زمانہ یوں بدلا ہے کہ کئی زمانے کبھی واپس نہ آنے کے لیے جا چکے ہیں۔ جو کچھ سوچا بھی نہ جا سکتا تھا وہ ہو رہا ہے اور یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر دل و دماغ مزید الجھتے ہیں جاتے ہیں کہ آنے والے ادوار میں کیا کیا رونما ہو گا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ جواں سال ہیں۔ اُن سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ اُنہوں نے یہ منصب سید قائم علی شاہ سے لیا ہے۔ شاہ سائیں جس حالت میں تھے وہ تو سبھی جانتے ہیں۔ ایسے میں مراد علی شاہ سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لینا حیرت انگیز نہیں۔ اور انہوں نے قوم کو مایوس کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ چند روز پیشتر مراد علی شاہ نے کراچی کے چڑیا گھر کا دورہ کیا اور وہاں اچھا وقت گزارا۔ وہ بہت خوشگوار موڈ میں دکھائی دیئے اور جانوروں کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔
وزیر اعلیٰ کے چڑیا گھر کے دورے کا ایک اچھا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ شہریوں کے ایک دیرینہ مطالبے کے پورا ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ سید مراد علی شاہ نے ایک اجلاس میں چڑیا گھر اور سفاری پارک کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا۔ اجلاس کے شرکا سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ جانوروں کو کھلے پنجروں میں اور بڑے انکلوژرز میں رکھا جائے کیونکہ انہیں قدرتی ماحول فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔ شہریوں کو تفریح کی زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ انہوں نے جانوروں کے پنجروں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کی ہدایت بھی کی۔ ڈیزائن ڈائریکٹر زین مصطفٰی نے وزیر اعلیٰ سندھ کو بتایا کہ کراچی کے چڑیا گھر کا نیا ڈیزائن بیرون ملک 10 بڑے چڑیا گھروں کے ڈیزائن پر تحقیق کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ نئے ڈیزائن میں جانوروں کے پوشیدہ رہنے یعنی پرائیویسی برقرار رکھنے کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ انہیں دھوپ بھی مل سکے گی اور سردی بڑھنے پر وہ غار میں چھپ بھی سکیں گے۔
یہ خبر پڑھ کر ہم سوچنے لگے کہ اب اس تکلف کی ضرورت کیا ہے۔ کراچی کا چڑیا گھر ایک زمانے سے جس حالت میں ہے وہ قابل رحم کہلاتی ہے۔ جانور جس انداز میں رکھے جاتے رہے ہیں وہ سب کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے یعنی لوگ جانوروں سے تھوڑی بہت ہمدردی سی محسوس کرتے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے، جانوروں کو اُن کی پسند اور عادت کے ماحول میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ہے! بہت سے لوگ یہ اعتراض کرتے آئے ہیں کہ جانوروں کو ان کی پسند کا ماحول فراہم نہیں کیا جا رہا۔ ہم حیران ہیں کہ لوگ یہ شکوہ کیوں کرتے ہیں۔ کبھی آپ کسی جنگل میں گئے ہیں؟ وہاں کا ماحول اگر آپ نے جاکر نہیں دیکھا تو کیا ہوا، وڈیوز میں تو ضرور دیکھا ہوگا۔ آپ ہی ایمان داری سے بتائیے کہ کیا کراچی کے چڑیا گھر کے پنجروں اور انکلوژرز کو دیکھ کر وہی کیفیت طاری نہیں ہوتی جو مرزا غالبؔ پر طاری ہوا کرتی تھی؟ یعنی ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا!
ہم نے جنگل ''بہ قلم خود‘‘ یعنی جاکر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا مگر اچھے خاصے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جنگل کا ماحول کراچی کے چڑیا گھر کے پنجروں اور انکلوژرز سے کیا مختلف ہوتا ہو گا! جنگل میں انسان کو دہشت اور وحشت دونوں ہی کا احساس ہوتا ہے۔ یہی احساس کراچی کے چڑیا گھر میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ گزارنے سے بھی ہوتا ہے۔ بہت سے پنجروں کی حالت اِس قدر ''قدرتی‘‘ ہے کہ اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جانوروں کو جنگل میں کس نوعیت کے ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ جانوروں کو پرائیویسی فراہم کرنے والی بات البتہ اچھی ہے۔ یہاں اب انسان پرائیویسی کو ترس رہے ہیں۔ ایسے میں جانوروں کے لیے پرائیویسی کا میسر آ جانا کمال کہلائے گا!
ایک زمانے سے ہم سنتے آئے ہیں کہ چڑیا گھر میں جانوروں کو اُن کی یومیہ ضرورت کے مطابق کھانا نہیں ملتا۔ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جانور کوئی کام وام تو کرتے نہیں، پھر انہیں کھانا کیوں دیا جائے؟ مگر یہ اعتراض کرنا نہیں چاہیے کیونکہ اِس ملک میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد ایسے ہیں جو جانوروں کی ہمسری کر رہے ہیں یعنی کوئی کام نہیں کرتے مگر کھانے میں سب سے آگے ہیں! اگر کھانے کو کام سے مشروط کر دیا جائے تو چڑیا گھر کے جانور شاید بچ جائیں مگر چڑیا گھر کے باہر پائے جانے والے لاکھوں، کروڑوں ''دو پائے‘‘ بھوکے مر جائیں!
سنتے ہیں جنگل میں پیٹ بھرنا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اِسی کا سارا جھگڑا ہے۔ جنگل میں صرف ایک قانون چلتا ہے... جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ آپ سوچیں گے اِس میں نیا کیا ہے، یہ تو ہماری دنیا میں بھی ہوتا ہے۔ جس میں دم ہوتا ہے وہی سردار بنتا ہے۔ جس میں جتنی طاقت اُس کا اتنا اقتدار۔ جنگل میں خوراک کا حصول یقینی بنانے کے لیے تقریباً تمام ہی جانوروں کو غیر معمولی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ اور شکار بھی اِتنا کرنا پڑتا ہے کہ اگر دو تین دن تک کچھ اور نہ ملے تو پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرنے کا اہتمام کرنا زیادہ دشوار نہ ہو۔ ہمارے ہاں جنگل کے ماحول کی اِس خصوصیت کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ جانوروں کو اس قدر کم کھانا ملتا ہے کہ جنگل کا ماحول اُن کے دماغ سے نکل نہیں پاتا! اس معاملے میں وہ اپنے آپ کو گھر کے ماحول میں پاتے ہیں! جنگل میں ہر جانور کو ڈرا دھمکا کر شان سے جینے والا ببر شیر ''جبری ڈائٹنگ‘‘ کے نتیجے میں ایسا مریل دکھائی دیتا ہے کہ اُسے دیکھ کر خوف تو کیا محسوس ہو گا، ہمدردی ہی محسوس ہونے لگتی ہے! ویسے مریل سے ببر شیر کو دیکھ کر ہمدردی کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا سکون بھی محسوس ہوتا ہے کیونکہ شیر تگڑا ہو تو لوگ اُسے دیکھ کر کم اور پنجروں کی خستہ حالت دیکھ کر زیادہ خوف محسوس کریں گے!
گزشتہ دنوں ہم نے چڑیا گھر کی سیر کی تو اندازہ ہوا کہ اندر اور باہر اب کچھ زیادہ فرق نہیں رہا۔ چڑیا گھر میں دو تالاب آمنے سامنے ہیں۔ ایک میں تھوڑا بہت پانی تھا جس میں چند ایک کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو سیر کرائی جا رہی تھی۔ چلیے، یہ تو اچھی بات ہے کہ لوگوں کو کشتی کی سیر کا موقع مل رہا ہے۔ مگر سامنے والا تالاب یکسر خشک پڑا تھا۔ اِس کی کیا غایت تھی؟ ہم سے جب ہماری بیٹی نے پوچھا کہ یہ دوسرا تالاب خشک کیوں ہے تو ہم نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ شاید چڑیا گھر کی انتظامیہ لوگوں کو یہ دیکھنے کا موقع دینا چاہتی ہے کہ پانی کے بغیر تالاب کیسا دکھائی دیتا ہے یا کیا پتا جادو کا پانی ہو جو ہمیں دکھائی نہ دے رہا ہو!
بیٹی نے پوچھا کہ چڑیا گھر میں صفائی سُتھرائی پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی؟ ہم نے چڑیا گھر کی انتظامیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے وضاحتی بیان جاری کیا کہ جنگل میں بھی صفائی کا انتظام نہیں ہوتا اِس لیے وہاں کے ماحول کو جوں کا توں پیش کرنے کے لیے یہاں بھی صفائی پر کچھ خاص توجہ نہیں دی گئی!
ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ چڑیا گھر کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ اگر وزیر اعلیٰ واقعی یہ چاہتے ہیں کہ جانوروں کو حقیقی قدرتی ماحول فراہم کیا جائے تو عوام سے ٹیکس کے ذریعے وصول کی گئی خطیر رقم ٹھکانے لگانے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ جانوروں کو شہر میں کھلا چھوڑ دیا جائے! شہر کے کئی علاقوں میں لوگ ایسے گئے گزرے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ ہمیں یقین ہے اُنہیں دیکھ کر چڑیا گھر کے جانور اپنے پنجروں کی طرف دوڑنے میں دیر نہیں لگائیں گے!