکنا ماحول کا نتیجہ ہوا کرتا ہے یا پھر تربیت کا۔ آج کے شہرِ قائد میں، اور بہت سی کام کی باتوں کی طرح، یہ اصول بھی طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔ جس چار دیواری میں گالی کا گزر تک نہ ہو اُس میں پروان چڑھنے والے بھی باہر عمومی گفتگو میں بہت سے رشتوں کو خلط ملط کرتے پائے گئے ہیں! 
بولنے کے نام پر چیخنا اور اظہارِ خیال کے نام پر مغلّظات کا دریا بہانا شہرِ قائد کے بیشتر مکینوں کا عمومی مزاج ہوکر رہ گیا ہے۔ بہت سے لوگ، نفسیات کی دو چار لگی بندھی قسم کی کتابوں کے مندرجات کا سہارا لے کر، یہ ماہرانہ رائے بھی دیتے پائے گئے ہیں کہ ایسا کرنے سے ''کتھارسس‘‘ ہو جاتا ہے! یعنی جو بھڑاس دل میں دبی ہوئی ہو وہ اِس صورت میں باہر آجاتی ہے اور انسان جسم و جاں میں فرحت محسوس کرنے لگتا ہے۔ 
یہ بھی خوب رہی۔ ایک اچھی خاصی قبیح عادت کو ''کتھارسس‘‘ کے نام پر قبولیت کی سند دینا خاصے حوصلے کی علامت ہے اور یہ حوصلہ ہمارے جی دار معاشرے ہی میں پایا جاسکتا ہے! دل و دماغ میں دبی ہوئی باتوں کا باہر آجانا حیرت انگیز ہے نہ ناپسندیدہ۔ مگر اِس کی پُشت پر بھی تو کوئی جواز، منطق یا دلیل ہونی چاہیے۔ 
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ہم بھی کہاں جواز، منطق اور دلیل کا رونا رونے بیٹھ گئے۔ اب ہمارے معاشرے سے اِن ''فرسودہ‘‘ اور ''از کار رفتہ‘‘ الفاظ و تصوّرات کا بھلا کیا تعلّق؟ ایسے میں بہتر اور برمحل تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ گزرے زمانوں کا ماتم چھوڑ کر آج کے شہرِ قائد کی سِکّہ رائج الوقت قسم کی زبان میں چند ایسے الفاظ کی مدد سے نعرۂ مستانہ لگایا جائے جنہیں یہاں قلم بند کرنے کے نتیجے میں قلم کو تالا بھی لگ سکتا ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں