دنیا بھر میں تحقیق کا بازار اِس قدر جوش و خروش سے گرم ہے کہ کوئی بھی معاملہ اِس کی دسترس سے باہر دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا بھر میں محققین نئے موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ اُنہیں ڈھنگ سے پامال کرکے کہیں کا نہ چھوڑیں۔ کہیں کام کے بارے میں تحقیق ہو رہی ہے کہ لوگ زیادہ کام کیوں کرتے ہیں۔ اور کہیں اِس نکتے پر دادِ تحقیق دی جارہی ہے کہ لوگ کم کام کیوں کرتے ہیں۔ کہیں کہیں اِس نکتے پر بھی تحقیق کی جارہی ہے کہ لوگ آخر کام کرتے ہی کیوں ہیں، کچھ اور کیوں نہیں کرتے! سچ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر طرف لوگ کام کر رہے ہیں اور محققین صرف تحقیق کر رہے ہیں! اِسی کیفیت کو جون ایلیا نے خوب بیان کیا ہے ؎
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم صرف نام کر رہے ہیں!
سُنا تو آپ نے بھی ہوگا کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرتا ہے۔ اِسی طور جب قدرت کسی موضوع کے مقدر میں ذِلّت اور تباہی لکھ دیتی ہے تو وہ محققین کے ہتّھے چڑھ جاتا ہے۔ اور اِس کے بعد اُس موضوع کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قدرت نے اُسے یکسر نِکمّا پیدا کیا ہے تو وہ اپنی رائے پر نظر ثانی کرتے ہوئے خود کو محققین کے حوالے کرے۔ محققین جب اُس پر تحقیق کرکے کائنات کے دور افتادہ گوشوں سے عجیب و غریب کوڑیاں لائیں گے تب اُسے معلوم ہوگا کہ اُس میں کیسے کیسے جوہر تھے جو کسی اور پر تو کیا، خود اُس پر نہ کُھلے تھے!
محققین کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ جس موضوع پر کوئی بھی، کسی بھی حوالے سے توجہ نہ دے رہا ہو یہ اُس پر دل و جان سے فِدا ہوکر ایسے متوجہ ہوتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ تحقیق کے نتیجے میں کسی بھی موضوع کو یا تو بلا جواز طور پر نئی زندگی بخشی جاتی ہے یا پھر کسی جواز کے بغیر اُس کا ایسا حشر کیا جاتا ہے کہ لوگ دیکھ کر (اپنے) سَر پیٹتے ہیں!
ٹیکنالوجی کی ترقی نے تحقیق کے بازار کی رونق بڑھادی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کا یہ حال ہے کہ زندگی کا ہر معاملہ تحقیق کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
محققین کو اپنے تمام ہتھیاروں سے لیس ہوکر میدان میں اُترنے کے لیے صرف بہانہ درکار ہوتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ع
خُوئے بد را بہانۂ بسیار!
ایک زمانہ تھا کہ جنگل میں جانور سُکون سے رہا کرتے تھے۔ تب ٹیکنالوجی نے کچھ خاص ترقی نہیں کی تھی اور ہر جانور اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کیا کرتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ٹیکنالوجی میں پیش رفت کا بازار گرم ہوا۔ ٹیکنالوجی کی گرم بازاری نے تحقیق کا پہیہ بھی بہت تیزی سے گھمانا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کل تک جن جانوروں پر کوئی تِل بھر بھی توجہ نہیں دیتا تھا اُن کی تمام حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کے لیے فنڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایسے کئی ادارے معرض وجود میں آئے جن کا صرف ایک کام تھا ... جانوروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول یقینی بنایا جائے! مگر کیوں؟ اِس ''کیوں‘‘ کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
محققین یہ جاننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں کہ کن جانوروں میں ''کمیونٹی‘‘ کی سوچ یا ''برادری سسٹم‘‘ پایا جاتا ہے اور کون سے جانور تنہا، اپنے خرچ پر یعنی ''امریکن سسٹم‘‘ کے تحت زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں! اور یہ کہ کون سے جانور اپنے پیاروں کی موت پر آنسو بہاتے ہیں اور کون سے جانور اپنے پیاروں ہی کو کھا جاتے ہیں!
جب سے نیشنل جیو گرافک اور ڈسکوری چینلز کے لوگ کیمرے تھام کر جنگلوں میں جا بسے ہیں، جانوروں کے لیے چلنا پھرنا، کھانا پینا اور اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوگیا ہے۔ کہیں کوئی شیر شکار کی تلاش میں نکلتا ہے تو تین گاڑیاں دس کیمروں کے ساتھ اُس کے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔ اب شیر بے چارہ مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے کہ شکار کرے یا کیمرے کے سامنے ڈھنگ سے پوز کرے! اِسی اُدھیڑ بُن میں شکار ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور جنگل کے بادشاہ کو خالی ہاتھ اپنی کچھار میں جانا پڑتا ہے!
جب سے جنگلی حیات کی فلم بندی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، جانوروں کے معمولات بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بے زبان حیوانوں کی ''پرائیویسی‘‘ بُری طرح داؤ پر لگی ہے! ایک بندر یہ شِکوہ کرتا ہوا پایا گیا کہ وہ جب بھی رفعِ حاجت کے لیے جنگل کے کسی کونے کا رُخ کرتا ہے، چند افراد دو تین کیمرے نصب کیے اِس یومیہ معمول کی فلم بنانے کے لیے تیار بیٹھے پائے جاتے ہیں! بے چارے جانور اپنی بھی نہیں کرسکتے! اب آپ ہی سوچیے کہ ڈیٹنگ اور میٹنگ کے معاملات پر کتنی گہری نظر رکھی جاتی ہوگی! جنگل میں ہرن کا بچہ چیتوں یا لگڑ بھگوں کے چنگل میں پھنس جائے تو ہرنی دور کھڑی بے بسی سے یہ تماشا دیکھتی اور آنسو بہاتی رہتی ہے۔ جنگل کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے کیمرا بردار محققین ہماری معلومات میں اضافے کے لیے بتاتے ہیں کہ ہرنی کا بچہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو شدتِ غم سے ہرنی کے آنسو نکل آتے ہیں! نوازش، کرم، شکریہ، مہربانی۔ محققین نہ بتاتے تو ہمیں پتا نہ چلتا کہ حیوانوں میں بھی مادرانہ اور پدرانہ جذبات پائے جاتے ہیں!
محققین نے ایک اور موضوع کو اِتنا رگڑا ہے کہ اب اُس کی مِٹّی پلید ہوچکی ہے۔ ہم نیند کی بات کر رہے ہیں۔ اِس موضوع کے ہر پہلو پر بھرپور دادِ تحقیق دی جاچکی ہے۔ کوئی زیادہ سوتا ہے تو کیوں سوتا ہے۔ اور اگر کسی کو نیند نہیں آتی تو کیوں نہیں آتی۔ اور نیند کی ورائٹیز کو بھی کھنگالا جاتا ہے۔ کچّی نیند اور پکّی نیند کے ہر پہلو کو کرید کرید کر سامنے لایا جاتا ہے۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نیند سے متعلق تحقیق کا نچوڑ پڑھ لیں تو پھر کبھی سُکون کی نیند کا مزا نہیں لُوٹ سکیں گے۔
نیند کے موضوع سے جڑا ہوا ذیلی موضوع ہے خرّاٹے۔ محققین نے اِس موضوع پر جو گُل کِھلائے ہیں وہ اگر خرّاٹے لینے والے سُونگھ لیں تو غش کھاکر گِر پڑیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ خرّاٹے لینے والے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ جو رات بھر خرّاٹے لیتے ہیں وہ دفتر یا فیکٹری میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اور یہ کہ خرّاٹے لینے والے بچے علم حاصل کرنے کے معاملے میں کند ذہن ثابت ہوتے ہیں۔ خرّاٹے لینے والوں کو اپنی اُتنی فکر لاحق نہیں جتنی محققین کو لاحق ہے۔
کل ہی ہم نے خبر پڑھی کہ ماہرینِ نفسیات نے بتایا ہے کہ گھوڑوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں اور وہ اِن جذبات کا مختلف طریقوں سے اظہار بھی کرتے ہیں! اضافی اطلاع یہ ہے کہ گھوڑے انسانی جذبات کو سمجھتے ہیں کیونکہ انسان اور گھوڑے کا ساتھ کم و بیش 6 ہزار سال کا ہے!
بندر ہو یا شیر، گھوڑے ہوں یا گدھے ، محققوں کی دسترس سے کوئی کب بچ سکا ہے۔ ع
ناوک نے تیرے صَید نہ چھوڑا زمانے میں
اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں کہ حیوانات جذبات رکھتے ہیں اور کسی حد تک ہمارے جذبات کو بھی سمجھ ہی لیتے ہیں۔ محققین نے کبھی اِس موضوع پر تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کہ اِنسان گھر میں پَلنے یا جنگلوں میں بسنے والے حیوانات کے جذبات سمجھنے کے قابل کب ہوسکے گا! بے زبان حیوانات کی گردن میں تحقیق کا پھندا کب تک رہے گا، یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ محققین ہی اِس بارے میں کچھ تحقیق کرکے بتائیں تو عنایت ہوگی۔