"MIK" (space) message & send to 7575

آتی جاتی ’’ساس‘‘ کا عالم نہ پوچھ!

مرزا تنقید بیگ کے سامنے گھریلو یعنی ازدواجی زندگی کے پیچیدہ معاملات کا ذکر کرنا ایسا ہی ہے جیسے بُھوسے کو چنگاری دکھائی جائے۔ گھریلو زندگی کے مسائل کا ذکر چھڑتے ہی وہ ایسے بھڑک اٹھتے ہیں کہ سامنے سُوکھی لکڑیاں پڑی ہوں تو آن کی آن میں بھسم ہوجائیں۔ وہ آپے سے باہر ہوتے ہیں تو قیامت ڈھاتے ہیں۔ جی نہیں، ہم پھٹ پڑنے کی بات نہیں کر رہے۔ گھریلو زندگی میں رونما ہونے والے مسائل کی بات ہو رہی ہو تو وہ اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سُراغ پاتے ہیں یعنی دبے ہوئے اور ذہن کے کسی کونے میں دُبکے ہوئے دُکھڑے بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ خود صرف روتے ہیں مگر سننے والوں کو (اگر وہ غیر شادی ہوں) رلانے کے ساتھ ساتھ ڈراتے بھی ہیں! ہم نے محسوس کیا ہے، بلکہ ہم تو گواہ بھی ہیں کہ مرزا سے اُن کی گھریلو زندگی کے دُکھڑے سُن سُن کر بہت سے نوجوانوں نے شادی کا ارادہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر رکھا ہے! بے چارے ایسے ہیبت زدہ ہیں کہ لاکھ زور دینے پر بھی اپنا اپنا گھر بسانے کی طرف نہیں آتے! 
ایک بار ہماری شامتِ اعمال نے مرزا کے سامنے ہمارے منہ سے یہ جملہ نکلوادیا کہ ہر لڑکی جہیز میں سامان کے ساتھ ساتھ انسان بھی لاتی ہے۔ یہ بات ہم نے اِس لیے کہی کہ بھابی جہیز میں میکے والوں کو بھی لائی ہیں یعنی اُن کے ہاں میکے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مرزا یہ بات کسی طور ہضم نہیں کرسکتے تھے کہ اُن کے سُسرالیوں اور بالخصوص خوش دامن کو اِنسانوں میں شمار کیا جائے! 
واضح رہے کہ مرزا کی ساس کے لیے خوش دامن کا لفظ ہم استعمال کر رہے ہیں۔ خود مرزا کی رائے یہ ہے کہ خواہ کوئی خوش نُما نام دے لیجیے، ساس گھوم پھر کر ساس ہی رہتی ہے! اور ''خوش دامن‘‘ کی بھی مرزا نے اپنی ہی انوکھی تعریف متعین کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خوش دامن وہ ہوتی ہے جو اپنے دامن میں پڑی ہوئی ''گند‘‘ داماد کی جھولی میں ڈال کر خوش و خرم زندگی گزارتی ہے! 
ساس یعنی خوش دامن کے حوالے سے ایک بار، یہی کوئی دس بارہ سال پہلے، ہمارے دفتر میں خاصا ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ ہم چونکہ کسی نہ کسی درجے میں لکھاری واقع ہوئے ہیں اِس لیے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ اردو بولنے اور لکھنے کے معاملے میں معیار کا خیال رکھنا چاہیے۔ اب ساس اور خوش دامن کا معاملہ ہی لیجیے۔ کہنے کو تو دونوں میں کوئی فرق نہیں مگر خوش دامن کہنے سے خوش سلیقگی اور شائستگی کا احساس ہوتا ہے۔ خوش دامن کہیے تو کم از کم نام کی حد تک ساس کی ''خوں خوارگی‘‘ کچھ کم ہو جاتی ہے! وہ جو کہتے ہیں نا کہ شکل اچھی نہیں تو کیا ہوا، بات تو اچھی کی جائے۔ تو جناب، ساس اور خوش دامن کے الٹ پھیر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ 
دس بارہ سال قبل ہم کسی اور اخبار میں تھے اور اپنے انچارج پر زور دیتے رہتے تھے کہ اچھی اردو لکھنے کو ترجیح دیا کیجیے۔ انہی دنوں ایک خاتون جج کے دو بچے ڈکیتی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کچھ دن بعد اُن کی ساس امریکا سے آئیں تو ہمارے اخبار میں سُرخی کچھ یوں لگائی گئی کہ جج صاحبہ کی خوش دامن امریکا سے آگئیں! 
شام کو دفتر پہنچنے پر ہم نے ایڈیٹر صاحب سے شِکوہ کیا کہ آپ نے جج صاحبہ کی ساس کو خوش دامن کیوں لکھ دیا۔ وہ بولے ''بھئی تم ہی تو کہتے ہو کہ ساس کی جگہ خوش دامن اچھا لگتا ہے!‘‘ ہم نے پہلے تصور ہی تصور میں (اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا) سَر پیٹا اور پھر اپنے اُنہی ہاتھوں کی مدد سے دست بستہ عرض کیا کہ جناب! خوش دامن کی ترکیب مرد کی ساس کے لیے استعمال کی جاتی ہے، عورت کی ساس تو ہر حال میں ساس ہی رہتی ہے! یہ سُننا تھا کہ وہ ہم پر برستے ہوئے بولے ''یار! ایک تو ہم تمہاری اردو سے تنگ آگئے ہیں۔ اب یہ حساب کون رکھے گا کہ کون سی ساس ہر حال ساس ہی رہتی ہے اور کون سی ساس خوش دامن بھی کہلا سکتی ہے! ہم جیسا لکھتے ہیں ویسا لکھنے دو، اردو کے چکر میں مت ڈالو!‘‘ 
مرد کی ساس کو خوش دامن قرار دے کر اُس کی توقیر پر مرزا کے سخت تحفظات ہیں۔ مراد یہ ہے کہ لڑکی کی ماں کے دامن میں اچھی چیز تھی۔ تو کیا مرد کی ماں کے دامن میں صرف گند تھی! یہ تو شوہر کی ماں کا درجہ گھٹانے والی بات ہوئی! کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ 
مرزا چونکہ سرکاری ملازم رہے ہیں اس لیے اُنہیں زندگی بھر کام کے سِوا ہر معاملے پر بھرپور توجہ دینے کا ملا! مطالعہ وغیرہ کرنے کا شوق تو خیر انہیں نہیں تھا مگر ہاں، رات دن ''بے فضول‘‘ کی باتوں پر غور کرنے اور اُن کے حوالے سے ''نظرات‘‘ وضع کرنے کا اُنہیں جُنون کی حد تک شوق، بلکہ ہوکا تھا! 
مرزا کا دعوٰی ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں بے چارے مرد کو سُسرالیوں کے ہاتھوں مظالم ہی برداشت کرنا پڑے ہیں۔ اور علم و ادب کی کتب میں اِس حوالے سے بھی بہت کچھ مرقوم و مذکور ہے۔ اُن کا استدلال ہے کہ خواجہ میر دردؔ نے قبول عام کی سند پانے والی اپنی ایک غزل میں ایک شعر اپنی ساس کے حوالے سے شامل کیا تھا مگر کتابت کی غلطی نے اُسے کچھ کا کچھ بنا ڈالا اور دردؔ کا درد کھل کر بیان نہ ہوسکا! اُس مشہور غزل کا مطلع ہے ؎ 
تہمتیں چند اپنے ذِمے دھر چلے 
کس لیے آئے ہم، کیا کر چلے! 
اِس غزل میں آگے چل کر وہ کہتے ہیں ؎ 
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ 
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے! 
مرزا کا دعویٰ ہے کہ کتابت کی غلطی نے اِس شعر میں پائی جانے والی ''ساس‘‘ کو ''سانس‘‘ میں تبدیل کردیا اور یوں لوگ خواجہ میر دردؔ کا حقیقی درد سمجھنے سے قاصر رہے! 
خواجہ میر دردؔ کے اِس شعر کے حوالے سے اپنے ''نظریے‘‘ کو درست ثابت کرنے کے لیے مرزا کہتے ہیں کہ اپنی گھریلو زندگی کی خرابی اور سسرالیوں کے ہاتھوں اپنے گھر میں برپا رہنے والے طوفانوں کی طرف بھی دردؔ نے اِسی غزل کے ایک شعر میں اشارا کیا ہے جو کچھ یوں ہے ؎ 
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے 
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے! 
یہ سُن کر ہم سے رہا نہ گیا اور جان کی امان پاتے ہوئے عرض کیا کہ اِس شعر میں دردؔ نے معاشرے میں پائے جانے والے اُس انتشار کی طرف اشارا کیا ہے جو دارالحکومت دہلی پر طالع آزماؤں کی یلغار کے نتیجے میں پیدا ہوتا رہتا تھا۔ بالائی علاقوں سے آنے والی سپاہ دہلی میں لوٹ مار کرنے اور شہر کو اجاڑنے کے بعد واپس چل دیتی تھی یا کسی اور علاقے کا رخ کرتی تھی۔ 
مرزا اور ہماری بات سے اتفاق کریں؟ ایسا کسی صورت ممکن نہیں۔ ہماری بات سُن کر مرزا نے کہا ''کبھی کبھار رونما ہونے والے واقعات یعنی بیرونی سپاہ کی یلغار وغیرہ کو دردؔ بھلا کیا خاطر میں لاتے؟ وہ تو اِن اشعار میں اُس یلغار (اور اُس کے نتائج) کا رونا رو رہے ہیں جو سُسرالی رشتہ دار اُن کی گھریلو زندگی پر آئے دن یعنی بے مثل تواتر سے کیا کرتے تھے! 
ہم اختلافِ رائے کا ارادہ رکھتے تھے مگر مرزا کے تیور دیکھ کر ہمارا سارا جوش سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ہمیں محسوس ہوا کہ مرزا کے ''نظریۂ سسرال‘‘ کو کچھ کچھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل نہیں کیونکہ ہم بھی شادی شدہ ہیں اور خواجہ میر دردؔ کے اُس درد کا تھوڑا بہت اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں جس کی طرف مرزا نے اشارا کیا ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں