"MIK" (space) message & send to 7575

آپ سمجھیں یا خُدا سمجھے!

ایک صاحب اپنے بچے کو نفسیات کے ایک ماہر کے پاس لے گئے۔ وہ اس بات سے بے حد پریشان تھے کہ بچہ دن رات کچھ نہ کچھ بولتا ہی رہتا ہے۔ بات سے بات نکالتا چلا جاتا ہے اور آن کی آن میں فریقِ ثانی کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس عادت نے والدین کو عجیب الجھن میں ڈال رکھا تھا۔ کہاں تو والدین اس غم میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کے بچے کا دماغ نہیں چلتا اور یہاں والدین کو یہ فکر لاحق تھی کہ کہیں بچے کا دماغ تو نہیں چل گیا!
ماہر نفسیات نے بچے کے والد سے اُن کی رام کہانی سُنی تو پوچھا ''اس میں پریشان ہونے والی بات کون سی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ قدرت نے آپ کے بچے کو ٹی وی اینکر یا تجزیہ کار بنانے کا فیصلہ کیا ہو!‘‘وہ صاحب سوچ میں پڑگئے۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ماہر نفسیات کے بیان کردہ امکان یا پیش گوئی کو نوید سمجھیں یا وعید! چند لمحات تک خیالات میں غلطاں رہنے کے بعد انہوں نے بات آگے بڑھائی ''مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ فریقِ ثانی کو چُپ کرا دیتا ہے۔ اگر یہ اچھی بات ہے تو گھریلو زندگی شروع کرنے پر اُس کے کام آئے گی اور اگر بُری ہے تو خود بخود دم توڑ دے گی! اصل مسئلہ اِس سے کچھ آگے کا ہے۔‘‘ 
ماہر نفسیات نے کہا ''کھل کر بیان کیجیے کون سی بات آپ کو پریشان کر رہی ہے۔‘‘ 
بچے کے والد نے کہا ''نکتہ سنجی کے حوالے سے اپنے ہم عمر بچوں میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ ہر بات خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ لفّاظی کا دریا بہاتا ہے۔ جو بات محض پندرہ الفاظ میں بیان ہوسکتی ہے اُسے یہ دو ڈھائی سو الفاظ میں بھی بیان کر سکتا ہے۔ اور سُننے والے کی دلچسپی بھی برقرار رہتی ہے۔‘‘
اب تو ماہر نفسیات کا بھی ماتھا ٹھنکا۔ اُس نے تھوڑے سے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھا ''اگر لمبی بات کرنے پر سُننے والوں کی دلچسپی برقرار رہتی ہے تو پھر اِس میں اس قدر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ مسئلہ آخر ہے کیا؟ بچے کا ذخیرۂ الفاظ بھی خوب ہے۔ بولنا بھی جانتا ہے۔ یہ سب تو خوبیاں ہیں۔ پھر آپ کیوں بے جا فکروں سے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں؟‘‘وہ صاحب تھوڑے سنبھلے اور بکھرے ہوئے خیالات کو جمع کرنے کے بعد بتایا ''بات یہ ہے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے وہ زبان کی سطح پر کسی بھی اعتبار سے مبہم نہیں ہوتا۔ ایک ایک لفظ صاف سنائی دیتا ہے اور اس کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے مگر اس کے باوجود بات سمجھ میں نہیں آتی۔ جو کچھ یہ کہنا چاہتا ہے اُس کا سِرا ہاتھ نہیں آتا!‘‘
ماہر نفسیات یہ سن کر چونکتے ہوئے تقریباً اچھل پڑا۔ ''بچہ کوئی اجنبی زبان تو بولتا نہیں۔ مادری زبان میں خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ ایک ایک لفظ عمدگی سے ادا کرتا ہے۔ ہر لفظ سمجھ میں آتا ہے۔ مگر ہاں، بات سمجھ میں نہیں آتی! اب بات سمجھ میں آئی۔ یہ پریشانی کی بات نہیں بلکہ جشن منانے کی گھڑی ہے۔‘‘
''جشن منانے کی گھڑی؟‘‘ اُن صاحب نے حیران ہوتے ہوئے استفسار کیا۔ ''مگر وہ کیوں؟ ہم تو الجھے ہوئے ہیں اور آپ جشن منانے کی بات کر رہے ہیں!‘‘
ماہر نفسیات نے خاصے پرجوش لہجے میں بتایا ''آپ نے بچے کی گفتگو کے حوالے سے جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ بالکل واضح اشارا کرتی ہیں کہ آپ کا بچہ بڑا ہوکر کامیاب سفارت کار بنے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ دفتر خارجہ کا ترجمان بن جائے! بس تھوڑی سی احتیاط برتیے گا۔ اگر آپ کی آنکھ جھپکی اور توجہ ہٹی تو تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی اِسے چینلز والے لے اڑیں گے!‘‘
سفارت کاری کے اپنے تقاضے ہیں اور خاصے غیر لچک دار ہیں۔ ایک بنیادی تقاضا تو یہ ہے کہ ہر طرف Look busy, do nothing کا ماحول بنا رہے یعنی یہ محسوس ہو کہ بہت کچھ ہو رہا ہے جبکہ در حقیقت کچھ بھی نہیں ہو رہا ہوتا۔ سفارت کاری کے میدان میں مجموعی ماحول کچھ ایسا رکھا جاتا ہے جیسے ایک دنیا اِدھر سے اُدھر ہو رہی ہے، کئی انقلابات برپا ہو رہے ہیں مگر در حقیقت معاملات ٹس سے مس بھی نہیں ہو رہے ہوتے۔
ویسے تو اور بھی بہت سے کام لیے جا سکتے ہیں مگر دنیا بھر میں سفارت کاری سے بنیادی طور پر آنکھوں میں دھول جھونکنے ہی کا کام لیا جا رہا ہے۔ جن ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہو وہ اِس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ عوام ایک خاص کیفیت سے دوچار رہیں۔ قدم قدم پر ایسے معاملات دکھائی دیتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب کچھ آن کی آن میں تبدیل ہو جائے گا جبکہ معاملات ہیں کہ عشروں میں بھی تبدیل نہیں ہوتے!
جزیرہ نما کوریا کا معاملہ انتہائی واضح مثال کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ مغربی طاقتوں نے جزیرہ نما کوریا کو جنوب اور شمال میں تقسیم کرکے وہاں ایسی کشیدگی پیدا کر رکھی ہے جو گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے۔ سب کچھ standstill کی حالت میں ہے۔ جزیرہ نما کوریا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کا بنیادی مقصد اس خطے میں کشیدگی برقرار رکھ کر ایک طرف تو سکیورٹی کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنانا اور دوسری طرف معاشی ماحول کو بھی مکدّر رکھنا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ خطے کے بڑے ممالک عالمی سطح پر کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے قابل نہ ہو سکیں۔ چین کے لیے یہ صورتِ حال ہمیشہ پریشان کن ثابت ہوتی رہی ہے۔ 
بیک ڈور ڈپلومیسی کے بارے میں تو آپ نے بھی سنا ہی ہوگا۔ جب دو ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے تو چند سابق‘ اعلیٰ اور تجربہ کار سفارت کار کمر کس کر میدان میں آتے ہیں اور کچھ کر دکھانے کی کوشش میں چپکے چپکے ملتے ہیں۔ یہ سب کچھ ''بند ہو مٹھی تو لاکھ کی، کھل گئی تو خاک کی‘‘ کے اصول کی بنیاد پر ہو رہا ہوتا ہے۔ آنیاں جانیاں لگتی رہتی ہیں اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایسا بہت کچھ کیا جا رہا ہے جو بہت کچھ تبدیل کرکے دم لے گا۔ مگر آخر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی سرگرمیاں لہو گرم رکھنے کے دل کش بہانے سے زیادہ کچھ نہ تھیں! ؎ 
آج اے دل لب و رخسار کی باتیں ہی سہی
وقت کٹ جائے گا کچھ پیار کی باتیں ہی سہی
خیر سے زمانہ اب اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کی کچھ خاص ضرورت نہیں رہی۔ فرنٹ ڈور ڈپلومیسی ہی اب سات پردوں میں لپٹی ہوئی ہے اور ہر معاملہ اتنے ڈھکے چھپے انداز سے نمٹانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سبھی کچھ چور دروازے سے باہر جاتا یا اندر آتا دکھائی دینے لگتا ہے! گویا ع
صاف چُھپتے بھی نہیںِ، سامنے آتے بھی نہیں! 
فی زمانہ کسی بھی ملک میں معاملات کو ٹالتے رہنے کے لیے ایک اچھا طریقہ یہ اپنایا گیا ہے کہ کمیٹی بناکر معاملہ اُس کے حوالے کردیجیے۔ بین الریاستی یا بین المملکتی معاملات میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اندرونی سطح پر کسی بھی معاملے کو ہوا نکالے ہوئے غبارے جیسا بنانے کے لیے جو کچھ کمیٹی یا کمیٹیاں کرتی ہیں وہی کچھ بیرونی سطح پر سفارت کاری کرتی ہے۔ اگر کسی معاملے کی گرد بٹھانی ہو تو ٹھیک ٹھاک گرد اڑائی جاتی ہے! بہت کچھ بولا اور سُنا جارہا ہوتا ہے مگر بولی اور سُنی جانے والی ہر بات کا مُدعا عنقا ہوتا ہے۔ ؎ 
کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے 
مگر اِن کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خُدا سمجھے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں