گھر کی مرغی دال برابر۔ کوئی شک؟ نہیں، کوئی شک نہیں۔ ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ہم اچھے ہیں یا برے ہیں، جو ہیں‘ بس وہی ہیں۔ ہم میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ دنیا کا ہر انسان ایسا ہی ہے اور ہر قوم بھی ایسی ہی واقع ہوئی ہے۔ جینے کا لطف اس وقت ہے جب ہم اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کو قبول کرتے ہوئے بہتر زندگی کی طرف سفر جاری رکھیں۔ مگر افسوس کہ حقیقت اِس سے بہت مختلف ہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ جیسا جس نے کہا ویسا ہم نے محض سُنا ہی نہیں، مان بھی لیا۔ ہمارے ''شعور‘‘ کا عمومی معیار یہی ہے۔ ایک زمانے سے امریکا، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ خطوں اور ممالک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا آؤٹ لیٹس ہمارے بارے میں پتا نہیں کیا کیا ہرزہ سرائی کر رہے ہیں اور ہم ان کی ہر بات قبول کرتے جا رہے ہیں۔ اور اِس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ جب کبھی مغربی میڈیا میں ہمارے حوالے سے کوئی انتہائی منفی بات کی جاتی ہے ہم اُسے خوب اچھی طرح، سجاکر پیش کرتے ہیں تاکہ رہی سہی کسر بھی یوں پوری ہو کہ کسی کے دل میں کوئی حسرت نہ رہے۔ پاکستان کا امیج گندا کرنے کا کوئی موقع مغربی میڈیا آؤٹ لیٹس جانے نہیں دیتے اور ہم اُن کے بیان کردہ حوصلہ شکن ریمارکس کو خاصی عقیدت مندی کے ساتھ پیش کرکے اُن کا کام مزید آسان کردیتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ ''سہولت کار‘‘ اور ''دونوں طرف کھیلنے والے‘‘ کا لیبل ہم پر یونہی تو چسپاں نہیں کر دیا گیا!
ایک زمانے سے امریکی محکمہ خارجہ سالانہ بنیاد پر انسانی حقوق کی صورتِ حال کا جائزہ پیش کرتا ہے۔ یہ بجائے خود ایک لطیفہ ہے۔ امریکا ... اور انسانی حقوق کا جائزہ؟ اس سالانہ رپورٹ کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے کہ کون امریکا کے لیے پسندیدہ اور قابل قبول ہے اور کون یکسر ناقابل قبول۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس رپورٹ کو خاصے خشوع و خضوع کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے، چوما چاٹا جاتا ہے، آنکھوں سے لگایا جاتا ہے، ماتھے چڑھایا جاتا ہے۔ باقی دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آخر امریکا کون ہوتا ہے انسانی حقوق کے حوالے سے ہمارے ریکارڈ کو درست یا نا درست قرار دینے والا؟
مغرب کے کئی بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس جو کچھ کہتے ہیں اُسے ہمارے ہاں صدقِ دل سے قبول تو کرلیا جاتا ہے، مندرجات کے مقاصد پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ ''بڑوں کی ہر بات بڑی‘‘ کے مصداق جو کچھ مغرب کے ادارے کہیں وہ درست تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ غلامانہ ذہنیت اور کیا ہوتی ہے؟
پاکستان ایک مدت سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دنیا بھر کے دہشت گردوں نے یہاں ٹھکانے بنائے، حالات خراب کیے اور پھر اپنی اپنی راہ لی۔ بیرونی خفیہ اداروں نے پاکستان میں اپنے حاشیہ بردار اور سہولت کار پیدا کیے اور پھر اُن کی مدد سے یہاں اپنی مرضی کا کھیل کھیلا۔ جب جی بھرگیا تو بساط لپیٹی اور چل دیئے۔ نتائج بھگتنے کو ہم رہ گئے۔ پوری دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ امریکا اور یورپ شیر خوار تو ہیں نہیں کہ کسی بات کو سمجھ نہ سکیں۔ اور ان سے نہ سمجھنے کا شِکوہ کیونکر کیا جاسکتا ہے کہ یہ کھیل بہت حد تک انہی انہیں کا رچایا ہوا ہے اور اُنہی کی ایما پر کھیلا بھی جا رہا ہے۔
برطانیہ کا معروف جریدہ دی اکانومسٹ شائع کرنے والے دی اکانومسٹ گروپ کے شعبۂ تحقیق و تجزیہ ''دی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘ نے دنیا کے محفوظ ترین شہروں کی رینکنگ جاری کی ہے۔ رینکنگ کی تیاری میں مختلف عوامل کا جائزہ لیا گیا۔ منظم جرائم، سٹریٹ کرائمز اور دہشت گردی کے علاوہ ٹریفک حادثات وغیرہ کو بھی ذہن نشین رکھا گیا۔ دی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے 60 محفوظ ترین شہروں کی فہرست میں کراچی کو آخری یعنی ساٹھویں نمبر پر رکھا ہے یعنی رینکنگ کے اعتبار سے خطرناک ترین شہر!
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا اور میانمار (برما) کے دارالحکومت رنگون کو ہمارے مقابلے میں یہ ''اعزاز‘‘ بخشا گیا ہے کہ وہ اس رینکنگ میں بالترتیب 58 ویں اور 59 ویں نمبر پر ہیں! دی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے 60 محفوظ ترین شہروں کی فہرست میں پاکستان کا کوئی شہر پہلی بار شامل کیا ہے۔
ہمارے ہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے یہی سوچ کر بغلیں بجانے پر اکتفا کیا کہ چلیے، ہم محفوظ ترین شہروں کی فہرست میں شامل تو کیے گئے! گویا ع
یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے!
ہم‘ ہم ہیں، اپنی ترجیحات کا ہم سے بڑھ کر کسے اندازہ ہو سکتا ہے اور ہم سے بڑھ کر کون طے کرسکتا ہے کہ ہماری زندگی کس طور گزرنی چاہیے۔ کراچی سمیت پاکستان کا کوئی بھی شہر کس حد تک محفوظ یا غیر محفوظ ہے اِس کا تعین کرنے کا اولین اور مضبوط ترین اختیار ہمارا اپنا ہے، ترقی یافتہ دنیا کے کسی ملک یا ادارے کا نہیں۔ دی اکانومسٹ گروپ تو خیر نجی ادارہ ہے، اقوام متحدہ جیسا باضابطہ بین الاقوامی ادارہ بھی غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ رپورٹس، تجزیوں، تحقیق، خصوصی مطالعے اور رائے عامہ کے جائزوں کے ذریعے کسی بھی چیز کو پست یا بلند کرنا اب مغربی دنیا کے زیر اثر کام کرنے والے اداروں کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
مغرب کا بنیادی ایجنڈا یہ ہے کہ ایشیائی ممالک کو کسی نہ کسی طور نیچا دکھایا جاتا رہے۔ اس کے لیے تجزیوں، انٹرویوز، تحقیق، موازنوں اور رائے عامہ کے جائزوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ چین، روس اور ترکی کا معاملہ اظہر من الشمس ہے۔ سیاست و معیشت میں ان تینوں کی بڑھتی ہوئی عالمی حیثیت اور علاقائی سطح پر تیزی سے پنپتے ہوئے قائدانہ کردار نے مغرب کو شدید پریشانی، بلکہ خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایسے میں اس کی طرف سے ایسی کوششیں غیر متوقع اور حیرت انگیز نہیں جن کا مقصد ایشیا کا قامت گھٹانا ہو۔ چین کی تیز رفتار ترقی کو ماحول کے لیے نقصان دہ قرار دینا مغربی میڈیا آؤٹ لیٹس کا پرانا ہتھکنڈا اور وتیرہ ہے۔
پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے اُن کا ادراک ساری دنیا کو ہے۔ بھارت، افغانستان اور ایران کے ذریعے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہنے پر مغرب نے خاص توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ کھیلوں کے دروازے بھی پاکستان پر بند کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان سے کہیں زیادہ بُرے حالات سے دوچار ممالک میں غیر ملکی (خاص طور پر مغربی) ٹیمیں بخوشی پہنچتی اور مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں۔ پاکستان کی بات آئے تو سو طرح کے خدشات اور خطرات کا ذکر کرکے ساری دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان ایک انتہائی خطرناک ملک ہے، جس میں قدم قدم پر خطرات ہیں، بارودی سرنگیں بچھی ہیں، قتل و غارت کا بازار گرم ہے اور وہاں کسی بھی گلی یا سڑک سے بحفاظت گزرنا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے!
کوئی ہمیں محفوظ ترین شہروں کی فہرست میں ساٹھویں نمبر پر رکھے تو ہمیں اِس پر شادیانے بجانے کے بجائے دنیا یہ بتانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم وہ نہیں جو بیان کیے جا رہے ہیں بلکہ اُس سے کہیں بہتر ہیں۔ کسی مغربی جریدے یا ادارے کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ کسی بھی ملک یا شہر کو خطرناک قرار دے کر اُس کے امکانات کی راہ میں دیواریں کھڑی کرے؟ ہمارے میڈیا آؤٹ لیٹس کو غلامانہ سوچ ترک کرتے ہوئے ملک یا کسی شہر کا امیج خراب کرنے یا متنازع بنانے کی ہر کوشش کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔ ایسی ہر خبر کو جوں کا توں پیش کرنے کے بجائے اُس کا تجزیہ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔