"MIK" (space) message & send to 7575

’’تیسری عالمی جنگ‘‘

یہ دنیا ایک بار نہیں، دو بار جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاری دیکھ چکی ہے۔ پہلے ہیروشیما میں اور پھر ناگاساکی میں۔ جب جوہری ہتھیار بنائے گئے تھے تب یہ تصور کیا جارہا تھا کہ شاید اب یہ ہتھیار استعمال کیے جاتے رہیں گے اور بڑے پیمانے پر تباہی واقع ہوتی رہے گی۔ امریکا نے جاپانیوں پر دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں بظاہر کسی ٹھوس جواز کے بغیر جوہری بم برسادیئے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر برسائے جانے والے جوہری بموں نے جو تباہی پھیلائی اُس کی نوعیت ایسی تھی کہ دنیا کانپ گئی۔ عالمی سطح پر غیر معمولی اثر و رسوخ کی حامل سیاسی شخصیات سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ جوہری ہتھیاروں کے خلاف تحریک شروع کی گئی۔ دنیا بھر میں عمومی سطح پر یہ طے پاگیا کہ اب حالات کو اُس نہج تک نہیں جانے دیا جائے گا کہ جوہری ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ 
اور دیکھ لیجیے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسا حشر کسی بھی دوسرے شہر یا قصبے کا نہیں ہوا۔ تب سے اب تک جوہری ہتھیار استعمال نہیں کیے گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جوہری ہتھیاروں نے ڈیٹرنس (ردِ جارحیت) کا کردار بخوبی ادا کیا ہے۔ جن ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں وہ ایک دوسرے کے خلاف یہ ہتھیار استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی یا جذباتیت کتنے اور کیسے گل کھلا سکتی ہے۔ 
چین کتنا طاقتور ہے، یہ بات بھلا کون نہیں جانتا؟ اور بھارت کی طاقت سے بھی لوگ بخوبی واقف ہیں۔ دونوں ممالک اِس وقت کھٹے میٹھے تعلقات کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ سرحدی تنازع پر دونوں ممالک ایک جنگ لڑچکے ہیں۔ 1962 میں لڑی جانے والی اس جنگ میں بھارت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تب سے اب تک بھارت نے چین کے معاملے میں غیر سنجیدہ ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اُسے اچھی طرح اندازہ ہے کہ آن کی آن میں بات کہاں سے کہاں پہنچ سکتی ہے۔ 
ڈوکلام وہ مقام ہے جہاں بھارت، چین اور بھوٹان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اِس علاقے میں بھارتی افواج نے گزشتہ دنوں تھوڑی بہت جذباتیت دکھانے کی کوشش کی تھی جسے چینی افواج نے سختی سے دبادیا۔ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران اِس علاقے میں کشیدگی نمایاں رہی ہے۔ چینی افواج نے ایک دو مواقع پر بھارتی علاقے میں ایک ڈیڑھ کلو میٹر تک اندر آکر بھی اس طرح سے کارروائی کی کہ بھارتی سورماؤں کے پاس دبکے رہنے کے سوا چارہ نہ رہا! 
گزشتہ دنوں ڈوکلام میں چین اور بھارت کے فوجی ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے۔ دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ گولیاں چلیں گی، چند ایک لاشیں گریں گی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ سب کچھ اہلِ جہاں کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھا۔ جی نہیں، گولیوں کا نہ چلنا اور توپوں کا نہ دغنا حیرت کا باعث نہ تھا۔ دنیا کو حیرت کسی اور بات پر ہوئی۔ 
جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے ہونے والی تباہی اور مزید خطرناک ہتھیاروں کے حوالے سے تحقیق دیکھ کر عظیم سائنس دان آئن اسٹائن نے کہا تھا ''مجھے نہیں معلوم کہ تیسری عالمی جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی مگر اِتنا میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ چوتھی عالمی جنگ پتھروں سے لڑی جائے گی!‘‘ 
آئن اسٹائن جیسی ہستی کا یہ بیان سن کر دنیا حیرت زدہ بھی ہوئی اور لرز کر بھی رہ گئی۔ تیسری عالمی جنگ میں جو ہتھیار استعمال ہوں گے اُن کی تباہی کاری ایسی ہوگی کہ چوتھی عالمی جنگ کے لیے صرف پتھر رہ جائیں گے! مگر دنیا ڈوکلام کا تماشا دیکھ کر حیران رہ گئی۔ چین اور بھارت کے فوجی آمنے سامنے تھے اور مسلح بھی تھے مگر پھر بھی انہوں نے گولی چلانا مناسب نہ جانا اور توپوں کو بھی زحمت نہ دی۔ تو پھر؟ دونوں طرف کے فوجیوں نے پتھروں سے کام لیا! جی ہاں، پتھروں سے۔ اِس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے تھے؟ بات کچھ یوں ہے کہ چین کی طاقت کا بھارت کو اندازہ ہے اور بھارت کی قوت سے چین بھی ناواقف نہیں۔ ایسے میں دو بدو لڑائی کا آپشن رہ جاتا ہے یا پھر پتھراؤ کا۔ ڈوکلام کے سنگم پر دونوں ممالک کے فوجیوں نے خالص لالو کھیتی ماحول پیدا کردیا! 
پاک چین راہداری منصوبہ (سی پیک) شروع کیے جانے کے بعد سے بھارت اس قدر پریشان ہے کہ لاکھ کوشش پر بھی اِس پریشانی کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہو پارہا۔ امریکا تو ویسے ہی الجھن میں مبتلا ہے کہ اب روس کو منائے یا چین کو۔ ایسے میں لے دے کر بس ''کھلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کا آپشن رہ جاتا ہے۔ یہی آپشن اب امریکا نے آزمانا شروع کیا ہے مگر اِس بندوق کے لیے کاندھا وہ بھارت کا استعمال کر رہا ہے! 
معاملہ صرف بھارت کو استعمال کرنے تک محدود نہیں۔ امریکا نے پاکستان کو بھی ڈرانے دھمکانے سے گریز نہیں کیا ہے۔ امریکی صدر نے دو دن قبل پاکستان کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کی جو بات کی ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معاملات کو اپنے ہاتھوں سے جاتا دیکھ کر اب کس حد تک اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرنے کے لیے بے تاب ہے! دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ناکافی کوششوں کا راگ ایک بار پھر الاپتے ہوئے امریکی قیادت پاکستان کو دباؤ میں لینا چاہتی ہے۔ نواز شریف کے نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد پاکستان کے حالات کسی حد تک غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیں۔ اِس نازک صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو مٹھی میں بھینچنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کو اس مرحلے پر ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ چین بھی پشت پر ہے اور روس بھی۔ رہا ترکی تو وہ کب اپنا نہ تھا! ایک عظیم منصوبہ جاری ہے جس کی تکمیل سے کم و بیش 50 ممالک کے بنیادی مفادات وابستہ ہیں۔ خود بھارت کو بھی سی پیک سے فائدہ ہی پہنچے گا، نقصان نہیں۔ ایسے میں امریکا نے میدان میں آکر اپنے عزائم کو بے نقاب کردیا ہے۔ وہ بھارت اور پاکستان دونوں کو ایک بار پھر آپس میں الجھانا چاہتا ہے اور دوسری طرف بھارت کو چین کے مقابل بھی کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ بات چین اور بھارت کی سمجھ میں نہ آرہی ہو۔ بھارتی پالیسی میکرز بھی چین کے ساتھ کسی بڑے مناقشے میں الجھنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ ڈوکلام میں پتھروں کی مدد سے کی جانے والی ''معرکہ آرائی‘‘ نے ثابت کردیا ہے کہ دونوں ممالک کو حالات کی نزاکت کا اندازہ ہے اور فی الحال کسی حقیقی مناقشے میں (اور بالخصوص کسی اور کی ''دل جُوئی‘‘ کے لیے) الجھنے کے لیے تیار نہیں۔ گولی چلے گا یا گولا دغے گا تو خون بھی بہے گا۔ خون تو خیر پتھر لگنے سے بھی بہے گا مگر فریقین کو اس بات کا اطمینان ضرور ہے کہ پتھراؤ کے بطن سے کوئی جنگ ہویدا نہیں ہوگی۔ محض ایک غلط گولی چل جائے تو جنگ چھڑ جاتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم بوسنیا کے دارالحکومت سرائیو کے مشہورِ زمانہ پُل پر آسٹریا کے آرک ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کے قتل سے شروع ہوئی تھی۔ چین اور بھارت کشیدگی کے باوجود ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتے جو بات کا بتنگڑ بنادے۔ پتھروں سے لڑنا خوف نہیں، دانائی کی علامت ہے! آئن اسٹائن نے تو چوتھی عالمی جنگ میں پتھروں کو مرکزی ہتھیار قرار دیا تھا، چین و بھارت تو تیسری عالمی جنگ بھی پتھروں سے لڑنے کے موڈ میں ہیں۔ ویسے دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر برسانے کے لیے پتھر امریکا سے مانگنے چاہئیں کیونکہ اُس کے پالیسی میکرز کی عقل پر آج کل کچھ زیادہ پتھر پڑے ہوئے ہیں!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں