پارلیمنٹ کے رکن ساکشی مہاراج اور بدری ناتھ کے شنکراچاریہ کو قدرت نے ایسا وصف عطا کیا ہے کہ بات بے بات تنازعات پیدا کرتے ہیں اور پھر اپنے بچھائے ہوئے دام میں خود ہی پھنس جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں میرٹھ (اتر پردیش) میں مندر کا افتتاح کرتے ہوئے ساکشی مہاراج خطاب کے دوران پھر پھسل گئے اور مسلمانوں کے خلاف ایسا بیان داغ بیٹھے جو بدنامی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف مقدمے کا بھی باعث بن گیا۔ ساکشی مہاراج نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کا نام لیے بغیر کہا کہ چار بیویوں اور چالیس بچوں والوں نے بھارت کی آبادی خطرناک حد تک بڑھادی ہے! ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر ہندو عورت کو کم از کم چار بچے پیدا کرنے چاہئیں اور یہ بھی کہ ایسا نہ ہوا تو ہندو بہت پیچھے رہ جائیں گے اور ملک تقسیم ہوجائے گا۔ ان کے نزدیک ہندو دھرم کو بچانے کا اب ایک یہی راستہ بچا ہے کہ ہندوؤں کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہو!
میرٹھ پولیس نے ساکشی مہاراج کے خلاف مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام میں تعذیرات ہند کی دفعات A295 اور 298 کے تحت مقدمہ درج کیا۔ ساکشی مہاراج اتر پردیش سے پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بہت سے مسلمانوں، عیسائیوں اور سِکھوں کو بزور ہندو بنانے کی ''گھر واپسی‘‘ تحریک کو درست کہتے ہوئے مذہب کی تبدیلی قرار دینے سے یکسر گریز کیا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ گائے کے ذبیحے اور ہندوؤں کو مسلمان، عیسائی یا بُدھسٹ بنانے پر سزائے موت کا قانون بنایا جائے۔ ساکشی مہاراج نے گزشہ ماہ کہا تھا کہ موہن داس کرم چند گاندھی کو قتل کرنے والا مراٹھا نتھو رام گوڈسے محبِ وطن تھا!
ساکشی مہاراج کی جانب سے ہر ہندو عورت سے چار بچے پیدا کرنے کی فرمائش نے، حسبِ توقع، ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ انہوںنے دو سال قبل بھی اپنی اِسی فرمائش سے خاصی گرد اڑائی تھی۔
کانگریس کی رہنما پرینکا چترویدی ساکشی مہاراج پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا عورتوں کا کام اب صرف بچے پیدا کرنا رہ گیا ہے۔ ایک صحافی نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ''میک اِن انڈیا‘‘ تحریک کا آغاز کرکے ملک میں مینوفیکچرنگ کے حوالے سے انقلاب برپا کرنے کی راہ ہموار کی ہے تو شاید ساکشی مہاراج کا اشارا بھی اُسی طرف تھا ... گویا اور کچھ نہیں تو بچوں کی مینوفیکچرنگ ہی سہی۔
جیوتر مٹھ (بدریکاشرم، بدری ناتھ، اترا کھنڈ) کے شنکراچاریہ شری واسو دیوانند سرسوتی نے 18 جنوری 2015 کو میگھ میلہ کے دوران خطاب میں ہندوؤں سے کہا تھا کہ وہ ہندو دھرم کو تباہ ہونے سے بچائیں اور اِس کا ایک ہی راستہ ہے ... یہ کہ ہر ہندو گھرانہ کم از کم دس بچے پیدا کرے۔ شری واسو دیوانند ے بیان نے بھی خاصا ہنگامہ برپا کیا تھا۔ یہ عجیب منطق ہے کہ ہندو دھرم بار بار ذرا سی بات پر خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ چلیے، سیاسی اعتبار سے دیکھیے تو ہندو دھرم کا خطرے میں پڑنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ہندوؤ کو مشتعل کرنے، مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے اور اُن سے ووٹ بٹورنے کے نام پر دھرم پر سنکٹ کا آنا واجب سا لگتا ہے مگر دھرم کو لاحق خطرے کا تدارک کرنے کی کوئی موثر اور معقول سبیل بھی تو تلاش کی جانی چاہیے۔ کئی سال سے معاملہ یہ ہے کہ انتہا پسند ہندو لیڈر ہندو دھرم کو بچانے کی ذمہ داری خواتین کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کی علم بردار کہتی ہیں کہ دھرم کو بچانے کے لیے زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دینے والوں کی مت ماری گئی ہے۔ ایک طرف تو وہ چار بیویوں اور چالیس بچوں کا رونا روتے ہیں اور دوسری طرف خود بھی بچوں کی لائن لگانے کی فرمائش کے گولے داغ رہے ہیں!
مرزا تنقید بیگ نے ساکشی مہاراج اور اُن سے قبل شنکراچاریہ شری واسو دیوانند سرسوتی کے مبنی بر فرمائش بیانات پر کہا ہے کہ انتہا پسند ہندو لیڈر اور کچھ تو کر نہیں سکتے اس ل بے چاری خواتین کو میدان میں گھسیٹ لاتے ہیں۔ جب انگریزوں سے نجات یعنی مکمل آزادی کی تحریک چلائی جارہی تھی تب بھی ایسی ہی باتیں کی جاتی تھیں۔ کانگریس کے پلیٹ فارم سے ہندو اور مسلمان مل کر آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایک جلسے میں کانگریس کے کسی ہندو لیڈر نے اپنی قوم (یعنی ہندوؤں) کے حالِ زار کا ذکر کرتے ہوئے بڑی ہی درد مندی سے کہا کہ مسلمانوں کو دیکھیے کہ پھل پھول رہے ہیں یعنی اُن کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے اور دوسری طرف اپنوں (یعنی ہندوؤں) کو دیکھیے کہ اُن کی تعداد سگنل پر رُکی ہوئی ریل کی طرح ہے۔ اُنہوں نے ہندوؤں کو تعداد میں اضافے یعنی زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا۔ اِس پر ایک مسلم لیڈر نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمیں اپنے ہندو بھائیوں کی تعداد میں اضافے کی سُست رفتاری پر افسوس ہے۔ بتائیے کہ ہم مسلمان اِس سلسلے میں آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں! اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس نوعیت کے اظہارِ ہمدردی پر کیسا ہنگامہ برپا ہوا ہوگا اور اُس ہندو لیڈر کو دُکھڑا رونے پر اپنوں ہی کی طرف سے کتنی گالیاں پڑی ہوں گی!
معاشرتی بہبود کے علم برداروں کا کہنا ہے کہ جو لوگ دھرم کی بات کرتے ہیں اور ''ہندُتوا‘‘ کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے اُن کی عقل پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ دھرم پر سنکٹ (مصیبت، بحران) کے آنے کا رونا تو بہت روتے ہیں مگر اِس حوالے سے خود کوئی کردار ادا کرنے پر غور نہیں کرتے۔ تان ٹوٹتی ہے تو اِس بات پر کہ ہر ہندو عورت کو چار پانچ یا پھر دس بچے پیدا کرنے چاہئیں۔ ایسے ہی معاملات میں تو کہا جاتا ہے طویلے کی بلا بندر کے سر! کرے کوئی، بھرے کوئی بھی یقیناً ایسے ہی معاملات کے لیے کہا جاتا ہے۔
بھارت میں حقوقِ نسواں کی علم برداروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی آبادی پہلے ہی اچھی خاصی ہے اور اُسے کنٹرول کرنا مستقل دردِ سر ہے۔ ایسے میں ہر ہندو گھرانے سے کم از کم دس بچے پیدا کرنے کی فرمائش! یہ تو مرے کو مارے شاہ مدار والی بات ہوئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی فرمائش کرکے ہندو خواتین کے ہوش کیوں اڑائے جارہے ہیں؟ کیا بھارت میں ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل ہوجانے کے خطرے کا سامنا ہے؟ ایسا تو نہیں ہے۔ اگر غیر محتاط اندازوں کی روشنی میں بات کی جائے تب بھی بھارت میں ہندو مجموعی آبادی کے 80 فیصد سے زائد ہیں۔ اور مجموعی آبادی میں مسلمان بمشکل 14 تا 16 فیصد ہیں۔ ایسے میں ہندوؤں کے اقلیت میں تبدیل ہوجانے کا خطرہ کہاں سے پیدا ہوگیا؟
دنیا بھر میں مذہب کے نام پر سرگرم افراد کو بھارت کے انتہا پسند ہندو لیڈرز سے کچھ نہ کچھ تو سیکھنا ہی چاہیے۔ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ جب کسی مذہب کے وجود کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو معاشرتی بہبود پر توجہ دی جاتی ہے۔ لوگوں کے اخلاق درست کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مذہبی تعلیمات کا فروغ یقینی بنایا جاتا ہے تاکہ لوگ مذہب کو اپنی روزمرہ زندگی میں اپنائیں۔
بھارت میں یہ تماشا ایک زمانے سے جاری ہے کہ جب مسائل کا کوئی حل نہیں سُوجھتا تو دھرم کے سنکٹ میں ہونے کا راگ الاپا جاتا ہے۔ ہندو دھرم کو اگر کوئی خطرہ لاحق ہے تو صرف مسلمانوں سے۔ اور پھر حل یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ دیویوں اور دیوتاؤں کی مورتیوں کے سامنے سر جھکانے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ یعنی قہرِ درویش بر جانِ زن! اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہر ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والے دس کے دس بچے دھرم کے سچے پیرو ہوں گے؟
مسلمانوں پر تو صرف یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنی عورتوں کو بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھ رکھا ہے مگر انتہا پسند ہندو اپنی عورتوں کو بچے پیدا کرنے کی فیکٹریوں میں تبدیل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی ایک نئے بھارت کو جنم دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اُن کے ذہن میں کیسا بھارت پنپ رہا ہے۔ اگر انتہا پسند لیڈر اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو بہت ترقی کرکے بھی بھارت کیا پائے گا؟ ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی پیداوار ساری کی ساری ترقی کو ڈکارتی رہے گی۔ نریندر مودی چمکتا دمکتا بھارت دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اُن کے اپنے ہم مشرب انتہا پسند لیڈر ہیں کہ اندھیروں کی رفتار تیز کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ بات بے بات پاکستان کو لتاڑنے والے نئی دہلی کے بزرجمہر اپنے انتہا پسند لیڈرز کے حماقت آمیز بیانات پر دُم دبائے، چُپ سادھے ہوئے کیوں بیٹھے ہیں؟