"MIK" (space) message & send to 7575

ڈرنے اور مرنے سے پہلے

اب تک ہم جس امریکی صدر کو صرف کھلنڈرے پن کا بنا ہوا سمجھ رہے تھے وہ خیر سے دھمکانے پر اُتر آیا ہے۔ یہ بدلا ہوا لہجہ، یہ تیکھا رویّہ پردے میں چھپی ہوئی کہانی سُنا رہا ہے۔ یہ تبدیلی اپنے آپ تو واقع نہیں ہوگئی ہوگی۔ ع 
چراغ خود نہیں جلتا، جلایا جاتا ہے! 
مشیروں اور دفاعی حکام نے کہا ہوگا کہ بھائی، کیا لوگوں کا دل بہلانے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں ہی کرتے رہوگے اور انٹ شنٹ باتیں ہی ٹوئیٹ کرتے رہو گے یا کچھ ٹھوس اقدامات بھی کروگے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ بات ڈونلڈ ٹرمپ کی سمجھ میں آگئی اور وہ کمر کس کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ مگر صاحب، وہ مثل تو آپ نے بھی سُنی ہوگی کہ مُلّا کی دوڑ مسجد تک‘ سو ٹرمپ کی دوڑ افغانستان تک! 
افغانستان کو بہانہ بناکر پاکستان کو ڈراکر دھمکاکر دباؤ میں لینے کی اپنی سی کوشش کی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان کے لیے نئی حکمت عملی کے نام پر اچھی خاصی کامیڈی پیش کر ڈالی ہے۔ لوگ سمجھ نہیں پارہے کہ اس نئی حکمت عملی پر غور بھی کریں یا صرف ہنستے ہی رہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایک طرف پاکستان کی گردن دبوچنے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف بھارت کی پیٹھ سہلانے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے اور واضح الفاظ میں اُسے یقین دلایا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری اور دیگر علاقائی منصوبوں کے تناظر میں اُسے تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ افغان مسئلے کا دیرپا حل تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا اُنہیں اندازہ نہیں کہ اِس دلدل میں جارج واکر بش اور براک اوباما دھنسے اور نکل نہ پائے؟ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کا تو محض بہانہ ہے، دل میں کچھ اور ہی فسانہ ہے۔ 
امریکی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کو شکست ہوچکی ہے مگر اِس کا باضابطہ اعتراف واحد سپر پاور کی بچی کھچی ''عزت‘‘ بھی داؤ پر لگا دے گا۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ بڑھکیں مارتے رہنے پر گزارا کیا جائے۔ 
صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کو کنٹرول کرنے کے لیے نئی حکمت عملی کے تحت وہاں موجود امریکیوں کی بھرپور معاونت کے لیے مزید چار پانچ ہزار فوجی تعینات کیے جائیں گے۔ 
یہ اعلان بجائے خود کامیڈی کا درجہ رکھتا ہے۔ جب امریکا کے ایک لاکھ سے زائد فوجی افغان سرزمین پر تعینات تھے اور بھرپور وار مشین بھی وہاں موجود تھی تب طالبان کو کنٹرول کرنا ممکن نہ تھا تو اب محض دس بارہ ہزار امریکی فوجی کون سا تیر مار لیں گے؟ اور اتحادی بھی مزید نفری کی کمٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں۔ طالبان نے امریکا، یورپ اور دیگر خطوں کے فوجیوں کی پندرہ سال تک دُھنائی کی ہے اور ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اور اِدھر محترم ٹرمپ ہیں کہ سادہ لوحی کے جُھولے سے اُترنے کو تیار نہیں! ایک دنیا کہتے کہتے تھک چکی ہے کہ طالبان کو رام کرنا ہے تو مذاکرات کی میز پر لاؤ اور اپنا بناؤ۔ طاقت کا آپشن کم و بیش 16 سال تک آزمایا گیا ہے۔ اور اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔ ہوں گے بھی کیسے؟ جن طالبان کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی ہے اُنہیں ایسے نوجوان بڑی تعداد میں میسر آتے رہتے ہیں جو اپنے شہید بزرگوں اور اہل خانہ کا انتقام لینے کے لیے میدان میں آنے اور دشمن کو نشانہ بنانے کے لیے جان کی بازی لگانے کو بے تاب ہیں! 
امریکا کے لیے طالبان اِس وقت زیادہ بڑا دردِ سر نہیں۔ اصل مسئلہ چین کا ہے جو تیزی سے پورے خطے کو اپنے آغوش میں لے رہا ہے۔ یہ بدلتی ہوئی صورتِ حال امریکا اور یورپ کے لیے پریشان کن ہے اور بھارت کے لیے کچھ زیادہ ہی پریشان کن ہے کیونکہ وہ خطے کا چوہدری بننے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ یہ خواب چکناچور ہونے کی منزل تک پہنچ گیا ہے۔ ایسے میں اُس نے امریکا کو آواز دی ہے کہ آؤ، دیکھو مجھ پر کیا بیت رہی ہے اور دیکھنے تک محدود نہ رہو، مجھے سنکٹ سے نکالنے کا کچھ اُپائے بھی کرو! 
پتا نہیں وہ کون سے مشیر ہیں جو صدر ٹرمپ کو افغانستان کی دلدل میں اُتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِس وقت طالبان سے مذاکرات کی ضرورت ہے۔ ساکھ اور انا دونوں ہی کو ایک طرف ہٹاکر امریکا کو صرف اِس نکتے پر دھیان دینا چاہیے کہ افغانستان سے جان کس طور چُھوٹ سکتی ہے۔ وہاں مزید امریکی فوجیوں کو الجھانا کسی بھی اعتبار سے دانش ہے نہ دانش کا تقاضا۔ کیا اِس وقت واشنگٹن میں کوئی ایسا صاحبِ عقل نہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھائے کہ افغانستان کا معاملہ بہت مختلف ہے؟ ایک سپر پاور افغانستان کی دلدل میں ایسی دھنسی کہ باہر ہی نہ آسکی اور دوسری بھی کچھ ایسے ہی انجام سے دوچاردکھائی دے رہی ہے۔ یہ تو جادو نگری ہے۔ چھوٹے موٹے منتر یہاں نہیں چلتے اور اس طلسمات میں وہی چل سکتا ہے جو اِدھر اُدھر نہ دیکھے، بس راستے پر نظر رکھے۔ ع 
مُڑ کے دیکھوگے تو ہو جاؤگے تم پتّھر کے! 
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئی حکمتِ عملی کے اعلان پر طالبان نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے اُس میں ''آدم بُو‘‘ کا تاثر زیادہ ہے! ایسا لگتا ہے جیسے طالبان تازہ دم بیٹھے ہیں اور امریکا کی کسی بھی نئی مہم جُوئی کا منہ توڑ جواب دینے کی خاصی تیاری کرچکے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو صدر ٹرمپ کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ ساتھ ہی ساتھ غیر جانب دار مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکیوں کو اندازہ ہی نہیں کہ روس بھی تیاری کرکے بیٹھا ہے۔ اُس نے طالبان کو ہتھیاروں اور دیگر عسکری ساز و سامان کے حوالے سے خود کفیل رکھنے کا عہد کر رکھا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ افغانستان سے امریکیوں کو بھاگنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے! چین جو کچھ کر رہا ہے اُس کا براہِ راست مقصد یہ نہ سہی مگر نتائج کے اعتبار سے تو وہی کچھ دکھائی دے رہا ہے جو امریکی پالیسی میکرز کو مزید پریشانی سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایک طرف تو یار لوگ اونٹ کو پہاڑ کے نیچے لانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف خود اونٹ بھی پہاڑ کو دل دے بیٹھا ہے اور اُس کے نیچے آنے کو بے تاب و بے قرار ہے! گویا ع 
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی 
چین کو اُبھرتا ہوا دیکھ کر اور بھارت جیسے پُرانی حلیف (یعنی حاشیہ بردار) کے قدم اُکھڑنے سے روکنے کے لیے امریکا پر کچھ نہ کچھ کرنے کی ذمہ داری تو لازمی طور پر عائد ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ پاکستان کو ڈرانے دھمکانے سمیت ہر آپشن بروئے کار لانے کے لیے بے تاب ہے۔ پاکستان کے لیے اب صرف ایک ہی آپشن رہ گیا ہے ... چین، روس، ترکی اور دیگر ممالک پشت پناہی پر آمادہ ہیں تو ہمت دکھائی جائے یعنی امریکا کے آگے زانو تہہ کرنے کے بجائے سینہ تان کر کھڑا ہوا جائے اور کہہ دیا جائے کہ ڈرنے کا زمانہ گزر گیا۔ موت سے پہلے بھی کچھ ہے جو انسان کو مار ڈالتا ہے اور وہ ہے خوف۔ اِسی لیے تو کہا گیا ہے کہ جو ڈر گیا سمجھو مرگیا۔ موت کا ایک دن معین ہے مگر اِس سے پہلے جو چیز موت کا اہتمام کرتی ہے وہ خوف ہے۔ امریکا دھمکیاں دے کر خوفزدہ کرنا چاہتا ہے اور اب ہمیں طے کرلینا ہے کہ خوف نہیںکھانا ہے۔ اگر ہم ڈر کر پھر امریکا کے ہوجائیں تو؟ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بارہا ایسا کرکے سنگین نتائج نہیں بھگتے؟ آنکھوں دیکھی مکھی کتنی بار نِگلی جائے گی؟ کوئی حد تو ہونی ہی چاہیے۔ وہ حد آچکی ہے۔ ڈرنے اور مرنے سے پہلے ہمیں بھرپور انداز سے جینے کا آپشن بھی تو آزمانا چاہیے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں