"MIK" (space) message & send to 7575

ہتھوڑے

سات آٹھ سال سے ایک عمل تواتر کے ساتھ جاری ہے اور قوم کو اِس کا ذرا بھی احساس نہیں۔ دستر خوان پر پیش کی جانے والی ہر چیز کھائی نہیں جاسکتی یا کھائی نہیں جاتی۔ یہاں یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے دل اور دماغ کے معدے کو ''لکڑ ہضم، پتھر ہضم‘‘ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ پاکستانی قوم بھی انسانوں ہی کا مجموعہ ہے۔ جتنی بھی بشری خامیاں کسی اور قوم میں ہوسکتی ہیں وہ پاکستانیوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز بات نہیں۔ ہاں، ایک فرق ضرور ہے۔ دیگر اقوام اپنی بشری خامیوں کو کسی نہ کسی صورت کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں اور یہاں معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ کچھ لوگوں اور اداروں کو بظاہر یہ ٹاسک دے دیا گیا ہے کہ خرابیوں اور خامیوں کا گراف جس قدر بلند کیا جاسکتا ہے، کیا جائے۔ اور اِس کام کے لیے، ظاہر ہے، وافر تعداد و مقدار میں وسائل بھی حاضر ہیں۔ 
یہ تو بہت پرانی بات ہوچکی کہ رمضان المبارک کے دوران اہلِ وطن کو دین کے حوالے سے زیادہ باشعور بنانے پر توجہ دی جاتی تھی۔ ایک عشرے کے دوران رمضان نشریات کا صرف ایک مفہوم رہ گیا ہے ... روزہ داروں کو زیادہ سے زیادہ محظوظ کیا جائے۔ نیلام گھر سجانے کی ''روایت‘‘ اس قدر شِدّت اور پُختگی سے پروان چڑھائی گئی ہے کہ اہلِ وطن کے نزدیک اب اُس ماہِ صیام کا کوئی لطف ہی نہیں جس میں یہ تمام خرافات تمام ممکنہ شان و شوکت کے ساتھ موجود نہ ہوں! ایسے پاکستانیوں کی کمی نہیں جو ماہِ صیام کا انتظار روزوں کے لیے کم اور اِس سطحی تفریحی عنصر کے لیے زیادہ کرتے ہیں۔ 
چار پانچ سال پہلے تک معاملہ یہ تھا کہ رمضان انٹر ٹینمنٹ کے نام پر اہلِ وطن کو نیلام گھر میں لاکر سِلے سلائے کپڑے، موبائل فون، مائکرو ویو اوون، ایئر کنڈیشنر، موٹر سائیکل، ریفریجریٹر، کچن رینج، واشنگ مشین، پنکھے اور دیگر بہت سے ایسے آئٹمز دیئے جاتے تھے جن کی قیمت بہت زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ تب بھی پروگرام کے شرکاء میں جوڑے اور دیگر انعامات کچھ اِس انداز سے ''تقسیم‘‘ کیے جاتے تھے کہ اُسے کسی صاحبِ حیثیت کے گھر کے باہر زکوٰۃ و خیرات کی تقسیم کا سا منظر ذہن کے پردے پر اُبھرتا تھا۔ 
یہ تو ہوا پروگرام کے شرکاء میں (مفت) تحائف کی تقسیم کا حال۔ اب آئیے، رمضان نشریات کے نیلام گھروں میں پیش کیے جانے والے گیمز میں حصہ لینے والوں کی طرف۔ اِن گیمز میں ایسے ایسے آئٹمز ہوتے تھے کہ گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھنے والوں کی پلکیں بھی شرم سے جُھک جاتی تھیں۔ کسی پروگرام میں کوئی صاحب اپنی اہلیہ کو لپ اسٹک لگاتے پائے جاتے تھے تو کسی پروگرام میں کوئی خاتون اپنے شوہر کے ساتھ اِسی نوعیت کی سرگرمی میں مصروف دکھائی دیتی تھیں۔ 
مگر صاحب، یہ تو چار پانچ سال پہلے کا کچھا چٹھا ہے۔ اب تو معاملہ بہت آگے کا ہے۔ اب بات ہزاروں اور لاکھوں کی منزل سے گزر کر کروڑوںکے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ جب رمضان نشریات کے نیلام گھروں میں چھوٹے موٹے تحائف بانٹے، بلکہ لُٹائے جاتے تھے تب بھی گھروں میں ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھے ہوئے کمتر مالی حیثیت کے لوگ دل و دماغ کی چُولیں ہلا دینے والے احساسِ محرومی سے دوچار ہوتے تھے، بلکہ اُس سے کشتی لڑتے تھے! غریب گھرانوں کی بچیاں جب چمکیلے ملبوسات کی تقسیم دیکھتی تھیں تو اُن کے دل میں یہ خیال اُبھرتا تھا کہ کسی نہ کسی طور کسی پروگرام کا حصہ بن کر کچھ لے آئیں۔ کسی معمولی یا بے ڈھنگے سوال پر موٹر سائیکل کا مل جانا متعلقہ فرد کے لیے خوشی اور باقی اہلِ وطن کے لیے شدید احساسِ محرومی کا باعث بنتا تھا۔ اور جب کاریں اور سونا بانٹنے کا عمل شروع ہوا تب تو حد ہی ہوگئی۔ 
یہ تمام مناظر محض مناظر نہیں، ہتھوڑے ہیں جو قوم کی نفسی ساخت پر برسائے جارہے ہیں۔ جس قوم میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشی ناہمواری عروج پر ہے اور شدید معاشی عدم استحکام کی چَکّی میں پسنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے اُس قوم کے افراد کو یہ سب کچھ تواتر سے دکھایا جائے گا تو کیا نتیجہ برآمد ہوگا؟ وہی جو سَر پر ہتھوڑا برسانے کا نکلتا ہے۔ 
تیس چالیس پہلے پی ٹی وی کے نیلام گھر میں بھی موٹر سائیکل یا کار انعام میں دی جاتی تھی مگر اُس کے لیے متعلقہ فرد کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا تھا۔ کسی کو یونہی، کسی جواز کے بغیر واٹر کُولر تک نہیں دیا جاتا تھا۔ اب یہ عالم ہے کہ بات بات پر کاریں دی جارہی ہیں، بیس بیس تیس تیس تولہ لُٹایا جارہا ہے۔ پیکیج کے تحت کسی کو آٹھ دس بڑے آئٹم دیئے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ چند افراد کو دیا جاتا ہے۔ اگر آپ نفسی امور سے متعلق تھوڑا بہت بھی جانتے ہیں تو بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جن کروڑوں پاکستانیوں کو اِن میں سے کچھ نہیں ملتا اُن کی ذہنی کیا حالت ہوتی ہوگی؟ یہ تماشا دیکھنے والا کوئی فرد سوچ سکتا ہے کہ ایک طرف تو کسی کو لڑنے جھگڑنے اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر بھی اُس کی پوری اُجرت نہیں ملتی۔ وہ سہولتوں کے لیے ترستا ہی رہتا ہے اور دوسری طرف چُٹکلا سُنانے پر ریفریجریٹر یا اے سی وغیرہ سے نوازا جارہا ہے۔ اور کچھ نہ سہی، آن اسکرین کسی گانے کا مکھڑا سُنانے یا محض ایک آدھ ٹھمکا لگانے پر موٹر سائیکل دی جارہی ہے۔ اور پھر تھوڑی سی دیر کے گیم پر (جس میں ذہانت کی آزمائش کسی بھی مرحلے میں شامل نہیں) کاریں اور بیس تیس تولہ سونا دیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اُن کی ذہنی حالت کیا ہو جاتی ہوگی جنہیں فیوز ہو جانے والا سیور تبدیل کرنے کے لیے بھی چار پانچ دن سوچنا پڑتا ہو! چمک دکھاکر قوم کو کس راستے پر اور کس دھندے سے لگایا جارہا ہے؟ جہاں لوگ مہینہ بھر محنت کرکے گھر کا چولھا جلتا رکھ پاتے ہوں وہاں محض انٹر ٹینمنٹ کے نام پر یہ چونچلے قوم کو ذہنی طور پر مزید بیمار نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے؟ یہ تماشا اہلِ وطن کے ذہنوں پر غیر محسوس ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ جس نے تیس پینتیس سال محنت کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ پر بارہ پندرہ لاکھ بمشکل پائے ہوں وہ کسی گیم شو میں محض پندرہ منٹ کی محنت سے کسی کو پندرہ بیس لاکھ یا اِس سے زائد مالیت کی کار جیتتا ہوا دیکھ یہی سوچنے پر مجبور ہوگا کہ خواہ مخواہ محنت کی اور عمر گنوائی۔ کیا یہ اچھا نہ تھا کہ کسی گیم شو میں حصہ لیتے اور تیس پینتیس سال کی محنت بچاتے ہوئے سارا پھل ایک دن میں پالیتے! 
یہ تمام مناظر انسان کو اپنے حالات سے بیزار کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ ایسا ویسا کرنے یعنی جرم پسندی کی ذہنیت اپنانے پر اُکساتے ہیں۔ احساسِ محرومی شِدّت اختیار کرلے تو معاشرے میں صرف بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ سوچیے کہ سوچنے کا وقت یہی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں