بین الاقوامی تعلقات میں دوستی اور دشمنی جیسے الفاظ کوئی مفہوم نہیں رکھتے۔ اس دنیا میں سب کچھ مفادات کے تابع ہوتا ہے‘{ اور جب سبھی کچھ مفادات کے تابع ہوتا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ اصطلاحات بھی ایسی وضع کی جاتی ہیں جن سے تعلقات کی نوعیت ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ آج کل دو ممالک کی مضبوط دوستی کو سفارتی اصطلاح میں ''پارٹنرشپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح بھی مغرب کے عمومی ذہن کی پیداوار اور عمومی ذہنیت کی عکّاس ہے۔ مغرب میں جو مرد و زن شادی کے بغیر رہتے ہیں وہ ''پارٹنر‘‘ کہلاتے ہیں۔ بڑی طاقتوں اور کمزور ممالک کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو دوستی تو خیر کسی بھی طور نہیں کہا جا سکتا، ہاں ''پارٹنرشپ‘‘ کہنے سے حق ضرور ادا ہوتا ہے!
پاکستان اور امریکا کا تعلق بھی ایسا ہی کھٹّا میٹھا رہا ہے۔ ہم جسے دوستی سمجھتے تھے وہ امریکیوں کے نزدیک ''پارٹنر شپ‘‘ سے زیادہ کچھ نہ تھی! اِس کا اندازہ ہمیں کئی مواقع پر ہوا جب امریکا نے دوست گردانتے ہوئے ہمارا ہاتھ تھامنے کے بجائے دور سے ہیلو ہائے کرتے ہوئے گزر جانے کو ترجیح دی!
اب اسلام آباد کو احساس ہو چکا ہے کہ لندن اور واشنگٹن سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے۔ خود فریبی کا ایک دور تھا جس کے دوران اسلام آباد پر مغرب سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کا جُنون سا سوار رہا۔ باقیؔ صدیقی نے خوب کہا ہے؎
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے!
اسلام آباد کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ خود فریبی کے عالم میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ جب کچھ نہ سُوجھ رہا ہو تو قدم قدم پر فریب کھا کر بھی دل میں طمانیت کا احساس جاگزیں رہتا ہے۔ اب خیر سے کچھ سُوجھ رہا ہے تو راہ تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اکیسویں صدی میں جب اور بہت کچھ مکمل طور پر تبدیل ہوتا جا رہا ہے تو ہم کیوں نہ بدلیں، کیوں لکیر ہی پیٹتے رہیں؟
مگر خیر، بین الاقوامی تعلقات میں روش تبدیل کرنا ایسا آسان نہیں جیسا سمجھ لیا گیا ہے۔ کسی بھی بڑی طاقت کو راتوں رات خیرباد کہنا بچوں کا کھیل نہیں۔ ؎
''بڑے ہر ملک‘‘ سے صاحب سلامت دور کی اچھی
نہ اِن کی دوستی اچھی نہ اِن کی دشمنی اچھی
سفارت کاری اور اشتراکِ عمل کے میدان میں پاکستان اب اپنا سینٹر آف گریویٹی تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اور چاہتا کیا ہے، اِس حوالے سے عملی کاوشیں بھی پورے جوش و خروش سے شروع کر دی ہیں۔ امریکا اور یورپ کو ہر معاملے میں اوّلین ترجیح کا درجہ دیتے رہنے سے جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اب اُن سے گلو خلاصی کی عملی تدبیر کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد نے لندن اور واشنگٹن سے گریز کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے بیجنگ، انقرہ اور ماسکو کے نزدیک جانے کا جو عمل شروع کیا ہے‘ وہ ہمارے پُرانے ''مربّیوں‘‘ سے ہضم نہیں ہو پا رہا۔ امریکا اور یورپ سے یہ بات برداشت اور ہضم نہیں ہو پا رہی کہ پاکستان کو بنیاد بنا کر ترکی، چین اور روس ایشیا میں ایک بڑا بلاک تشکیل دیں اور وہ بھی اِس طور کہ اُن کا پُرانا نمک خوار بھارت محصور ہو کر رہ جائے۔
پاک چین راہداری منصوبہ شروع ہونے کے ساتھ ہی بہت کچھ اور بھی شروع ہو گیا ہے اور قدم قدم پر کچھ نہ کچھ ایسا کیا جا رہا ہے جو پاکستان کے لیے انتباہ کا درجہ رکھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لندن (یا برسلز) اور واشنگٹن نے نئی دہلی کو ''ٹاسک‘‘ دے دیا ہے۔ پاک چین راہداری منصوبہ اگر تمام طے شدہ امور کے مطابق اور طے شدہ ٹائم فریم میں مکمل ہو جائے تو پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک ایک اچھے مواصلاتی نظام کے ساتھ ساتھ ترقی اور خوش حالی سے بھی ہمکنار ہوں گے۔ یہ بات نئی دہلی کے حلق سے اتر نہیں رہی۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک طاقتور ہو گئے تو اُس کی چوہدراہٹ برقرار نہ رہ سکے گی اور بحر ہند کے پانیوں میں اُس کے مفادات کی لُٹیا کو ڈوبنے سے کوئی نہ روک سکے گا۔
کبھی آپ نے کسی بچے سے اُس کا پسندیدہ کھلونا چھینا ہے؟ چھین کر دیکھیے۔ اُس کا ردِعمل کیا ہو گا؟ بس کچھ ایسا ہی ہمارے معاملے میں بھی ہو رہا ہے۔ پاکستان 6 عشروں سے بھی زائد مدت سے امریکا اور یورپ کے لیے کھلونا تھا‘ اور اُن کی مہربانی سے بھارت بھی ہم سے کھیلتا آیا ہے۔ اب اسلام آباد نے اپروچ بدلی ہے تو ہم سے کھیلنے والوں کا دماغ گھوم گیا ہے۔ وہ تو گھومنا ہی تھا۔ کھلونا چھن جانے پر ایسا ہی ردعمل سامنے آیا کرتا ہے۔ امریکا اور یورپ مل کر ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ ہم اپنے بنیادی فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ گویا وہ پیغام دے رہے ہیں ع
تم روٹھ کے جاتے ہو تو سُنو، اے دوست مِرے پچھتاؤ گے!
اور اِدھر ہم زبانِ بے زبانی سے یہ کہنے پر مجبور ہیں ؎
کیا وہ نمرود کی خُدائی تھی؟
بندگی میں مِرا بھلا نہ ہوا!
پاکستان نے ترکی، چین اور روس سے بھرپور معانقے کے لیے قدم بڑھایا ہے تو امریکا اور یورپ نے بھارت کے ذریعے ہمیں ایسا کرنے سے باز رہنے کا انتباہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دھمکانے کا عمل ''فرنچائز‘‘ کر دیا گیا ہے۔ نئی دہلی چاہتا ہے کہ اسلام آباد ٹریک نہ بدلے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد، انقرہ، بیجنگ اور ماسکو کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت نے تہران کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ واشنگٹن اور برسلز کوئی ایران کے پچھواڑے تو ہیں نہیں۔ اور ایران اپنا محل وقوع تو بدلنے سے رہا۔ ایسے میں اُسے بھی علاقائی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے آگے بڑھنا پڑے گا۔ چند ماہ کے دوران تہران نے واضح عندیہ دیا ہے کہ پاک چین راہداری منصوبے پر اُسے بظاہر کوئی بڑا اعتراض نہیں اور وہ چاہے گا کہ اِس منصوبے میں کسی نہ کسی حد تک شامل ہو تاکہ معاملات کو درست رکھنے کی سمت بڑھا جا سکے۔
بھارتی آبدوز نے پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہونے کی جو کوشش کی اُسے اگر کوئی محض اتفاق یا حادثہ قرار دے کر نظر انداز کرے تو اس کی عقل کا ماتم کیا جانا چاہیے۔ بین الاقوامی معاملات میں کوئی بھی عمل حادثہ نہیں ہوتا۔ گوادر کی بندرگاہ سے چین کے پہلے مال بردار جہاز کا خلیج فارس کی طرف روانہ ہونا پاک چین راہداری منصوبے کے عمل پذیر ہونے کی ابتدا ہے۔ اِس اہم موقع پر بھارتی آبدوز کا پاکستانی پانیوں میں داخل ہونے کی کوشش کرنا علامتی حیثیت میں معنی خیز اور تشویشناک ہے۔
یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کسی علاقے میں کوئی بڑا شاپنگ مال کھل جائے تو وہاں پہلے سے موجود چھوٹے دکان دار مل کر گڑبڑ پھیلائیں، کریکرز کے دھماکے کرکے گاہکوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کریں! کسی کو کاروبار سے روکنے کا یہ طریقہ لاحاصل ہے۔ کامیابی کے لیے اپنی دکان داری یعنی سروس کا معیار بلند کرنا ہو گا۔ لندن، برسلز اور سب سے بڑھ کر واشنگٹن کے حکم یا فرمائش پر نئی دہلی نے پاک چین راہداری منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانے کا عمل شروع کر دیا ہے‘ مگر یہ بات اُس نے نظر انداز کر دی ہے کہ وہ صرف اسلام آباد کو نہیں بلکہ انقرہ، بیجنگ اور ماسکو کے ساتھ ساتھ کسی حد تک تہران کی بھی ناراضی مول لے رہا ہے۔ نئی دہلی یقیناً یہ سوچ کر خوفزدہ ہے کہ یہ پانچ ممالک مل کر ایک باضابطہ بلاک بنانے میں کامیاب ہو گئے تو چوہدراہٹ تو جائے گی سو جائے گی، وہ محصور سا ہو کر رہ جائے گا۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے راستہ بدلنا اسلام آباد کے لیے محض ضروری نہیں بلکہ ناگزیر ہے۔ ایک صدی سے بھی زائد مدت سے طاقت کا مرکز مغرب میں ہے اور وہ کئی خطوں کو تاراج کرکے اپنا تاج سلامت رکھے ہوئے ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی سیاست کا سینٹر آف گریویٹی تبدیل ہو۔ ایسا ہو گا تو مغرب کے ہاتھوں شدید استحصال، بلکہ استیصال سے دوچار اقوام کو سُکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔ پاکستان کا محل وقوع رحمت بھی ہے اور زحمت۔ نعمت یوں کہ کئی ممالک کے لیے ہم انتہائی کارآمد ہیں۔ زحمت یوں کہ کئی طاقتیں ہمیں کسی اور کے لیے کارآمد ہونے سے روکنے کے درپے ہیں۔ ایسے میں محکم فیصلے کیے جائیں تو بات بنے گی۔ اچھی طرح سوچ سمجھ کر جو فیصلے کر لیے اُن پر ڈٹے رہنے ہی میں عافیت ہے۔ اِس راہ میں دو چار بہت سخت مقام آئیں گے اور اُن کے لیے ہمیں تیار رہنا پڑے گا۔