بہتا پانی زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اُس میں تازگی بھی ہوتی ہے اور توانائی بھی۔ اِس کے برعکس ٹھہرا ہوا پانی طرح طرح کی خرابیوں اور پیچیدگیوں کی آماجگاہ ہوتا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں زندگی نہیں ہوتی۔ اُس میں توانائی کی سطح خاصی نچلی ہوتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹھہرے ہوئے پانی پہ کائی جمتی جاتی ہے جو اُسے آلودہ تر کرتی جاتی ہے۔ یہ پانی کسی کو توانائی تو کیا دے گا، یہ تو پینے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ مدت سے ٹھہرا ہوا اور کائی سمیت کئی عِلّتوں سے آلودہ پانی اگر پودوں کو دیا جائے تو یقیناً اُنہیں بھی فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔
اور اگر بہتے پانی پہ کائی جم جائے تو؟
آپ سوچیں گے ایسا بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔ ٹھیک ہے، آپ کا ایسا سوچنا بھی غلط نہیں مگر جناب! زندگی کی بہت سی تلخ حقیقتوں میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ کبھی کبھی بہتے پانی پر بھی کائی جم جاتی ہے۔ بات بہت عجیب اور قدرے ناقابلِ یقین سی ہے مگر روزِ روشن کی طرح واضح ہے اور اٹل حقیقت کا درجہ رکھتی ہے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ بہتے پانی پر کائی جمنے جیسی صورتِ حال کب پیدا ہوتی ہے؟ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب مقدر ساتھ چھوڑ دیتا ہے ؎
جب مقدر کی نبض تھم جائے
بہتے پانی پہ کائی جم جائے!
اب سوال یہ ہے کہ مقدر کی نبض کب تھم جاتی ہے؟ سیدھی سی بات ہے، مقدر الگ سے کوئی چیز نہیں۔ یہ ہمارے تحرّک اور تفاعل سے عبارت ہے۔ جب ہم میں کچھ کرنے، کر گزرنے کا جذبہ سرد پڑنے لگتا ہے تو ہمارے مقدر کی نبض بھی ڈوبنے لگتی ہے۔
تحرّک زندگی ہے اور جمود کو موت کہہ لیجیے۔ جب ہم میں کچھ کرنے کا جذبہ سلامت نہیں رہتا تب اور بہت کچھ بھی سلامت نہیں رہتا۔ عمل کی دنیا میں کچھ کر دکھانے کی خواہش ہے، محنت اور لگن کی شمع ضمیر میں روشن ہے تو سمجھ لیجیے کہ بات ابھی اِتنی نہیں بگڑی کہ بن نہ سکے۔ ایسے میں بہت سی خرابیوں کے باوجود خوبیوں کا دامن تھامے رہنا ممکن ہوتا ہے۔
ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو زندگی کا بنیادی تقاضا سمجھ پاتے ہیں اور اپنا آپ منوانے کے لیے ہر وقت بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی کا بنیادی تقاضا کیا ہے؟ یہ کہ کچھ کیا جائے، اپنی صلاحیت اور سکت کا لوہا منوایا جائے، دُنیا پر ثابت کیا جائے کہ روئے ارض پر بخشی جانے والی مہلتِ قیام کو رائیگاں جانے سے بچانے کی بھرپور لگن برقرار ہے۔
زندگی کے مقاصد اور تقاضوں کو سمجھنے سے گریز کرنے والے یا اس معاملے پر خاطر خواہ توجہ نہ دینے والے دراصل اپنے وجود کی تکذیب کر رہے ہوتے ہیں اور غیر محسوس طور پر ایسا بہتا ہوا پانی بن جاتے ہیں جس پر کائی جم گئی ہو۔ عمل کی دنیا ہم سے ہر آن کوئی نہ کوئی تقاضا کرتی رہتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے گرد (دور و نزدیک) بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہوئے اُن کے مطابق تبدیل ہونے کی بھرپور لگن اپنے اندر پیدا کرنے والے ہی اپنے وجود کو کائی زدہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
عمل کی دنیا غیر جانب دار اور انصاف پسند ہے۔ اُسے اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ آپ کے اجداد کیا تھے یا کیا ہیں۔ اُسے تو صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آپ کیا ہیں، کیا کرسکتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اگر آپ کا عمل زندگی کے بنیادی تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے اور آپ خاطر خواہ دل جمعی سے کام لیتے ہوئے اپنے وجود کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ٹھیک، ورنہ آپ کو بھی طاقِ نسیاں پر رکھ دیا جائے گا۔ اور ایسا ہو تو اِس پر بھی اللہ کا شکر ادا کیجیے ورنہ عمل کی دنیا تو غیر متحرّک لوگوں کو کچرا کنڈی کی نذر کرکے سُکون کا سانس لیتی ہے!
ہم نے عشروں کے عمل میں ایسا بہت کچھ کیا ہے جس کے باعث ہمارے مقدر کا جسم کمزور پڑتا گیا ہے اور اب اُس کی نبض تھم سی گئی ہے۔ پھر بھلا ہم بہتا ہوا کائی والا پانی کیوں نہ بن جائیں؟ ہم میں ایسے کون سے سُرخاب کے پَر لگے ہیں کہ عمل کی دنیا ہمیں استثناء دے، ہمیں کچھ نہ کہے اور گریس مارکس دے کر اگلے مرحلے میں پہنچادے؟ عمل کی دنیا ناقابل یقین حد تک بے مثال ''پے ماسٹر‘‘ ہے۔ اپنے وجود کی معنویت ثابت کرنے والوں کو یہ ایسے دل نشیں انداز سے نوازتی ہے کہ ایک دنیا دیکھتی ہے اور رشک کرتی ہے۔
اب ایک بنیادی سوال یہ ابھرتا ہے کہ ہم مقدر کی نبض کو دوبارہ جگانے اور اپنے بہتے پانیوں کو کائی زدہ ہونے سے بچانے کے لیے کب ذہنی طور پر آمادہ اور تیاری کے معاملے میں سنجیدہ ہوں گے؟ اپنے وجود کی معنویت کو ثابت کرنا ہے یعنی کچھ کر دکھانا ہے تو بہت کچھ اپنانا اور بہت کچھ ترک کرنا ہوگا۔ جو مقدر ایک مدت سے رُوٹھا ہوا ہے وہ ایسے ہی تو مَن نہیں جائے گا۔ عمل کی دنیا صرف صلاحیت کی طالب نہیں ہوتی، اِسے کام کرنے کی بھرپور لگن بھی درکار ہوتی ہے۔ کام کرنے کی لگن ہوگی تو کچھ کیا جاسکے گا نا۔ یہ سوچنا سادہ لوحی کی انتہا ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ تو کرتے ہی رہیں گے اور کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہی رہے گا۔ ہوتے رہنے اور کرتے رہنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلا معاملہ حیوانی سطح کا ہے۔ ہمیں روئے ارض پر اِس لیے اُتارا گیا ہے کہ حیوانی سطح سے بلند رہتے ہوئے کچھ ایسا کریں جس سے ہمارے وجود کی معنویت بھی ثابت ہو اور ہمارا نشان بھی رہ جائے یعنی یہاں سے رخصت ہوں تو کچھ نہ کچھ ایسا ہو جو اہلِ جہاں کو یاد دلاتا رہے کہ کوئی آیا تھا اور کچھ کرکے گیا ہے۔
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہنے کے بجائے ہمیں کچھ کر دکھانا ہے۔ پدرم سلطان بود والی بات لوگ کہاں مانتے ہیں؟ اور کیوں مانیں؟ عمل کی دنیا تو اِس معاملے میں انتہائی سفّاک، بلکہ جلّاد ہے۔ فرازؔ نے کہا ہے ع
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
عمل کی دنیا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ آپ نے اُس دیو کے بارے میں تو سُنا ہی ہوگا جسے ہر وقت مصروف رکھنا پڑتا تھا کیونکہ کوئی نہ کام نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنے مالک ہی کو ہڑپ کر جایا کرتا تھا! عمل کی دنیا بھی اُسی افسانوی دیو کا سا مزاج رکھتی ہے۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہیے ورنہ یہ آپ کو ڈکار جائے گی۔ عمل کی دنیا میں لازم ہے کہ آپ کام کرنے کی لگن کو دم نہ توڑنے دیں یعنی مقدر کی نبض کو چلتا رکھیں وگرنہ آپ کی زندگی کے بہتے پانی پر کائی جمنے کا عمل آپ کا کوئی بھی ہمدرد روک نہیں پائے گا۔