"MIK" (space) message & send to 7575

محبت وحبت سے آگے کی بات!

اگر کوئی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرے کہ وہ اونٹ کو رکشے میں بٹھا سکتا ہے تو یقین کرنا اگرچہ مشکل ہے مگر پھر بھی یقین کرلیجیے گا کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے جُھوٹ نہ بولنے کا عہد کرلیا ہے اور اِس عہد کی پابندی بھی کر رہے ہیں تو دل پر پتّھر رکھ کر کسی نہ کسی طرح اِس بات پر بھی یقین کرلیجیے گا کہ ایسا بھی ہو تو سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ماہرین اپنی کسی بات پر قائم ہیں تو ہرگز یقین مت کیجیے گا۔ اپنے ہی کہے سے مُکر جانے والے آپ نے بہت دیکھے ہوں گے مگر اِس ''فن‘‘ میں جو کمال ماہرین کو حاصل ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا! ماہرین کہلاتے ہی وہ لوگ ہیں جو ایک ہی مسئلے کے کئی حل تجویز کرتے ہیں اور ہر پُرانے حل کو از کار رفتہ قرار دے کر ردّی کی ٹوکری میں ڈالتے جاتے ہیں! 
ایک زمانے سے آپ نے بھی سُن رکھا ہوگا کہ محبّت تمام جذبوں پر حاوی ہے۔ ہمیں تو فلمی گانوں کے ذریعے بھی سکھایا گیا ہے کہ ؎ 
محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے 
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے! 
اور جب بات فلموں تک آجائے اور فلموں کے ذریعے ہم تک آئے تو یقین نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ محبت کے جذبے پر یقین کی تحریک ہی نہیں بلکہ محبت کرنے کے طریقوں سے شناسائی بھی ہمیں فلموں ہی کے ذریعے نصیب ہوتی آئی ہے! زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے مگر اب بھی محبت کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے اور بدلتے ہوئے رجحانات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے گئے گزرے ماحول میں ماہرین نے محبت کو discard کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ ماہرین کے ایک گروہ نے (ظاہر ہے، جیسا کہ طریق کار ہے) برسوں کی تحقیق کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ محبت سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہے جو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 
زمانے کا دستور ہے کہ اگر کسی پر دل آجائے تو جی چاہتا ہے کہ اُس سے فوراً کہہ دیا جائے کہ مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے اور جواب میں اُس کی طرف سے بھی اِنہی الفاظ کے دہرائے جانے کی توقع ہوتی ہے۔ ''میں تم سے پیار کرتا ہوں‘‘ کے الفاط محبت کا یقین دلاتے ہیں۔ معاملہ عورت کا ہو یا مرد کا، دونوں ہی فریق ثانی سے یہ الفاظ سُننے کو بے تاب رہتے ہیں۔ اب نفسیات اور ڈیٹنگ کے ماہرین دعویٰ کر رہے ہیں کہ محبت کا یقین دلانے والے الفاظ سے بھی زیادہ طاقتور الفاظ ہیں جن کا دہرایا جانا دل کی ڈھارس بندھاتا ہے، مرد و زن کا ایک دوسرے پر اعتماد بڑھاتا ہے۔ 
بات یہاں تک آکر رُک نہیں گئی ہے۔ ماہرین نے الفاظ کے ایسے مجموعے بھی کھوج نکالے ہیں جن کے دہرانے کے بعد محبت کا احساس و یقین دلانے والے الفاظ دہرانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ نفسیات اور ڈیٹنگ کے ماہرین نے ایک تازہ اسٹڈی کے نتائج کی روشنی میں بتایا ہے کہ الفاظ کے گیارہ مجموعے ایسے ہیں جو ''میں تم سے پیار کرتا ہوں‘‘ کے متبادل ہیں یعنی اِن الفاظ کو دہرانے سے فریقِ ثانی کی اچھی خاصی تسلّی ہو جاتی ہے اور محبت کا اظہار کرنے یا اُس کا احساس دلانے کی فوری طور پر کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ 
آئیے، الفاظ کے اُن گیارہ مجموعوں کا جائزہ لیں جن کا ماہرین نے ذکر کیا ہے۔ 
٭ میں ہوں نا۔ ٭ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ٭ کوئی بات نہیں۔ ٭ ذرا بھی فکر مت کرو۔ ٭ مجھے معاف کردو۔ ٭ مجھے بتاؤ پوری بات۔ ٭ سکون کا سانس لو، سب ٹھیک کردوں گا۔ ٭ پہنچ کے کال یا میسیج کرنا۔ ٭ اس بارے میں تمہارا کیا سوچنا ہے۔ ٭ کیسا لگ رہا ہے تمہیں۔ ٭ تم بہت خوبصورت ہو۔ 
ماہرین اگر ڈیٹنگ کے ساتھ ساتھ نفسیات کی بھی شُدبُد رکھتے ہوں تو اِسے سونے پر سہاگا کہیے۔ اب آپ خود ہی دیکھیے کہ الفاظ کے اِن مجموعوں کے ذریعے لوگوں کی نفسی ساخت سے کھیلنے کی کتنی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔ 
کون ہے جو نہیں چاہتا کہ اُسے درپیش مسائل تیزی سے حل ہوں؟ جب انسان کسی مسئلے سے دوچار ہو تو محبت وحبت سب ''بالائے طاق کے اوپر‘‘ دھری کی دھری رہ جاتی ہے! شیخ سعدی کا وہ شعر تو آپ نے بھی سُنا ہوگا کہ ایک بار پھر دمشق میں ایسا قحط پڑا تو یار لوگ اور سب کچھ، حتّٰی کہ عشق وشق بھی بھول بھال گئے! یعنی جیسا مسئلہ ویسی سوچ۔ جب قحط پڑتا ہے تو دل کا خیال رہتا ہے نہ دل لگی کا ... ایسے میں صرف آٹے دال کی سُوجھتی ہے! یہی نکتہ ماہرین نے خوب پکڑا اور محبت کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ 
پریشانیوں میں گِھرا ہوا اِنسان کیا چاہتا ہے؟ دِلاسا ... اور یہ یقین دہانی کہ اُس کا مسئلہ کسی نہ کسی طور حل کرلیا جائے گا یا اُسے حل کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد فراہم کی جائے گی۔ مسائل سے متصادم انسان دل اور دل کی لگن دونوں کو بھول جاتا ہے۔ اُسے صرف اِتنا یاد رہتا ہے کہ سب سے پہلے مسائل کو حل کرنا ہے۔ اور یہ کہ محبت وحبت کا معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا! یعنی ماہرین نے نفسیات کی باریکیوں کا سہارا لے کر مرد و زن کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ الفاظ کے ایسے مجموعے رچے گئے ہیں جن سے اِنسان کو اپنے مسائل کے حل کا یقین ہو جاتا ہے۔ ڈال پر بیٹھے ہوئے پرندوں کے جُھنڈ سے وہ ایک پرندہ بہتر ہے جو ہاتھ میں ہو! 
اب ذرا، ڈھارس بندھانے والے الفاظ کے پہلے مجموعے پر نظر ڈالیے۔ ''میں ہوں نا‘‘ سے زیادہ پراعتماد دو طرفہ الفاظ اور کون سے ہوں گے؟ یہ الفاظ سُننے والے کو بھی سکون ملتا ہے اور سُنانے والے کو تو خیر ایسا مزا آتا ہے کہ کچھ مت پوچھیے۔ ہم میں سے بیشتر کے ذہن میں یہی بات تو پتھر پر لکیر کی طرح رہتی ہے کہ ہم ہیں تو ہر مسئلہ حل کرلیں گے۔ انسان کی نفسی ساخت کو اِس سے زیادہ سکون پہنچانے والی چیز بھلا کون سی ہوسکتی ہے؟ 
ماہرین بہت باریکی سے محبت وحبت کا چکر ختم کرکے ہمیں حقیقت کی دنیا میں جینا سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اِس کے لیے نفسی علوم کے بنیادی طریقوں کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ماہرین گرم لوہے پر ضرب لگا رہے ہیں یعنی مہارت کا بھرپور ثبوت فراہم کر رہے ہیں! اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اواخر کا بنیادی سبق یہ ہے کہ دل، دل لگی، پیار، محبت، وعدے، قسمیں ... سب کچھ بھول کر صرف اِتنا یاد رکھو کہ جو آپ کے مسائل حل کرے وہی سچّا چاہنے والا ہے۔ جن کے لیے یہ سبق تیار کیا گیا ہے وہ بھی تو ایسی ہی بات سننا چاہتے ہیں۔ اُنہیں بھی تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ جو مسائل حل کردے وہی سچّا چاہنے والا ہے، باقی سب تو محض دعویدار ہیں! 
اور ذرا آخری بات پر تو غور کیجیے۔ کسی کو محبت کا یقین دلائیے یا نہ دلائیے، کچھ خاص فرق نہیں پڑتا مگر ہاں، اُسے خوبصورت قرار دیجیے تو وہ ضرور آپ پر فِدا ہوگا یا ہوگی۔ کیا عجب نفسی معاملہ ہے کہ شدید پریشانیوں میں گِھرے ہوئے انسان کو بھی اِس بات کی فکر لاحق رہتی ہے کہ کوئی اُسے خوبصورت قرار دے! سچ ہے جناب، ماہرین کو اچھی معلوم ہے کہ گرم لوہے پر ضرب کب اور کہاں لگائی جاتی ہے! یعنی پہلے انسان کو مسائل کی دلدل سے نکالیے، محبت کے اظہار کی رسمی کارروائی تو بعد میں بھی مکمل کی جاسکتی ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں