"MIK" (space) message & send to 7575

ٹھنڈی ٹھار زندگی

بے مثال سردی کی آماجگاہ روس سے گرما گرم خبر یہ آئی ہے کہ وہاں دنیا کا پہلا برفانی کتب خانہ قائم کیا گیا ہے۔ یہ کتب خانہ برف کی دیواروں پر مشتمل ہے جن پر انگلش، رشین، چائنیز اور کورین زبان میں کلاسک کا درجہ رکھنے والی کتب سے اقتباسات کندہ کیے گئے ہیں۔ اپنی نوعیت کے واحد کتب خانے کو دیکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس برفانی کتب خانے سے صرف اپریل کے آخر تک مستفید ہوا جاسکے گا کیونکہ موسم سرما کے رخصت ہوتے ہی یہ کتب خانہ قدرتی طور پر بند ہوجائے گا یعنی پگھل جائے گا! 
ایک طرف وہ ہیں جن پر موسم کی سختی اثر انداز ہوتی ہے نہ انسانوں کے پیدا کردہ حالات کی خرابی کوئی خاص منفی اثر مرتب کرتی ہے۔ وہ لوگ جو کچھ بھی جی میں ٹھان لیتے ہیں وہ کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ اور دوسری طرف ہم ہیں کہ موسم موافق ہو تب بھی جذبے ناموافق ہی رہتے ہیں۔ کچھ کریں تو تب کہ جب کچھ کرنے کا جی چاہے۔ 
اعصاب شکن سردی ہو یا جسم و جاں کو پگھلا دینے والی گرمی، ساری بحث تو اندر کے موسم کی ہے۔ اگر باطن کا موسم موافق ہو تو باہر کی سردی یا گرمی انسان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ سوال صرف ٹھان لینے کا ہے۔ ارادہ پختہ ہو تو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے، کچھ بھی بنا جاسکتا ہے۔ ع 
مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجیے 
ایک زمانے سے ہمارے ہاں کتب خانے ایسی حالت میں ہیں کہ اُن کی مدد سے تو تحقیق خیر کیا ہوگی، اُن پر تحقیق کی ضرورت ہے! مطالعے کا حقیقی اور ٹھوس رجحان اگر سلامت رہ گیا ہے تو صرف پنجاب میں۔ باقی تینوں صوبوں کا معاملہ اِس کے برعکس یعنی ٹھنڈا ٹھار ہے، راوی ''چَین ہی چَین‘‘ لکھتا ہے! عام آدمی میں مطالعے کے ذوق و شوق کا پایا جانا تو دور رہا، طلباء میں بھی مطالعے کی عادت نہیں پائی جاتی۔ اب تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ یہ معاملہ نہ جانے کب سے ٹھنڈا ٹھار چلا آرہا ہے۔ 
برف کی دیواریں بناکر اُن پر عظیم کتب کے شاہکار جملے کندہ کرنے والوں کو کراچی لاکر کام پر لگانے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی کہلائے جانے والے شہر میں مطالعے کا شوق خطرناک حد تک غیر موجود ہے۔ لوگ دنیا بھر کی فضول سرگرمیوں پر مال لُٹاتے پھرتے ہیں مگر کتاب کی بات آئے تو اُنہیں سانپ سُونگھ جاتا ہے۔ بیشتر افراد کا یہ حال ہے کہ اُنہیں کتب بینی کا مشورہ دیجیے تو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں، گویا اُن کی شان میں کوئی گستاخی کردی ہو یا اُن کے کسی بزرگ کو گالی دے دی گئی ہو! 
ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ پڑھنے والے پڑھنے کے صلے میں بہت کچھ پاتے ہیں۔ زندگی میں اگر ذرا سی بھی معنویت پیدا ہوتی ہے تو صرف مطالعے سے ۔ کسی بھی بڑے مقصد کی طرف سفر شروع ہوتا ہے تو مطالعے ہی کی راہ پر گامزن ہونے کی صورت میں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہو اور اُس کی زندگی میں کوئی بڑی، مثبت تبدیلی رونما نہ ہو۔ زمین تیار کرکے بیج ڈھنگ سے بوئے جائیں اور پانی بھی خوب دیا جائے تو فصل کیوں تیار نہ ہو؟ جو نتائج پوری دنیا میں برآمد ہوتے ہیں وہ ہمارے ہاں اپنے اصول اور فطرت کیوں بدلیں گے؟ کسی کو پتھر مارا جائے تو امکان اس بات کا ہے کہ وہ بھی جواب میں پتھر مارے گا۔ یہ تو ہوا بُرائی کا پھل۔ اِسی طور اچھائی بھی پھل دیتی ہے۔ اچھائی کا پھل، ظاہر ہے، اچھائی ہی کی شکل میں برآمد ہوگا۔ جب کیکر کی جھاڑیاں اگانے پر آپ کو گلاب نہیں ملتے تو فطرت ایسی بے دِلی اور لاپروائی کیوں دکھائے گی کہ اچھائی کا دامن پھولوں کے بجائے بُرائی کے کانٹوں سے بھردے؟ 
ایک دور تھا کہ کراچی میں بھی کتب خانے تھے۔ بہت زیادہ نہ سہی مگر اِتنے ضرور تھے کہ جنہیں کچھ پڑھنے کا شوق تھا وہ اپنے ذوق و شوق کی تشفّی بہت حد تک کر پاتے تھے۔ جو کتابیں پڑھنے کے شوقین نہیں تھے وہ بہر حال اخبارات و جرائد ضرور چاٹ جاتے تھے۔ اور یہی عادت پختہ ہوجانے پر کتب بینی کی طرف لے جاتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ خالص مادّہ پرست ذہنیت نے اِس شہر کے ذہنوں کو ڈسنا شروع کیا اور اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ کتب بینی کے نام سے بدکتے ہیں۔ کسی کو پڑھنے یعنی مطالعے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کیجیے تو وہ ایسا محسوس کرتا ہے جیسے کسی بکرے کو بہلا پُھسلاکر مذبح کی لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے! کوئی لاکھ کوشش کر گزرے مگر یقین ہی نہیں آتا کہ یہی لوگ کسی زمانے میں مطالعے میں غرق رہنے کے شوقین اور عادی تھے۔ کراچی کے کئی علاقے مطالعے کے حوالے سے نمایاں تھے۔ شاہ فیصل کالونی، ملیر، لانڈھی، کورنگی، نیو کراچی، اورنگی ٹاؤن، ناظم آباد، پاپوش نگر، پاک کالونی وغیرہ میں گلی گلی ایسی دکانیں پائی جاتی تھیں جہاں سے کتب کے علاوہ جرائد بھی کرائے پر حاصل کیے جاسکتے تھے۔ مطالعہ زندگی کا حصہ اُسی طور ہوا کرتا تھا جس طور ہوا، پانی اور اشیائے خور و نوش زندگی کا حصہ ہوا کرتی ہیں۔ 
آج وہ دور ماضیٔ بعید کا کوئی سُنہرا عہد معلوم ہوتا ہے۔ یقین ہی نہیں آتا کہ ہماری زندگی سے کتب بینی یوں نکل گئی ہے کہ واپس آنے کا نام نہیں لے رہی۔ کسی نہ کسی طور جی لینے کو زندگی سمجھ کر اطمینان کی چادر پورے وجود پر تان لی گئی ہے۔ ایک بار طے کرلیا گیا کہ زندگی صرف کھانے پینے، کام کرنے، تھکنے، سونے اور جاگنے تک محدود ہے۔ اور پھر اِس معمول کو مقصدِ حیات سمجھ کر یوں اپنالیا گیا کہ اِس سے سرِ مُو انحراف بھی ''بغاوت‘‘ کے ذیل میں آگیا! 
کراچی کے حالات بگڑے تو اِس حد تک بگڑے کہ بہت سے تعلیمی اداروں کی طرح کتب خانوں میں بھی نیم فوجی دستوں کو بٹھادیا گیا۔ کتب خانے جس مقصد کے لیے قائم کیے گئے تھے جب وہ حاصل نہ ہوا تو انتظامیہ نے یہی بہتر جانا کہ عمارت کو خالی یا بے مصرف نہ چھوڑا جائے۔ ع 
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی! 
اِس میں کیا شک ہے کہ جن کے مقاصد بلند ہوں اور کام کرنے کی لگن کا گراف اُس سے بھی زیادہ بلند ہو وہ کچھ نہ کچھ کرکے دم لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ کوئی سخت سرد موسم کو جھیل کر ثابت کر رہا ہے کہ کسی بھی ماحول میں زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ کوئی پہاڑی چوٹیاں سَر کرنے نکلا ہے۔ کوئی سمندروں کو کھنگال کر قدرت سے مزید راز افشا کرنے پر کمر بستہ ہے۔ کہیں تحقیق کا بازار گرم ہے اور کہیں جدت و ندرت کا۔ بس ایک ہم ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں۔ اب تو پدرم سلطان بُود کہنے والوں کی تعداد بھی گھٹتی جارہی ہے۔ کیوں نہ گھٹے؟ کچھ بننے اور کچھ کر گزرنے کی لگن زندگی سے یوں رخصت ہوئی ہے کہ ماضی پر فخر کرنے سے بی شرمندگی محسوس ہونے لگی ہے! 
ایسی ٹھنڈی ٹھار زندگی بھلا کس کام کی؟ سوال صرف مطالعے کا نہیں، زندگی میں بھرپور دلچسپی لینے کا ہے۔ جو زندگی کا حق ادا کرنے کا سوچیں گے وہ عمل کی دنیا میں قدم رکھنے کا ذہن بھی بنائیں گے۔ اور پھر وہ ہر اُس کام میں دلچسپی لیں گے جو زندگی کا حق ادا کرنے کے قابل ہونے کے لیے لازم ہو۔ مطالعہ بھی ایسے ہی کاموں میں سے ہے۔ دنیا کا واحد برفانی کتب خانہ چھوٹا سا اور مختصر میعاد کے لیے ہے مگر یہ علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ علامت ہے زندگی سے حقیقی محبت اور کچھ کر دکھانے کی لگن کی۔ دیکھیے ہمارے برفانی کتب خانے کب منصۂ شہود پر آتے ہیں۔ کہیں یہ ٹھنڈی ٹھار زندگی ہی بن بُلائے اور ان چاہے آپشن کی حیثیت اختیار نہ کرلے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں