"MIK" (space) message & send to 7575

تحقیق کی دوڑ … خرّاٹوں تک!

تحقیق نے ہر شعبے میں بے حد و بے حساب آسانیاں پیدا کی ہیں۔ کہتے ہیں تحقیق بہت مشکل کام ہے۔ ہوتا ہوگا مگر اِس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس مشکل کام کی بدولت بہت سے کام آسان، بلکہ آسان تر ہوگئے ہیں۔ اور تر بھی ایسے کہ لقمۂ تر دیکھ لے تو شرما جائے! 
محققین کا احسان ہے کہ وہ تحقیق کے ریگ مال سے ہر شعبے کو بار بار رگڑ کر نیا بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بالکل سامنے کی بات کو بھی تحقیق کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش میں اِتنا مزاح پیدا کیا گیا ہے کہ جائزہ لینے نکلیے تو اپنا بھی نشان نہ پائیے، ہنستے ہنستے بے حواس ہوجائیے! 
محققین بعض ایسے معاملات پر بھی تحقیق کرنے سے باز نہیں رہے جن کے حوالے سے بچے بھی فیصلہ کن انداز سے رائے دے سکتے ہیں۔ مثلاً ماہرین نے کئی بار مختلف زاویوں سے تحقیق کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ جب کوئی اپنا یعنی رشتہ دار، دوست یا شناسا اِس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دل و دماغ شدید صدمے کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے اور ایسے میں سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے! اِسے کہتے ہیں مان نہ مان، میں ہوں محقق! یہ بیسویں اور اکیسویں صدی کا کمال ہے کہ کسی اپنے کی موت سے دل و دماغ کو ہونے والے شدید رنج کی تفہیم کے لیے بھی ماہرین کی ضرورت محسوس کی گئی ہے! 
علم کے حصول اور تدریس کے حوالے سے گُل کھلاتے رہنا بھی محققین کی پُرانی اور پسندیدہ عادت ہے۔ کلاس روم میں کس مزاج کے بچے کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ محققین کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اس بحر کی تہہ سے وہ عجیب و غریب قسم کے موتی نکالتے آئے ہیں۔ اور کبھی کبھی جب کچھ ہاتھ نہیں لگتا تو وہ خود اِس بحر کی تہہ سے اُچھل پڑتے ہیں! 
ذہین اور کند ذہن ... ہر دو طرح کے بچوں کے بارے میں محققین نے اس قدر دادِ تحقیق دی ہے کہ اُن کی یہ عادت (یعنی تحقیق) اب لَت کا درجہ اختیار پاچکی ہے! پڑھانے والے پڑھانے پر اور پڑھنے والے پڑھنے پر اُتنی توجہ نہیں دیتے جتنی محققین اِن دونوں سے متعلق تحقیق پر دیتے ہیں! محققین کا استدلال یہ ہے کہ مختلف بیماریاں بچوں کی قابلیت اور ذہنی استعداد پر اثر انداز ہوتی ہیں یعنی اُن کی کارکردگی کا گراف گراتی ہیں۔ 
تعلیم و تعلّم اور نیند کے تعلق سے متعلق محققین نے اِتنی تحقیق کی ہے کہ اگر اِتنی تحقیق انسان اور اُس کے خالق کے تعلق سے متعلق کی جاتی تو آج دنیا بھر میں محض گنتی کے ملحد پائے جاتے! 
کبھی کہا جاتا ہے کہ اونگھنے والے بچے کند ذہن ہوتے ہیں اور کبھی کہا جاتا ہے کہ کلاس روم میں سونے والے بچے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے۔ ہم یہ عرض کرنے کی جسارت کریں گے کہ ''مولا بخش‘‘ کی پروا کیے بغیر کلاس روم میں سونا کیا کوئی کم بڑا کام ہے! 
محققین اِس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ بھرپور (یعنی جتنی جسم کو درکار ہے اُتنی) نیند سے دماغ تر و تازہ اور توانا رہتا ہے۔ اور یہ کہ مطلوب حد تک نیند پوری کرنے کے بعد جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو اپنے کام پر بھرپور توجہ دینے کے قابل ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ محققین بچوں کی رات بھر کی پُرسکون نیند پر بہت زور دیتے ہیں۔
اب آپ یہ سوچ کر مطمئن نہ ہوجائیے گا کہ آپ کے بچے نے گھر میں نیند کا کوٹہ پورا کرلیا ہے تو کلاس روم میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ محققین نے کہا ہے کہ خرّاٹے لینے والے بچے کلاس روم میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے یعنی پوری توجہ سے کچھ سیکھتے نہیں اور امتحان میں بھی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ 
یہ بات ہم اپنی طرف سے کہہ کر والدین کے دِل و دماغ میں بدگمانی کے بیج نہیں بو رہے۔ برطانیہ کے محققین نے کئی برس کی تحقیق اور سیکڑوں بچوں کے معمولات کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ خرّاٹے لینے کے عادی بچے کلاس روس میں کچھ سیکھنے کے حوالے سے خاصے سُست اور نا اہل ثابت ہوتے ہیں۔ یہ خبر پڑھ کر ہم پہلے چونکے، پھر شرمندہ ہوئے اور آخر میں مشتعل ہوئے بغیر نہ رہ سکے! ایسا تو ہونا ہی تھا۔ بات یہ ہے کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، اپنی نیند کے پہلو میں خرّاٹوں کو بھی جلوہ افروز پایا ہے! برطانوی محققین کی بات اگر کسی اعتراض کے بغیر، من و عن تسلیم کرلی جائے تو یہ دل خراش حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم میں اہلیت نہیں پائی جاتی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ خرّاٹوں اور نا اہلی کے تعلق کو تسلیم کرنے سے ہماری کالم نگاری بھی غیر معیاری، غیر مستند اور نا اہلی کا نتیجہ ٹھہرتی ہے! 
ایک زمانے سے ہم نیند کے رسیا اور عادی رہے ہیں اور اس حوالے سے جو کچھ بھی معاشرے میں کہا جاتا ہے اُسے ہم نے ہمیشہ اپنے مزاج پر گراں محسوس کیا ہے۔ جو علی الصباح اٹھنے کے عادی ہیں وہ دوسروں کا تمسخر اڑانے کے لیے کہتے ہیں کہ جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے۔ ہمیں اس جملے میں ''کھوتا‘‘ ہمیشہ پنجابی والا محسوس ہوا ہے!
مگر صاحب، ہم کیسے مان لیں کہ جو سوئے رہتے ہیں وہ کچھ نہیں پاتے بلکہ کھوتے رہتے ہیں؟ ہم نے معاشرے میں جو کچھ دیکھا ہے وہ اِس کے برعکس ہے۔ دفاتر سرکاری ہوں یا پرائیویٹ، ہمارا تو یہی مشاہدہ ہے کہ جو کام کرتا ہے وہ جان سے جاتا ہے اور جو کچھ نہیں کرتے اور نیند کے مزے لیتے ہیں وہ ترقیاں پاتے چلے جاتے ہیں! اگر ہماری بات پر آپ کو یقین نہیں آرہا تو اپنے قریبی حلقے میں یعنی رشتہ داروں یا احباب میں کوئی سرکاری ملازم تلاش کیجیے اور اُس کے معمولات کا جائزہ لیجیے۔ ہمیں یقین ہے کچھ دنوں میں آپ بھی مان لیں گے کہ نیند کے خمار میں ڈوبے رہنا سو بیماریوں کی شافی دوا ہی نہیں، ترقی کا زینہ بھی ہے! 
اور پھر برطانوی محققین نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ کلاس روم میں بچوں کی خراب کارکردگی کا سبب اُنہوں نے کن خرّاٹوںکو قرار دیا ہے ... گھر میں لیے جانے والے خرّاٹوں کو یا پھر کلاس روم میں لیے جانے والے خرّاٹوں کو! گھر کی حد تک معاملہ ٹھیک ہے۔ اپنے گھر کی حد میں کسی کو کچھ بھی کرنے کا اختیار ہے مگر ہاں، کلاس روم کے خرّاٹوں کو تو ہم بھی جائز نہیں سمجھتے کیونکہ اِس سے دوسروں کی نیند خراب ہوتی ہے! 
مرزا تنقید بیگ کو جب ہم نے برطانوی محققین کی نکتہ آفرینی کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے محققین کے حوالے سے چند ایسے الفاظ ادا کیے جنہیں ہم اپنے قارئین کے بہترین مفاد میں اِس کالم کی کارروائی سے حذف کر رہے ہیں! مرزا کہتے ہیں کہ محققین کو خدا نے یہ ''وصفِ حمیدہ‘‘ بخشا ہے کہ خود سکون سے رہتے ہیں نہ دوسروں کو سکون سے رہنے دیتے ہیں۔ اِن کا بس چلے تو زندوں کے ساتھ ساتھ مُردوں کے خرّاٹوں پر بھی تحقیق کریں اور تجویز کریں کہ پُرسکون نیند کے حوالے سے کون سا قبرستان بہتر رہے گا! 
مرزا مزید کہتے ہیں کہ خرّاٹے لینے والے بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت پر انگلی اٹھانے والوں کو کیا معلوم کہ ہمارے ہاں اساتذہ کی اہلیت کا یہ عالم ہے کہ کلاس روم میں سونے اور خرّاٹے لینے والے بچے بہت کچھ انٹ شنٹ سیکھنے سے محفوظ رہتے ہیں! اور یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جہاں پورا معاشرہ نیند کے خمار میں ڈوبا ہوا ہو وہاں ابھرتی ہوئی نئی نسل خرّاٹے لینے کی عادت پر قابو پاکر کون سا تیر مار لے گی! ہم ایک ماحول میں جی رہے ہیں جس میں بیدار ذہن اور کچھ کرے نہ کرے، انسان کو موت کی نیند ضرور سُلا دیتا ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں