"MIK" (space) message & send to 7575

خربوزہ اور چھری

کہتے ہیں عشق انسان کو دیوانہ کردیتا ہے۔ کرتا ہوگا، ہمیں کیا پتا۔ ہم کالم نگار ہیں، کوئی عاشق تو ہیں نہیں کہ ٹھیک سے اندازہ لگاسکیں۔ ہم نے کالم نگاری کا شوق ضرور پالا ہے مگر اِس سے عشق نہیں کیا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عشق انسان کو ہوش و خرد سے بیگانہ یعنی دیوانہ کردیتا ہے اور ہم پورے ہوش کے ساتھ کالم لکھنا چاہتے ہیں! ہم آپ سے بھی یہی چاہیں گے کہ ہماری کالم نگاری کو پسند ضرور کریں مگر اِس سے عشق فرمانے سے گریز کریں کیونکہ ہم آپ کو دیوانہ ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے! 
کسی کی وفا پاکر انسان خود کو بادلوں سے اوپر اُڑتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ کسی کی محبت مل جائے تو پاؤں زمین پر ٹکتے ہی نہیں۔ ''پنچھی بنوں، اڑتی پھروں مست گگن میں‘‘ والی کیفیت دل و دماغ پر ایسی طاری ہوتی ہے کہ ہزار دقت سے مٹ پاتی ہے۔ 
یہ تو ہوا وفا کا معاملہ۔ اور بے وفائی؟ جناب، بے وفائی کے کیس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی کی وفا پاکر کسی کے قابو میں نہ آنے والا بے وفائی کا سامنا کرنے پر بھی بے قابو ہی ہو جاتا ہے اور کسی کے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎ 
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں 
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟ 
معاملہ قیدِ حیات اور بندِ غم تک محدود نہیں۔ وفائی اور بے وفائی بھی اِسی ذیل میں آتے ہیں۔ کسی کی وفا ملے تو اِنسان بادلوں سے اوپر اڑنے کو بے تاب رہتا ہے اور اگر بے وفائی کی منزل آجائے تو فریقِ ثانی کو بادلوں سے اوپر لے جاکر دَھکّا دینے کا جی چاہتا ہے! 
کولمبیا کی سینڈرا المیڈیا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اُسے اپنے شوہر جانسن سے بہت محبت تھی۔ کبھی اُس کی طرف سے بے وفائی کا شائبہ تک اُس کے ذہن میں نہیں اُبھرا تھا۔ اُس نے اپنے شوہر کے ساتھ ایک سرپرائز ٹرپ کا منصوبہ بنایا۔ مگر تقدیر کا منصوبہ کچھ اور ہی تھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ سرپرائز ٹرپ پر روانہ ہوتی، شوہر نے بے وفائی کی راہ پر گامزن ہوکر سرپرائز دے دیا! سینڈرا پہلے تو حیرت زدہ رہ گئی۔ اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ حیرت کا سِحر ٹوٹا تو اُس پر شدید رنج طاری ہوا۔ کئی دن تو اُس کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ آخر یہ ہوا کیا ہے۔ اور جب وہ رنج اور صدمے کے طلسمات سے نکلی تو اشتعال کے سمندر میں غوطے کھانے لگی۔ اُسے یاد آگیا کہ وہ ایک عورت ہے اور بے وفائی کا داغ آسانی سے نہیں سہنا ہے! 
سینڈرا کو اُس کے شوہر نے چُونا لگایا تھا اِس لیے اُس نے بھی جوابی چُونا لگانے کا فیصلہ کیا۔ اور چُونا بھی کتنے کا؟ سات ہزار ڈالر سے زیادہ کا! وہ کیسے؟ تو جناب، وہ ایسے کہ سینڈرا ''مغلوب الغصب‘‘ ہوکر شوہر کی کمائی پر ٹوٹ پڑی۔ اُس نے نوٹوں کا بنڈل اٹھایا اور ایک ایک نوٹ کو چباکر نگلنا شروع کیا۔ پچاس اور سو ڈالر کے بیسیوں نوٹ وہ چباگئی۔ اور نتیجہ؟ میاں کی کمائی کا جو حشر نشر ہونا تھا سو ہوا، خود سینڈرا کا بُرا حال ہوگیا۔ اُسے اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے اُس کے پیٹ سے چبائے ہوئے درجنوں نوٹ نکالے۔ 
مرزا تنقید بیگ کو جب ہم نے یہ خبر سُنائی تو اُنہوں نے، ہماری توقع کے عین مطابق، سینڈرا، امریکی کلچر اور ڈالر ... تینوں کو بیک وقت اور خاصے شدت آمیز انداز سے ''خراجِ تحسین‘‘ پیش کیا! اِس ''نیک کام‘‘ سے فارغ ہوکر اُنہوں نے اپنا فلسفہ جھاڑنے کی ابتداء کی ''جب انسان پر اشتعال غالب آجاتا ہے تو وہ سب کچھ چبانے لگتا ہے۔ سینڈرا نے جو سلوک بے وفا شوہر کی کمائی سے کیا وہی سلوک امریکی انتظامیہ کمزور اقوام سے کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سینڈرا انکل سام کی ثقافت کے ساتھ ساتھ اُس کی خارجہ پالیسی سے بھی بہت متاثر ہے۔ امریکی فوج میں سینڈرا جیسا مزاج رکھنے والوں کو آگے بڑھنے کے مواقع خوب ملتے ہیں! اگر وہ امریکی فوج میں شمولیت اختیار کرے تو بہت تیزی سے بہت آگے جائے گی۔‘‘ 
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ سینڈرا نے جو کچھ کیا اُس کا امریکی انتظامیہ کی پالیسی یا حکمتِ عملی سے کیا تعلق۔ یہ تو سراسر انفرادی معاملہ ہے۔ شوہر نے بے وفائی کی تو سینڈرا نے اُس کی کمائی کا حشر نشر کیا۔ 
مرزا بولے ''واشنگٹن کے پالیسی میکرز کا بھی تو یہی معاملہ ہے۔ جیسے ہی کسی حاشیہ بردار کا شعور بیدار ہوتا ہے اور وہ 'وفا‘ سے توبہ کرکے بے وفائی کی راہ پر گامزن ہوکر غلطیوں کا ازالہ اور اپنا بھلا چاہنے کی کوشش کرنے لگتا ہے، واشنگٹن کے اربابِ بست و کشاد اُسے بالکل اُسی طرح چبانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں جس طور سینڈرا نے بے وفا شوہر کی کمائی کو چبا ڈالا! واضح رہے کہ امریکی پالیسی کا یہ پہلو محض کمزور حاشیہ برداروں کے لیے ہے۔ اگر کوئی تگڑا ملک اپنی راہ الگ کرلے تو انکل سام جُھک جُھک سلام کرتے ہوئے اُسے منانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور اگر وہ مکمل طور پر راضی نہ ہو تب بھی اُس سے تعلقات خوشگوار ہی رکھے جاتے ہیں تاکہ موقع کی مناسبت سے رہی سہی دوستی کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔‘‘ 
ہم نے ایک بار پورے احترام کے ساتھ عرض کیا کہ امریکی پالیسیاں اپنی جگہ مگر یہاں تو خالص ذاتی فیصلہ و اختیار کا معاملہ ہے۔ سینڈرا نے جو کچھ کیا وہی کچھ شدید غصے کی حالت میں کوئی بھی کرسکتا ہے۔ 
مرزا نے فلسفے کا رخ موڑتے ہوئے کہا ''معاملہ عورت کا ہو تو وفا اور بے وفائی دونوں کا ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ چُھری خربوزے پر گِرے یا خربوزہ چُھری پر، نتیجہ تو ایک ہی برآمد ہوتا ہے۔‘‘ 
ہم مرزا کا چُھری اور خربوزے والا فلسفیانہ نکتہ سمجھنے سے قاصر رہے اور مجبور ہوکر وضاحت چاہی تو مرزا نے اشہبِ کلام کو یوں ایڑ لگائی ''سینڈرا سے اُس کے شوہر نے بے وفائی نہ کی ہوتی اور دونوں کہیں گھومنے پھرنے جاتے تب بھی شوہر کی کمائی کا یہی حشر ہونا تھا۔ سینڈرا یہ رقم شاپنگ اور سیر سپاٹے میں اُڑا ہی دیتی۔ نوٹ چبائے جائیں یا لُٹائے جائیں، نتیجہ تو یکساں ہی برآمد ہوتا ہے۔ ہاں، یہ ہے کہ نوٹ چبائے جانے پر جانسن کا دِل ذرا زیادہ دُکھا ہوگا۔ بصورتِ دیگر یہ صدمہ خوشی خوشی برداشت کرلیا گیا ہوتا!‘‘ 
ہم مانتے ہیں کہ مرزا ہر معاملے میں اپنی چلاتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ تھوڑے سے درست بھی ہوتے ہیں۔ سینڈرا کی ''جوابی کارروائی‘‘ کے حوالے سے اُنہوں نے جو ''نکتۂ جاں فزا‘‘ بیان کیا وہ ایسا نہیں کہ ہونہہ کہتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے۔ بنتِ حوّا بالکل مثبت اور بالکل منفی ... ہر کیفیت میں یکساں نتائج پیدا کرنے کی صفت سے بہرہ مند ہے! محبت کا موسم چل رہا ہو تب بھی مرد کی کمائی ٹھکانے لگ جاتی ہے اور نفرت کا زمانہ شروع ہو جانے پر بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یعنی دونوں حالتوں میں بیڑا تو خربوزے ہی کا غرق ہونا ہے اور چُھری کو صاف بچ نکلنا ہے! 
ہمیں یقین ہے کہ سینڈرا کے کیس میں مرزا کے دلائل پڑھ کر آپ بھی غالبؔ کے ''... اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘ والے شعر کو خوب سمجھ گئے ہوں گے۔ بس اِتنا یاد رہے کہ کمائی سے محروم ہونے کے لیے نوٹوں کا چبایا جانا لازم نہیں۔ اِس ''نیک کام‘‘ کو بخوبی انجام دینے کے اور بھی کئی ''شریفانہ‘‘ طریقے ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی شاپنگ سینٹر پر ایک نظر ڈال لیجیے، آپ کو یقین آجائے گا کہ چبائے بغیر نوٹ کس طور ڈکارے جاتے ہیں! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں