انسانی حقوق کی چیمپئن آنگ سانگ سوچی پر دنیا بھر سے لعن طعن ہوئی ہے۔ کیوں نہ ہوتی؟ میانمار (برما) کے صوبے رکھائن میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے رہے اور دنیا بھر میں اِن مظالم پر وقتاً فوقتاً آواز اٹھائی جاتی رہی مگر آنگ سانگ سوچی کے ہونٹوں پر چپ کی مہر لگی رہی۔ انسانیت کی علم بردار ہونے کی دعویدار اِس عورت نے شاید قسم کھا رکھی تھی کہ روہنگیا مسلمانوں کے حق میں کچھ بھی بول کر اپنی ''ساکھ‘‘ داؤ پر نہیں لگائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آج دنیا بھر کے انسان دوست حلقے آنگ سانگ سوچی پر شدید نکتہ چینی کر رہے ہیں اور یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ بالکل واضح انسانیت سوز مظالم رونما ہوتے دیکھ کر بھی چپ رہنے کی پاداش میں آنگ سانگ سوچی سے امن کا نوبیل انعام واپس لے لیا جائے! سوال صرف مسلم دنیا کا نہیں، بیرونی دنیا بھی آنگ سانگ سوچی کی طرز عمل سے شرمسار ہے۔ اور پھر رہی سہی کسر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پوری کردی۔ جب دنیا بھر میں روہنگیا مسلمانوں کے حالِ زار کی بات ہو رہی تھی تب مودی نے آنگ سانگ سُوچی سے اظہارِ ہم آہنگی کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی بھرپور کوشش کی۔
انسانی حقوق کے پاسدار اور علم بردار حلقے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھ کر لرز اٹھے اور کھل کر ان کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔ مغرب کے بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ بی بی سی اور دیگر بڑے اداروں نے میانمار حکومت کو آئینہ دکھانے اور اُس کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
سوال یہ ہے کہ میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں اس قدر پتھر دل کیوں ہے؟ کیا یہ محض اس کا اندرونی مسئلہ ہے یا کچھ اور کہانی بھی ہے؟ میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کی نسلی تطہیر پر کیوں تُلی ہوئی ہے؟ کہنے کو تو یہ معاملہ سیدھا سا ہے کہ روہنگیا مسلمان، پھیلی ہوئی روایات کے مطابق، اُس سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں جو اب بنگلہ دیش کا حصہ ہے۔ یہ لوگ میانمار میں صدیوں سے آباد ضرور ہیں مگر اِنہیں وہاں کبھی مکمل طور پر قبول نہیں کیا گیا۔ اُن کے خلاف ہمیشہ کوئی نہ کوئی محاذ کھڑا کیا ہی جاتا رہا ہے۔ اب معاملہ غیر معمولی یا فیصلہ کن شدت اختیار کرگیا ہے۔ پانچ کروڑ کی آبادی میں محض سات آٹھ لاکھ افراد کو ایڈجسٹ کرنا کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں۔ اور پھر روہنگیا مسلمان دو تین عشرے پہلے وہاں نہیں پہنچے۔ معاملہ صدیوں سے سکونت پذیر ہونے کا ہے۔ ایسے میں ذہنوں میں اِس سوال کا ابھرنا لازم ہے کہ آخر میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کے معاملے کو اِس قدر خرابی کی جڑ کیوں بنا رہی ہے؟
غور کیجیے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ مغربی قوتوں نے اس معاملے میں کوئی کردار ادا کیا ہو۔ تاریخ کے آئینے میں دیکھیے تو مشرق بعید واحد خطہ ہے جہاں مسلمانوں کا کسی بھی نسل سے کوئی باضابطہ تصادم نہیں ہوا، کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی گئی۔ مشرق بعید کی یعنی چپٹی ناک والی نسل سے مسلمانوں کی محاذ آرائی کی کوئی ایسی تاریخ نہیں جو دونوں کے درمیان شدید مخاصمت کی بنیاد بن سکتی ہو۔ یہ تو ہوئی نسل کی بات۔ اب آئیے عقائد کی طرف۔ مشرق بعید کا خطہ بدھ ازم کے ماننے والوں کی اکثریت پر مشتمل ہے۔ میانمار، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، لاؤس، ویتنام اور چین میں بدھ ازم کے پیروکاروں کی بڑی تعداد ہے۔ یہ لوگ مجموعی طور پر اسلام اور مسلمانوں کو شدید مخاصمت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ ایسے میں ذہن اِس طرف جاتا ہے کہ مغرب کے سازشی عناصر میانمار حکومت کے ذریعے کچھ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں مسلمان اور بدھسٹ ایک دوسرے کو شدید نفرت کی نظر سے دیکھیں اور معاملات زیادہ سے زیادہ خرابی کی طرف جائیں۔
میانمار حکومت جو کچھ کر رہی ہے اُس کے نتیجے میں روہنگیا اور علاقے کی دوسری نسلوں کے مسلمانوں میں شدت پسندی ابھر سکتی ہے۔ اگر میانمار کی حدود ہی میں کوئی ایسا گروپ کھڑا ہوگیا جس نے بدھسٹوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو پورے خطے کے بدھسٹ ایسی کسی بھی بات سے بے مزا ہوں گے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں کے بارے میں شدید مخاصمانہ انداز سے سوچتے ہو جائیں گے!
اس وقت عالم اسلام کو مغرب اور دیگر خطوں سے مخاصمت کا سامنا ہے۔ مغرب ہی نے دیگر بہت سے خطوں کو بھی مسلمانوں سے متنفر رکھنے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ مشرق بعید میں چین اور جاپان سب سے بڑی طاقت ہیں۔ ان دونوں قوتوں سے موثر انداز میں رابطہ کرکے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی جاسکتی ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں سے جو انسانیت سوز سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ پورے خطے کے مسلمانوں میں میانمار کے عوام سے شدید نفرت کے بیج بھی بوسکتا ہے۔ یہ بات صرف میانمار حکومت سے کرنے کی نہیں، چین اور دیگر بڑی علاقائی قوتوں کو بھی اعتماد میں لے کر معاملات کو درست کرنے کی سبیل نکالی جانی چاہیے۔ چین ابھر رہا ہے۔ وہ دیگر خطوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے کسی گروپ کو بدھسٹوں کے مقابل کھڑا کرنے اور انتقامی سرگرمیوں میں الجھانے سے پورا خطہ خاک اور خون کی نذر ہو رہے گا۔ معاملہ نازک ہے۔ امریکا اور اس کے ہم خیال مغربی ممالک کبھی نہیں چاہیں گے کہ مشرق بعید میں مسلمانوں کو قبولیت کی نظر سے دیکھا جاتا رہے۔ ان کی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ قتل و غارت کا کوئی ایسا سلسلہ شروع کیا جائے جو پورے خطے کو اپنے اثرات کی لپیٹ میں لے۔ میانمار حکومت کی مسلم دشمنی نے اُن کا کام خاصا آسان کردیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کیا کرسکتا ہے؟ چین سے بہت اچھے مراسم ہونے کے ناطے وہاں کی قیادت کے گوش گزار یہ نکتہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ میانمار حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں لگام دے کر کوئی نیا محاذ کھولنے سے باز رکھا جائے۔ جن کی نسلی تطہیر کی جارہی ہو وہ جب انتقام لینے پر بضد ہوتے ہیں تو کسی کے روکے نہیں رکتے۔ اگر روہنگیا مسلمانوں میں کوئی ایسا گروپ کھڑا ہوگیا اور فلپائن و دیگر ممالک کے علٰیحدگی پسند گروپ بھی اس کے ساتھ ہولیے تو پورے خطے میں عدم استحکام کی فضاء پیدا ہوگی۔ ایسا کوئی بھی منظر نامہ بظاہر مغربی طاقتوں کی شدید خواہش کا عکس ہوگا۔ پاکستان، ترکی اور عرب دنیا کے سرکردہ ممالک کو مل کر چین، جاپان اور بدھ ازم کے علم بردار دیگر ممالک سے ٹھوس اور بامعنی انداز سے بات کرنی چاہیے تاکہ خطے کی تاریخ میں مسلم و بدھسٹ محاذ آرائی کا باب شروع کرنے کی کوششوں پر خطِ تنسیخ پھیرا جاسکے۔ یہ گزارشات محض اندازے کی بنیاد پر پیش نہیں کی جارہیں۔ مغربی طاقتیں چین سمیت پورے مشرق بعید کو کسی بڑے مناقشے کی نذر کرنا چاہتی ہیں۔ سنکیانگ میں مسلم علٰٰیحدگی پسند عناسر کی موجودگی کو بھی مغربی طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی آرہی ہیں۔ ایسے میں میانمار حکومت اُنہیں ایک اور سنہرا موقع عطا کر رہی ہے۔ اِس موقع سے فائدہ اٹھانے سے بھلا وہ کیوں چُوکیں گی؟ ایسے میں مسلم دنیا کے سرکردہ ممالک کو آگے بڑھ کر معاملات کی درستی پر خاطر خواہ توجہ دینا ہوگی۔