پاکستان کے بارے میں خود پاکستانیوں میں یہ تاثر عام ہوچلا ہے کہ یہ ایک انتہائی خطرناک معاشرہ ہے جہاں قدم قدم پر جرائم ہیں، بے ایمانی ہے، کرپشن ہے اور دھوکے بازی ہے۔ جن کی زندگی میں صرف ناکامیاں ہیں وہ رات دن اِس بات کا رونا روتے رہتے ہیں کہ وہ غلط ملک میں پیدا ہوگئے ہیں۔ اُن کے ذہنوں میں یہ خوش گمانی پائی جاتی ہے کہ صلاحیتوں کے اعتبار سے وہ اِس قابل تھے کہ مغرب کے کسی ترقی یافتہ ملک میں پیدا کیے جاتے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ ہم بُرے ہیں یا نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم بھی بُرے ہیں۔ تاثر یہ دیا جارہا ہیم، بلکہ ذہنوں میں ٹھونسا اور ٹھونکا جارہا ہے کہ ہم ہی بُرے ہیں۔ جنہیں پینے کا صاف پانی میسّر نہ ہو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بھری دُنیا میں صرف وہی ہیں جو صاف پانی سے محروم ہیں، باقی دنیا میں تو دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں اور لوگ رات دن سَیر ہوکر دودھ پی رہے ہیں!
خامیاں، خرابیاں اور محرومیاں ہم میں کم نہیں۔ مگر ذہن میں اِس فہمی یا بدگمانی کو پروان چڑھاکر دل چھوٹا مت کیجیے کہ آپ جہنم میں ہیں اور باقی دنیا جنت میں جی رہی ہے۔ روئے ارض پر کہیں بھی، کوئی جنت نہیں پائی جاتی۔ ہر معاشرے کو اُس کے حصے کے مسائل ملتے ہیں۔ قدرت نے اِس معاملے میں کسی کو ''محروم‘‘ نہیں رکھا۔ اگر یقین نہیں آتا تو زیادہ دور مت جائیے، انٹر نیٹ پر سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف معاشروں کا جائزہ لیجیے۔ کسی بھی تجزیہ کار سے مدد لیے بغیر اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کتنے جہنم میں پل رہے ہیں اور کون کتنی جنت میں جی رہا ہے۔ کسی بھی معاشرے کا سچ جاننے کے لیے سوشل میڈیا کو ترجیح دی جانی چاہیے کیونکہ سچ وہیں پایا جاتا ہے۔ میڈیا کے مرکزی دھارے میں تو ''سب اچھا ہے‘‘ کا راگ بہتا ہوا ملتا ہے!
پاکستان کو اللہ نے بہت سے نعمتوں نے نوازا ہے۔ اِن نعمتوں سے ہم کس حد تک مستفید ہوتے ہیں اور زندگی کا معیار بلند کرنے میں اُن سے کس حد تک معاونت پاتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ پاکستانی معاشرے کی بعض خصوصیات اِس قدر نمایاں ہیں کہ بہت سے پس ماندہ معاشروں سے ہم بہت بلند اور قابلِ فخر حد تک احساس کے حامل ہیں۔ مثالیں تو ہزاروں ہیں مگر آئیے، صرف دو نمایاں ترین مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تاکہ اِس آئینے میں ہم اپنے اور دوسروں کے چہروں کا جائزہ لے سکیں۔
پینے کا صاف پانی پاکستان میں کروڑوں افراد کو یا تو میسّر نہیں یا پھر آسانی سے میسّر نہیں۔ معاملہ افسوس ناک ہے مگر اِس حد تک بھی نہیں کہ ہم شرم سے زمین میں گڑے رہیں۔ تائیوان کوئی گیا گزرا معاشرہ نہیں۔ اُس کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ غیر معمولی حد تک محض خواندہ نہیں بلکہ پڑھے لکھے ہیں۔ تائیوان کا معاشرہ مجموعی طور پر ترقی یافتہ اور خوش حال ہے۔ اُسی تائیوان سے خبر آئی ہے کہ چند طلباء نے عوام کو فراہم کیے جانے والے پانی کے چند نمونے جمع کرکے قلفیاں جمائیں اور عوام ہی کے سامنے رکھیں۔ یہ قلفیاں جمانے کا بنیادی مقصد عوام کو یہ بتانا تھا کہ اُنہیں پینے کے لیے جو پانی فراہم کیا جاتا ہے اُس کا معیار کیا ہے۔ بہت سے مقامات سے پانی کے جو نمونے جمع کیے گئے اُن میں کچرا بھی تھا، پلاسٹک کے ٹکڑے بھی اور کیمیکلز کے اجزاء بھی۔ طلباء نے جو قلفیاں جمائیں اُن میں سب کچھ دیکھا جاسکتا ہے۔ اِن سُطور کے ذریعے صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خرابیاں ہر معاشرے میں ہیں مگر ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ اپنے معاشرے کو سب سے گندا تصورکرکے اُسے شک کی نظر سے اور باقی دنیا کو رشک کی نظر سے دیکھتے رہیں گے۔
یہ بات تو ہوئی پانی کی فراہمی کی۔ اب ذرا بات ہوجائے غلاظت کی نکاسی کی۔ بھارتی معاشرہ بہت دور نہیں، ہمارے پڑوس میں واقع ہے۔ اِس معاشرے میں لوگ کس درجے کی زندگی بسر کر رہے ہیں یہ کوئی ڈھکی چُھپی حقیقت نہیں۔ دہلی، ممبئی، مدراس، کولکتہ، حیدر آباد، احمد آباد، بھوپال، جے پور اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں کروڑوں افراد انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں جینے پر مجبور ہیں۔ ''چمکتا، دمکتا بھارت‘‘ کا راگ الاپنے والوں نے عوام کو بنیادی سہولتوں سے اب تک محروم رکھا ہے۔
دہلی، ممبئی اور دیگر بڑے شہروں کے گنجان آباد علاقوں میں سرعام یعنی کھلے مقامات پر رفعِ حاجت کوئی انوکھا منظر نہیں۔ ٹرین سے سفر کرنے والوں کو علی الصباح ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد رفعِ حاجت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب بڑے شہروں کا یہ حال ہے تو سوچیے چھوٹے شہروں کی حالت کیا ہوگی۔ مغربی ریاست (صوبے) کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے ٹوئیٹ کے ذریعے ممبئی کے شہریوں کو مبارک باد دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اب ممبئی ایسا شہر بن چکا ہے جہاں لوگ سرعام اپنی حاجت رفع نہیں کرتے! ممبئی کو اس حوالے سے باضابطہ سڑٹیفکیٹ بھی دیا جاچکا ہے۔
ہمارے ہاں فراہم کیا جانے والا پانی گندا ضرور ہوتا ہے مگر ایسا بھی گندا نہیں ہوتا کہ اُس میں کچرا یا کیمیکل کے اجزاء پائے جائیں۔ اور تھوڑی سی کوشش سے اِس پانی کو صاف کرنا بھی کوئی بہت مشکل مرحلہ نہیں۔ یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں، دنیا بھر کا ہے۔ جو لوگ بھارت میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو مثالی قرار دے کر اپنے سسٹم کو روتے رہتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت بھر میں آج بھی کم و بیش 65 کروڑ افراد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی میسّر نہیں!
آبادی کے حوالے سے بے لگام تو کراچی بھی ہے اور لاہور بھی۔ چند دوسرے شہر بھی پھیلتے ہی جارہے ہیں۔ بڑھتا ہوا رقبہ آبادی بھی بڑھا رہا ہے مگر اِس کے باوجود یہ حقیقت انتہائی خوش کن ہے کہ ہمارے ہاں سرعام حاجت رفع کرنے کی ''تابندہ روایت‘‘ کبھی پروان نہیں چڑھی! آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ ٹوائلیٹ کی سہولت سے محروم گھر ہمارے ہاں کتنے ہوں گے۔ دور افتادہ دیہات میں لوگ کھلے مقامات پر رفعِ حاجت کے عادی ہوتے ہیں۔ اُنہیں اگر ایک طرف کردیجیے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ شرمناک منظر شاید ہی پاکستان کے کسی بڑے، درمیانے یا چھوٹے شہر میں دکھائی دیتا ہو۔
خرابیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کے معاملے میں ہم انوکھے نہیں۔ سوال اِن کا رونا روتے رہنے کا نہیں، بلکہ اِن سے نجات پاکر زندگی کا معیار بلند کرنے کا ہے۔ دوسرے معاشروں کو جنت سمجھتے رہنے سے ہمیں اپنا معاشرہ حقیقت اور استحقاق سے کچھ زیادہ ہی جہنم محسوس ہوتا رہے گا۔