''ہندُتوا‘‘ یعنی انتہا پسند و بنیاد پرست ہندو ذہنیت کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آگیا ہے۔ اور اِس بار بھی مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت محض تماشا دیکھ رہی ہے۔ نریندر مودی قومی لیڈر کا درجہ چاہتے ہیں اور اُن کی خواہش ہے کہ ملک کی معیشت اِتنی مضبوط ہوجائے کہ اڑوس پڑوس کے لوگ دیکھیں تو جل جائیں۔ مگر وہ یہ اہم نکتہ بھول بیٹھے ہیں کہ ہندو انتہا پسندی کے ہوتے ہوئے ان کا ملک حقیقی ترقی پسند سوچ اپنا نہیں سکتا۔ مسلمانوں کو ایک بار پھر دیوار سے لگانے، بلکہ لگائے رکھنے کا بازار گرم ہے۔ ذرا سی بات کو اِشو میں تبدیل کرکے ووٹ بینک مضبوط کرنا انتہا پسند ہندوؤں کا پرانا حربہ ہے۔
ہندو بنیاد پرستی کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ جن باتوں کو معاشرے میں عمومیت کا درجہ حاصل ہے اُنہی کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے خلاف تحریک چلادی جاتی ہے اور لوگ جُڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے رائی کا پربت کھڑا ہو جاتا ہے۔ اِس وقت بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی بھرپور کامیابی حاصل کی ہے اور ملک کی سب سے بڑی ریاست اُتر پردیش میں حکومت بناچکی ہے۔ اِس کامیابی کی کوکھ سے صرف ایک چیز برآمد ہوئی ہے ... مسلم دشمنی۔ گھوم پھر کر تان ایک بار پھر اِس بات پر ٹوٹی ہے کہ مسلمانوں کو کس طور ''کنٹرول‘‘ کیا جائے، بے لگام ہونے سے روکا جائے! اِسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار!
دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے مگر بھارت کے بنیاد پرست ہندو اب تک گائے کی دُم پکڑے ہوئے ہیں۔ اُتر پردیش میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے کے بعد جُنونی ہندوؤں نے راتوں رات ''گو رکشا‘‘ یعنی گائے کی حفاظت کا اِشو کھڑا کرلیا۔ گائے کے ذبیحے پر پہلے ہی پابندی ہے مگر محض پابندی لگانے سے دِل کی تشفّی کہاں ہوتی ہے؟ سوال گائے کو مقدس سمجھنے یا نہ سمجھنے کا نہیں بلکہ اِس کی آڑ میں مسلمانوں کو جینے کا حقدار نہ سمجھنے کا ہے۔ کسی بھی معاملے سے مسلمانوں کا کوئی تعلق بنتا ہو یا نہ بنتا ہو، کسی نہ کسی طور اُنہیں گھسیٹ کر لانا ہے اور چند ایک مسلمانوں کو اِس دنیا سے رخصت کرکے دل و دماغ سے بوجھ اُتار پھینکنا ہے۔
راجستھان کے شہر الور میں ایک ہفتے قبل یہی ہوا۔ ہریانہ کا ایک مسلم گھرانہ ڈیری فارمنگ کی غرض سے چند گائیں باضابطہ طور پر خرید کر ٹرک میں لے جارہا تھا کہ ''گو رکشکوں‘‘ کے ایک ٹولے نے اُنہیں روک لیا۔ ٹرک میں سوار مسلمانوں کے پاس ہر گائے کی قانونی طور پر خریداری سے متعلق رسید موجود تھی جو راجستھان کے دارالحکومت جے پور کی میونسپل کارپوریشن نے جاری کی تھی۔ جُنونی گو رکشکوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، مسلمانوں کو مارنا شروع کردیا۔ پانچ مسلمانوں کو اُنہوں نے بُری طرح زد و کوب کیا۔ سب کے سب شدید زخمی ہوئے۔ اس واقعے کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے اور متعدد اخبارات کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے مگر پولیس کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے کی جسارت اب تک نہیں کر پائی۔
پانچ زخمیوں میں سے ایک، 55 سالہ پہلو خان، نے تین دن بعد دم توڑ دیا۔ میڈیا نے اپنا حق ادا کرتے ہوئے اس واقعے اور پھر پہلو خان کی موت کو خوب اُچھالا۔ معاملہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا تک پہنچ گیا۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد اور کانگریس کے رہنما دگ وجے سنگھ نے گو رکشکوں کے ہاتھوں ایک مسلمان کے جاں بحق ہونے کو بنیاد بناکر بھارتیہ جنتا پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ دگ وجے سنگھ کا کہنا تھا کہ انتہا پسند ہندوؤں پر ریاست کا چیک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اُنہیں بظاہر ریاستی مشینری کی طرف سے اِس بات کی اجازت ہے کہ جو چاہیں کرتے پھریں، کوئی روکے گا نہ ٹوکے گا۔ ایوان میں ایسا شور شرابہ ہوا کہ بی جے پی کے ترجمان مختار عباس نقوی کے لیے اپنی پارٹی کا موثر انداز سے دفاع کرنا دوبھر ہوگیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بی جے پی اِس نوعیت کے واقعات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ مگر محض اِتنا کہہ دینے سے بات کہاں بنتی ہے؟
بھارت کو ترقی اور خوش حالی کے بام عروج تک لے جانے کے خواہش مند اور دعوے دار نریندر مودی نے صورتِ حال کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے تدارک کے طور پر کچھ کرنے کے بجائے شُتر مرغ کی طرح ریت میں مُنہ دے رکھا ہے۔ ایک طرف تو وہ پورے ملک کا یعنی ہر برادری اور نسل کے لوگوں کا وزیر اعظم ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں اور دوسری طرف جُنونی ہندوؤں کو لگام دینے کی کوئی برائے نام کوشش کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ یہ تو کھلا تضاد ہے۔ کوشش ہو رہی ہے مِرّیخ پر قدم جمانے کی اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو عمومی سطح کا تحفظ فراہم کرنا بھی جُوئے لانے کے برابر ہوگیا ہے۔
مودی کی مشکل یہ ہے کہ وہ ''ہندُتوا‘‘ کی بحالی کے وعدے پر ووٹ لے کر وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے ہیں۔ اب اگر وہ جُنونی ہندوؤں کو لگام دینے کے بارے میں کچھ بھی کرتے ہیں تو ووٹ بینک داؤ پر لگ جائے گا۔ ووٹ بینک کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے لازم ہے کہ مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کا گراف بلند کیا جائے یا بلند ہونے دیا جائے! یہی سبب ہے کہ بی جے پی کی مضبوط پوزیشن والی ریاستوں میں جُنونی ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی غنڈہ گردی دیکھ کر بھی مودی نے تین روایتی بندروں کی طرح آنکھیں مُوند رکھی ہیں، کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور چُپ سادھ رکھی ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں اور بھارت سے باہر لاکھوں ہندو ہیں جو دیگر جانوروں کے ساتھ ساتھ گائے کا گوشت بھی شوق سے کھاتے ہیں مگر پھر بھی اِس بات کو تسلیم کرتے ہی بنے گی کہ ہندوؤں کی واضح اکثریت گائے کو مقدس سمجھتی ہے اور اُسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔ مگر اِس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ بھارت میں بسنے والے تمام مسلمان گائے کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر قربانی کے بکروں میں تبدیل کردیئے جائیں یا اُنہیں مجموعی طور پر بکری بنادیا جائے! ''گو رکشا‘‘ کے نام پر جُنونی ہندو تمام مسلمانوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنا چاہتے ہیں۔ کوئی بدمست اور بپھرا ہوا بھینسا اپنے سامنے آنے والے کو جس طرح سینگوں پر اُچھالتا ہے بالکل اُسی طرح بھارت میں ''گو رکشا‘‘ کے نام پر پروان چڑھایا جانے والا ووٹ بینک اپنے سینگوں پر مسلمانوں کو اُچھال رہا ہے اور ساتھ ہی اِس بات کا اہتمام بھی چاہتا ہے کہ اُسے روکنے کی برائے نام کوشش بھی نہ کی جائے۔ بی جے پی جس بے ڈھنگے انداز سے اور بے دِلی کے ساتھ اِس معاملے کو ڈیل کر رہی ہے اُس کا بھرپور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں کا غصہ کہیں اُتارا جارہا ہے۔ علاقائی سطح پر پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور مضبوط ہوتی ہوئی پوزیشن بھارت سے برداشت نہیں ہو پارہی۔ پاکستان کا تو کھل کر کچھ بگاڑا نہیں جاسکتا اِس لیے دل کے ارمانوں کو آنسوؤں میں بہنے سے بچانے کے لیے ایک بار پھر بھارتی مسلمانوں کو تختۂ مشقِ ناز میں تبدیل کیا جارہا ہے! دو چار ہزار یا دو چار لاکھ نہیں بلکہ بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کو بھارتی سرزمین کے لیے یکسر اجنبی قرار دے کر دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر صرف اِتنا کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کی قیادت اب تک گھاس ہی چَر رہی ہے۔ بہت تنگ کیا جائے تو ایک وقت آتا ہے کہ جب نحیف و نزار بِلّی بھی اپنے سے کہیں بڑی جسامت کے جانور کے منہ پر پنجہ مارنے کی کوشش کر گزرتی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بکری بنانے کی کوشش بھارتی مسلمانوں کو شیر بننے پر مجبور کردے! معاملہ جب تنگ آمد بجنگ آمد کی منزل تک پہنچ جائے تو کچھ ایسا ہی رونما ہوا کرتا ہے۔