معاشرہ فرد پر اثر انداز ہوتا ہے اور فرد معاشرے پر۔ دونوں ایک دوسرے کو غیر محسوس طور پر متاثرکرتے رہتے ہیں۔ بہت سوں کا خیال یہ ہے کہ فلمیں اور ڈرامے معاشرے پر خطرناک حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ بھی لکھنے اور سوچنے والوں پر خطرناک حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہے۔ سوچنے اور لکھنے والے معاشرے سے بہت کچھ لیتے ہیں اور دوسری طرف اُسے بہت کچھ دیتے بھی ہیں۔ جو کچھ معاشرے میں پایا جاتا ہے اُس کی جھلک ہمیں کہانیوں، ناولوں اور فلموں میں دکھائی دیتی ہے۔ اور پھر اِس لکھے ہوئے یا کیے ہوئے کا اثر قبول کرکے معاشرہ ''پیش رفت‘‘ یقینی بناتا ہے۔
یہ تو خیر ایک طویل بحث ہے۔ آئیے، مطلب کے نکتے کی طرف چلتے ہیں۔
سوال صرف افسانوں، ناولوں، فلموں اور ڈراموں کا نہیں۔ کاروباری اداروں کی پالیسیاں بھی تو ہمیں غیر معمولی حد تک متاثر کرتی ہیں۔ فیشن کی دنیا بھی ہماری فکر اور طرزِ عمل دونوں کو تبدیلی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔
اور سیاست؟ وہ کب ہمیں بخشتی ہے۔ اہلِ سیاست جو کچھ کرتے ہیں وہ پورے معاشرے کے عمومی مزاج پر کبھی کبھی اِس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ اور بہت کچھ دب اور چُھپ جاتا ہے۔ قومی قیادت اندرونی اور بیرونی محاذ پر جیسی پالیسیاں اپناتی ہے قوم کا مزاج بھی رفتہ رفتہ ویسا ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ ''دور‘‘ کیوں جائیے، امریکا ہی کی مثال لیجیے۔ ایک زمانے سے امریکی قیادت ایسا بہت کچھ کرتی آئی ہے جو کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا مگر عام امریکیوں کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ ان کی قیادت کیا کرتی ہے اور کیا نہیں کرتی۔ اُنہیں اگر غرض ہے تو بس اِس بات سے کہ وہ باقی دنیا سے منفرد ہیں اور ہر اُس سہولت سے بہرہ مند ہیں جسے پانے کے بارے میں دوسرے ابھی صرف سوچنے کی منزل میں ہیں۔ جب سب کچھ حق میں چل رہا ہو تو غلط بھی صحیح ہو جاتا ہے، کھٹّا بھی میٹھا قرار پاتا ہے۔ خیالوں اور مفروضوں کی دنیا میں چاہے جتنا بھی بھٹکیے، زمینی حقیقت تو یہی ہے۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ قومی قائدین بھی اِسی طور قوم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر بڑوں میں خرابیاں ہوں گی تو چھوٹوں میں بھی آئیں گی۔ جو اصول گھر کا ہے وہی پوری قوم کا ہے۔ امریکا میں بڑے خطرناک حد تک ''بڑے ہی وہ‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ اُن کی سوچ اِس قدر الجھی ہوئی ہے کہ اب قومی سطح کی سوچ بھی الجھ گئی ہے اور مزاج میں جان لیوا کجی پروان چڑھ چکی ہے۔ عام امریکی نہ چاہتے ہوئے بھی قومی قیادت کے رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ جو کچھ قائدین کر رہے ہیں وہ عمومی سوچ اور طرزِ عمل پر اس حد تک اثر انداز ہو رہا ہے کہ عام امریکی کے لیے بچ نکلنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔
عشروں سے امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جس طور بھی ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ مال بٹورا جائے اور اس معاملے میں دھونس دھمکی سے طاقت کے استعمال تک ہر حربہ، ہر طریقہ آزمانے میں کوئی ہرج نہیں۔ قومی قیادت کے اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب عام امریکی بھی کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ سہولتوں سے آراستہ زندگی بسر کرنے عادی ہوچکے ہیں۔ صحیح اور غلط کا شعور مٹتا جارہا ہے اور معاشرے میں جرائم کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔
امریکی قیادت کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکل رہا ہو تو انگلی ہی نہیں، ہاتھ کو بھی ٹیڑھا کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی جائے۔ اِس بات کی چنداں پروا نہیں کی جاتی کہ اس کے نتیجے میں فریقِ ثانی پر کیا گزرے گی۔ کبھی کبھی امریکی قیادت کی طرزِ عمل کچھ اِس نوعیت کی ہوتی ہے کہ اگر کسی الماری سے کچھ نکالنا ہو اور وہ کُھل نہ پارہی ہو تو یا الماری ہی کو اُٹھاکر چل دیتی ہے یا پھر الماری کو تباہ کردیتی ہے تاکہ کوئی اور اُس سے کماحقہ مستفید نہ ہوسکے۔
گزشتہ دنوں امریکی ریاست مسوری میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ''دی جوپلن گلوب‘‘ نے لکھا ہے کہ لیزا اسٹبلفیڈ کسی کام سے تین دن کے لیے شہر سے باہر گئی۔ واپس آئی تو گھر غائب تھا! امریکا میں چلنے پھرنے والے گشتی گھر (موبائل ہوم) عام ہیں۔ یہ گھر بڑے کنٹینر کی شکل کے ہوتے ہیں اور کہیں بھی خالی جگہ کرائے پر لے کر اِنہیں وہاں کھڑا کردیا جاتا ہے۔ بہت سی دکانیں اور اسٹورز بھی کنٹینرز میں بنائے جاتے ہیں تاکہ ضرورت محسوس ہونے پر انہیں آسانی سے منتقل کیا جاسکے۔ لیزا جب شہر سے باہر تھی تب چوروں نے اُس کے گھر کا سامان نکالنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ناکامی پر اُنہوں نے ہمت ہارنے کے بجائے کچھ زیادہ ہمت دکھانے کا فیصلہ کیا یعنی گھر ہی لے اُڑے! لیزا نے جب اپنے گشتی گھر کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں تب ایک عورت نے یہ گھر پہچان لیا اور لیزا کو اطلاع دی۔ لیزا خوش نصیب تھی کہ پانچ دن بعد اُسے اپنا گشتی گھر 145 کلومیٹر کی دوری پر مل گیا۔ ہم لیزا کو خوش نصیب اس لیے قرار دے رہے ہیں کہ اُسے اپنا کھویا ہوا گھر بالآخر مل گیا۔ اِس دنیا میں ایسے ایک دو نہیں، درجن بھر ممالک ہیں جن کا سب کچھ امریکی قیادت نے چھین لیا اور واپس دینے کا نام بھی نہیں لے رہی۔ کئی ممالک کو امریکا نے اُسی طور ہڑپ کیا ہے جس طور نامعلوم چور لیزا کا گشتی گھر لے اُڑے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ عام امریکی اب اپنی قیادت سے مقابلے پر تُل گئے ہیں! یہ انوکھا طریقِ واردات ہے۔ انگریزی میں اِسے ''ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ‘‘ کہا جاسکتا ہے یعنی یہ کہ اگر کسی کے چراغ سے اپنا چراغ جلانا ممکن نہ ہو تو دوسرے کا چراغ بُجھادو یا پھر وہ چراغ اُٹھاکر چلے بنو!
بات افغانستان کی ہو یا عراق کی، لیبیا کی ہو یا مصر کی ... امریکی قیادت نے ہر جگہ وہی تو کیا ہے جو لیزا کے ساتھ ہوا۔ جہاں معاملہ سمجھ میں نہ آسکے یا قابو میں نہ آئے وہاں پورے معاملے کو ٹھینگے کے نیچے دبادو! امریکی قائدین کے لیے بنیادی سوال اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے، اپنی خوش حالی کا گراف بلند کرنے کا ہے۔ ایسا کرنے سے اگر کسی کے مفادات خاک میں ملتے ہوں تو ملتے رہیں، کسی کی خوش حالی داؤ پر لگتی ہو تو لگتی رہے، اِن کی بلا جانے۔
عام امریکی اور امریکی قیادت کے طریقِ کار میں بنیادی فرق تجربے کا ہے۔ ایک عام امریکی اگر کسی چیز کو اُٹھاکر لے بھاگے تو وہ جلد یا بدیر، کچھ دور مل جاتی ہے جیسا کہ لیزا کے گشتی گھر کے معاملے میں ہوا۔ ہاں، امریکی قیادت اگر کسی ملک پر نظریں گاڑ لے، نیت خراب کرلے تو وہ ایسا غائب ہوتا ہے کہ نظر آنے پر بھی دکھائی نہیں دیتا! قومی قیادت کی مہربانی سے عام امریکی بھی خربوزوں کی روش پر چلتے ہوئے رنگ پکڑنے کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ہیں یعنی کچھ بھی اٹھا لے بھاگنے کی منزل تک تو آ ہی گئے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اب وہ کسی مقام پر دم بھی لیتے ہیں یا اپنی قیادت کی طرح بے لگام ہوس کے اسیر ہو رہیں گے!