1947 میں بھارت تقسیم ہوا تو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ جن کے بزرگوں کی ہڈیاں بھارت کی سرزمین میں دفن تھیں ایسے لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کو اپنا مستقل مستقر بنایا۔ اور اِدھر سے یعنی پاکستانی علاقوں سے بھی لاکھوں ہندوؤں اور سِکھوں نے بھارت کو ہمیشہ کے لیے اپنایا۔ یہ سب کچھ اگست 1947 میں شروع ہوا اور تین ماہ تک جاری رہا۔ یہ زمانہ بڑے پیمانے پر ہجرت یا نقل مکانی کا تھا۔ بھارت سے ایسے لاکھوں مسلمان یہاں آئے جنہوں نے نوزائیدہ اسلامی ممالک کے حوالے سے بہت سے خواب اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔ پاکستانی علاقوں سے اور بالخصوص پنجاب سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ لاکھوں ہندوؤں اور سِکھوں نے اپنا سب کچھ یہیں چھوڑ کر بھارت کی راہ لی۔ اور وہاں نئے سِرے سے زندگی شروع کی۔ مسلمانوں کی طرح ہندو اور سِکھ بھی اُجڑے، برباد ہوئے۔ اُن کے بھی پیارے مارے گئے۔ اور زندگی بھر کی جمع پونجی ٹھکانے لگ گئی۔
1950 کے بعد بھی نقل مکانی اور ہجرت کا سلسلہ جاری رہا۔ اُدھر سے مسلمان اِدھر آتے رہے اور اِدھر سے ہندو یا سِکھ اُدھر جاتے رہے۔ سندھ سے ہندوؤں کی نقل مکانی ہر دور میں جاری رہی ہے۔ سندھ میں بسے ہوئے یعنی سندھی بولنے والے ہندوؤں میں عدم تحفظ ہر دور میں رہا ہے۔ کراچی میں بھی ہندو رہتے ہیں اور پنجاب میں بھی۔ کراچی کے بیشتر ہندو گجراتی بولنے والے ہیں۔ یہ تسلیم کرنے میں کچھ عار نہیں کہ ہندو یعنی اقلیت ہونے کی حیثیت سے انہیں بعض معاملات میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہ مجموعی طور پر معاشرے کا حصہ ہیں اور بہت سے گِلوں شِکووں کے باوجود پاکستان ہی کو اپنا وطن بنائے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف سندھ کے متعدد علاقوں کے ہندو اب تک پاکستان کو پوری طرح ہضم کرنے اور اِس کا حصہ بنے رہنے کے قائل نہیں ہو پائے ہیں۔ وہاں کے حالات کا تو عام پاکستانیوں کو کچھ زیادہ علم نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چند ایک معاملات عدم تحفظ کا احساس توانا رکھنے کا باعث بنتے رہے ہوں۔ چند برسوں کے دوران ہندو لڑکیوں کے قبولِ اسلام نے بھی معاملات کو الجھایا ہے۔ سندھ کے ہندوؤں کا شِکوہ ہے کہ ہندو لڑکیوں کو بالجبر مسلمان کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے پانچ چھ سال قبل خاصی بحرانی کیفیت بھی پیدا ہوئی تھی۔
اب پھر سندھ کے ہندوؤں میں بھارت کی طرف دیکھنے کا رجحان پروان چڑھا ہے۔ ہزاروں سندھی ہندوؤں نے پاکستان کو چھوڑ کر بھارت کی سرزمین کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہوئی ہے اور یہ تجربہ مجموعی اعتبار سے کیسا رہا ہے، یہ جاننے کے لیے ہمیں فرانسیسی خبر رساں ادارے کا سہارا لینا پڑے گا۔
تین دن قبل ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا کہ بعض سندھی ہندو ''اپنوں‘‘ میں زندگی بسر کرنے کی خواہش دل میں بسائے بھارتی سرزمین پر پڑے ہوئے ہیں۔ اِن سندھی ہندوؤں میں سے بہت سوں کو راجستھان اور گجرات میں پندرہ، بیس سال سے بھی زائد مدت گزر چکی ہے۔ سندھ کے سیکڑوں ہندو گھرانوں نے پاکستانی پاسپورٹ پر بھارت جاکر وہاں شہریت کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ جب تک یہ درخواست قبول نہیں کرلی جاتی اور اُنہیں شہریت نہیں دے دی جاتی تب تک اُنہیں خاصی عبوری سی حالت میں رہنا پڑتا ہے۔ یہ عبوری سی حالت کیا ہوتی ہے، اس کا احوال اے ایف پی کی رپورٹ میں ہے۔
پاکستان کے جو ہندو بھارت میں مستقل قیام کی نیت سے پاکستان چھوڑتے ہیں وہ پاکستانی پاسپورٹ پر بھارت میں انٹری دینے کے بعد راجستھان اور گجرات میں ایک ایسی زندگی بسر کرتے ہیں جسے کسی بھی اعتبار سے پرسکون اور پراعتماد زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بھارت کی پولیس ہی نہیں، خفیہ ادارے بھی ان پاکستانی ہندوؤں پر دن رات نظر رکھتے ہیں۔ ان تمام ہندوؤں کو انتہائی مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اِنہیں ایجنٹ کے روپ میں بھیجا گیا ہے۔
شہریت کے لیے جمع کرائی جانے والی درخواست جب تک منظور نہیںکرلی جاتی اور شہریت کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کردیا جاتا تب تک پاکستانی ہندو کسی بھی سطح پر کھل کر جی نہیں سکتے۔ اِنہیں مقامی آبادیوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ اپنوں یعنی ہندوؤں میں زندگی بسر کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے آنے والوں کے لیے یہ بات قیامت سے کم نہیں کہ اُنہیں عام بھارتی ہندوؤں میں گھل مل کر رہنے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی۔
بھارتی شہریت کے خواہش پاکستانی ہندوؤں کو پولیس اور خفیہ اداروں کے دفاتر کے چکر کاٹتے رہنا پڑتا ہے۔ جودھپور اور دیگر بھارتی شہروں میں پڑے ہوئے اِن پاکستانی ہندو گھرانوں کی نقل و حرکت خاصی محدود رکھی جاتی ہے۔ جب کبھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی در آتی ہے تب اِن کی شامت آجاتی ہے۔ خانا رامجی کا کہنا ہے کہ بھارتی شہریت کے خواہش مند پاکستانی ہندو جو تھوڑا بہت کما پاتے ہیں اُس کا معقول حصہ پولیس اور خفیہ اداروں کے دفاتر کے چکر کاٹنے میں ضائع ہو جاتا ہے! اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ بہت سے پاکستانی ہندو بھارتی حکام کی بے حِسی سے بدظن و مایوس ہوکر واپس پاکستان چلے جاتے ہیں۔
یہ سارا کھیل جذباتیت کا ہے۔ اِنسان جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے اُس میں خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں اور خرابیاں بھی۔ کوئی بھی معاشرہ کسی بھی اعتبار سے مکمل اور مثالی نہیں۔ ہر شخص کو اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہوکر، ایدجسٹمنٹ کرتے ہوئے جینا پڑتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے بھارت کے مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ فطری سی بات ہے کہ اپنے ملک کے ایک حصے سے محروم ہوکر بھارت کے ہندو مسلمانوں سے سخت نالاں رہے ہیں۔ اس حوالے سے جذباتیت آج بھی جاری ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کی تو سیاست ہی مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر چلتی آئی ہے۔ مسلم مخالف جذبات ہی کی بنیاد پر بی جے پی اور سنگھ پریوار کا ووٹ بینک برقرار ہے۔
پاکستان کے ہندوؤں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ان کے لیے سب سے بڑی زمینی حقیقت یہی سندھ کی دھرتی ہے۔ جو ہندو سندھ میں سیکڑوں برس سے آباد ہیں اُنہیں ہاتھ پکڑ کر تو کوئی نہیں نکال رہا۔ اُنہیں مرکزی دھارے میں شامل ہونے سے کس نے روکا ہے؟ کوئی اُن کا معاشرتی بائیکاٹ تو نہیں کر رہا۔ وہ معاشی جدوجہد کے حوالے سے بھی بہت حد تک آزاد ہی ہیں۔ پھر یہ جذباتیت کیوں؟ پاکستان چھوڑ کر اگر اچھی زندگی مل سکتی ہے تو ٹھیک مگر یہاں سے بدتر حالات کا سامنا کرنے کے لیے سرحد پار کرنا چہ معنی دارد؟ اگر پڑوس میں ترقی یافتہ معیشت و معاشرت ہوتی تو کچھ بات بھی تھی۔ دونوں معاشرے بھی ایک سے ہیں۔ ایسے میں اپنی دھرتی چھوڑنے سے فائدہ؟ دور کے ڈھول تو سہانے محسوس ہوں تو حیرت کی کوئی بات نہیں، اِس سادگی کو کیا کہیے کہ یہاں تو پاس بلکہ پڑوس کے ڈھول بھی سہانے محسوس ہو رہے ہیں! اگر کوئی بھارتی مسلمان بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی نیت سے پاکستانی شہریت کا خواہاں ہو تو لوگ اُسے احمق قرار دیں گے۔ ایسی ہی حماقت اِس وقت پاکستان کے اُن ہندوؤں سے بھی سرزد ہو رہی ہے جو بھارت کی حدود میں اور ''اپنوں‘‘ کے درمیان راندۂ درگاہ ہیں۔ گویا ع
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ...