زمانے کی روش کچھ اِس نوعیت کی ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ پریشانی اور الجھن کا شکار ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب گھر کی پریشانیاں بڑھ جاتی تھیں اور کوئی راہ نہ سُوجھتی تھی تو لوگ تمام الجھنیں اور پریشانیاں دور کرنے کے لیے شادی کے بارے میں سوچتے تھے اور واقعی ایسا ہو بھی جاتا تھا یعنی شادی کرنے سے زندگی کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے تھے۔ مگر اب خیر سے عالم یہ ہے کہ جس کی زندگی میں سکون ہو اور کہیں سے کوئی گڑبڑ زندگی میں داخل ہی نہ ہو پارہی ہو تو وہ شادی کرلے! یہ ایک کام کیا اور سمجھ لیجیے گئے کام سے!
اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ اب تک جن کی زندگی میں تھوڑا بہت سکون ہے وہ دراصل گھر بسانے سے بچے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی گھر بستا ہے، بہت کچھ یوں اجڑ جاتا ہے کہ پھر بسنے کا نام نہیں لیتا۔ اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو ہم آپ کو ڈرا نہیں رہے، خبردار کر رہے ہیں۔ اور ہم کیا آپ کو ڈرائیں گے، یہ لڈو تو ہم نے کھا رکھا ہے!
گزرے ہوئے ادوار میں ماں باپ اٹھارہ بیس کی عمر کے لڑکوں کی بھی شادی کرادیتے تھے مگر اب لڑکوں کو کچھ عقل آگئی ہے اور وہ ہلّا گُلّا کرنے کے زمانے کو شادی کے جھمیلوں کی نذر کرنے سے گریز کرتے رہتے ہیں یعنی شادی کا فیصلہ کم و بیش بتیس سال کی عمر تک موخر کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی عمومی سوچ یہ ہے کہ پریشانیوں کو زندگی کا حصہ بننا ہی ہے تو شوق سے بنیں مگر یہ کام جس قدر تاخیر سے ہو اُسی قدر اچھا ہے!
مرزا تنقید بیگ اِس معاملے میں بھی اپنی الگ سوچ رکھتے ہیں۔ شادی کے نام پر ایک بڑا جھمیلا اُنہوں نے بھی پال رکھا ہے مگر دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں! وہ کتنے خوش ہیں یہ تو اُن کے معمولات سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ہم پر اُن کا پورا حال ظاہر ہے مگر وہ ہمارے سامنے بھی اداکاری سے باز نہیں آتے۔ اور اگر یہ بات اُن کے گوش گزار کیجیے تو وہ مزید اداکاری پر تُل جاتے ہیں!
تین دن قبل بات کچھ ایسی ہوگئی کہ ہمارے لیے مرزا کے پاس جانا ناگزیر ہوگیا۔ بھارت کے شہر بنگلور میں اکتالیس سالہ چدہاتما باسو نے چوہیا سے شادی کرلی! معاملہ یہ تھا کہ باسو کی بیوی سڑک کے ایک حادثے میں انتقال کرگئی تھی۔ ایک دن اُس کے سامنے ایک چوہیا آگئی اور اُسے گھورنے لگی۔ باسو کو ایسا محسوس ہوا جیسے چوہیا کی شکل میں اُس کی بیوی نے دوسرا جنم لیا ہے! اس کا کہنا ہے کہ چوہیا کی آنکھیں اور ناک اُس کی بیوی کی ناک اور آنکھوں سے مشابہ ہیں۔ اور وہ دیکھتی بھی اُسی طرح ہے جس طرح اُس کی بیوی دیکھا کرتی تھی۔ باسو نے چوہیا میں بیوی کی جھلک دیکھ کر اُس سے شادی کا فیصلہ کیا۔ لوگوں نے اُسے ایسی حماقت سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا۔ اُس کا کہنا تھا کہ بھارتی قانون بھی اُسے اِس شادی سے نہیں روکتا۔ اور یوں اُس نے چوہیا کو شریکِ حیات بنالیا۔
یہ خبر چھپی تو ہم نے سوچا چلیے، مرزا کے ہاں چلتے ہیں۔ ملاقات کیے بھی کافی دن ہوگئے تھے اور ایسی خبروں پر تبصرہ کرتے وقت مرزا طبع کی جولانیاں بھی خوب دکھاتے ہیں۔ ایک بھرپور ملاقات کی خواہش اور امید دل کے دامن میں سموئے ہم مرزا کے گھر پہنچے۔ وہ حسبِ اندازہ گھر پر تھے اور گھر میں سے چند ایک ایسی آوازیں بھی آرہی تھیں جن سے اُن کی ''خوش و خرّم‘‘ گھریلو زندگی کا تھوڑا بہت اندازہ ضرور لگایا جاسکتا تھا!
ہم نے دستک دی تو مرزا نے دروازہ کھولا۔ خاصے بِھنّائے ہوئے لگ رہے تھے مگر ہمیں دیکھ کر انتہائی کامیاب اداکاری کرتے ہوئے رومانی فلموں کے ہیرو کی طرح ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ سجائی جس نے دم بھر میں پھیل کر پورے چہرے کو اپنی ''گرفت‘‘ میں لے لیا۔ ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھاکر وہ اندر گئے تاکہ چائے وغیرہ کے اہتمام کی گزارش کرسکیں! چند ایک ایسی آوازیں اُبھریں جن سے ہم نے اندازہ لگایا کہ اہلِ خانہ سرکاری اداروں کی کارکردگی پر شدید ناراضی کا اظہار کرنے والے ججوں کی طرح برہمی کا اظہار کر رہے ہیں! گھریلو عدالت کے چند ریمارکس کی بِھنک ہمارے کانوں میں بھی پڑی مگر مرزا ڈرائنگ روم میں واپس آگئے تو اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ برقرار تھی۔ یہ ہے ''کامیاب‘‘ گھریلو زندگی کا کُھلا راز!
جب ہم نے مرزا کو بتایا کہ بھارت میں ایک شخص نے چوہیا سے شادی کرلی ہے تو اُن کی رگِ ظرافت ایسی پھڑکی کہ رگِ خباثت میں تبدیل ہوتی ہوئی دکھائی دی! گھریلو زندگی کے وسیع تجربے کی روشنی میں اُنہوں نے کہا ''دیکھو بھائی، یہ شادی حقیقت پسندی کی روشن دلیل ہے۔ تم نے ایک مشہور لطیفہ تو سُنا ہی ہوگا۔ جنگل میں شیروں کے ہاں شادی ہو رہی تھی۔ دور دور سے شیر آکر شامیانے میں جمع ہو رہے تھے۔ ایک چوہا بھی شامیانے میں جانے لگا۔ دربان نے روک کر کہا کہ آپ کہاں چلے۔ چوہا بولا مجھے پہچانو، شادی سے پہلے میں بھی شیر ہی تھا! یہ بھی کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ شادی وہ جادو ہے جو اچھے اچھے شیر خاں کو بھی چوہے میاں میں تبدیل کردیتا ہے۔ بڑے بڑے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ اگر باسو کا بھی حشر نشر ہوا ہے تو حیرت کی بات کی ہے؟‘‘
ہم نے عرض کیا کہ شادی کے ہاتھوں جو حشر ہوتا ہے وہ اپنی جگہ مگر چوہیا سے شادی کرنے میں کیا منطق ہے؟
مرزا بولے ''تم نے پڑھا نہیںکہ چوہیا اُسے اُسی طرح پیار سے دیکھتی ہے جس طرح اُس کی بیوی دیکھا کرتی تھی۔ کیوں نہ دیکھے؟ گھریلو زندگی کے ہاتھوں شیر بھی چوہے بن جاتے ہیں۔ اچھے خاصے وسیع و عریض گھر میں بھی شادی شدہ آدمی کونوں کھدروں میں پڑا ملتا ہے گویا بل میں رہنے کی پریکٹس کر رہا ہو! باسو پہلی بیوی کے ہاتھوں چوہا بن چکا ہے۔ اب تو ہر چوہیا اُسے پیار ہی سے دیکھے گی! شریکِ حیات بن جانے والی چوہیا کو البتہ اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ باسو کسی اور چوہیا میں بھی پہلی بیوی کو تلاش نہ کرے! اگر ایسا ہوا تو گھریلو زندگی کے مینا بازار کو چوہا بازار بننے سے کوئی نہ روک سکے گا! اور باسو یہ کہنا بھی حماقت کی دلیل ہے کہ بھارتی قانون اُسے چوہیا سے شادی کرنے سے نہیں روکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا کوئی بھی قانون کسی بھی شہری کو کسی بھی حماقت سے نہیں روکتا! یہی سبب ہے کہ عجیب و غریب حرکتوں پر مبنی واقعات کی بیشتر خبریں بھارت ہی سے آتی ہیں۔‘‘
باسو نے جو کچھ کیا وہ کم لوگ ہی کرتے ہیں۔ ایسی خبریں معاشرے میں خاصا بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔ تیس بتیس سال کے جو ''لڑکے‘‘ شادی شدہ لوگوں کے انجام سے عبرت پکڑنے کی راہ پر گامزن ہوں وہ ایسی خبروں سے اور ڈر جاتے ہیں۔ کوئی بھی شیر اگر شادی کے بعد طُرّم خانی ترک کرتے ہوئے چوہا بنے رہنے پر رضامند ہو بھی جائے تو کچھ حیرت کی بات نہیں مگر وہ دوسروں کو خوفزدہ کرنے سے تو باز رہے!