"MIK" (space) message & send to 7575

دھارے کے خلاف

گزرے ہوئے تمام زمانوں کی طرح آج کی دنیا بھی استحصال کی منڈی ہے۔ جو جتنا کمزور اور مجبور ہے اُس کا اُسی قدر استحصال کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت المناک اور افسوسناک ضرور ہے، حیرت انگیز ہرگز نہیں۔ سیدھی سی بات ہے، انسانی فطرت ایسی ہی واقع ہوئی ہے۔ جو اچھائیاں اور برائیاں کسی فرد میں پائی جاتی ہیں‘ وہی اقوام میں بھی پائی جاتی ہیں۔ 
تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے اپنی لگن، محنت، لیاقت اور مہارت کی بنیاد پر دوسری بہت سی (ظاہر ہے، کمزور) اقوام پر حکومت بھی کی ہے اور ان کے استحصال سے بھی دریغ نہیں کیا ہے۔ کبھی چین بہت طاقتور تھا۔ اس کے بعد جاپان کی باری آئی۔ یورپ نے چار صدیوں تک دنیا کو غلام بنائے رکھا۔ یورپ کا زور ٹوٹا تو امریکا نے استحصال کی منڈی کے سب سے بڑے آڑھتی کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔
یورپ نے صدیوں کے عمل میں جہاں اور بہت کچھ سیکھا وہیں استحصال کے فن میں بھی مہارت حاصل کی۔ جہاں جہاں اُس نے خرابیاں پیدا کیں وہاں تھوڑی بہت اچھائیاں بھی متعارف کرائیں تاکہ معاملات قابو میں رہیں اور گالیاں دینے والوں کے ساتھ ساتھ تھوڑے بہت سراہنے والے بھی پائے جائیں۔ امریکا نے ایسا کوئی اہتمام ضروری نہیں سمجھا۔ یورپ اگر کسی خطے پر قابو پاتا تھا تو وہاں اپنے تہذیبی نقوش چھوڑنے کی کوشش کرتا تھا۔ امریکا کو اس بات کی چنداں پروا نہیں۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ امریکا کے پاس کون سا تہذیبی ورثہ ہے جسے وہ دوسروں تک منتقل کرنا چاہے گا۔
آج یورپ نے بیک سیٹ لے لی ہے۔ امریکا ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہے۔ یورپ جانتا ہے کہ محض طاقت کے ذریعے سب کچھ حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اُس نے اگرچہ بہت کچھ سیکھ رکھا تھا مگر اب امریکا سے بھی بہت کچھ سیکھ رہا ہے۔ یورپ کے قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا جس راہ پر گامزن ہے وہ صرف تباہی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ امریکی قیادت اب تک نو دو دولتیے والا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اُسے صرف اپنے مفادات کی فکر لاحق ہے، اپنے استحکام کی پروا ہے۔ باقی دنیا کا کیا بنتا ہے اِس کی اُسے چنداں پروا نہیں۔
استحصالی قوتوں کے خلاف مزاحمت بھی انسانی فطرت ہی کا میلان ہے۔ ہر دور میں ظالموں کے سامنے مظلوم ڈٹ کر کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے مگر خیر، احتجاج اور مزاحمت کے بھی کچھ تقاضے اور اُصول ہوتے ہیں۔ بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے، ہاتھ پیر بچاتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ محض احتجاج کسی کام کا نہیں ہوتا، بغیر سوچے‘ سمجھے کی جانے والی مزاحمت صرف خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ 
کئی چھوٹی اور کمزور ریاستیں اپنے حقوق کے لیے میدان میں آتی رہی ہیں۔ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر میدان میں آنا انتہائی مستحسن سہی، حقیقت یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جوش سے کہیں زیادہ ہوش کی ضرورت پڑتی ہے۔ جوش اگر ہوش پر غالب آجائے تو توازن بگڑ جاتا ہے اور پھر دوبارہ متوازن ہونے میں زمانے لگ جاتے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا نے لاطینی امریکا کے ممالک کو بھی، دیگر خطوں کی طرح، دبوچ کر رکھا ہوا ہے۔ اِس خطے کے ممالک میں بھی لوگ بہت سے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود خاصے نچلے معیار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی قیادت بھی اس بات کو سمجھتی ہے مگر ایسا کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں جس کی بنیاد پر اصلاحِ احوال کی کوئی بڑی تحریک شروع کی جا سکے۔
چند برس قبل وینزویلا کے اُس وقت کے صدر آنجہانی ہوگو شاویز نے امریکا اور اُس کے حلیفوں کو للکارا تو دنیا حیران رہ گئی۔ شاویز اچھی طرح جانتے تھے کہ واحد سپر پاور کو للکارنا بچوں کا کھیل نہیں۔ انہوں نے چند ہم خیال ریاستوں کو ساتھ ملاکر امریکا کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ وینزویلا تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس کا شمار تیل برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ شاویز نے اُن تمام ممالک کو ساتھ ملانا چاہا جو تیل کی دولت سے مالا مال اور امریکا سے نالاں تھے۔ اِن میں ایران سب سے نمایاں تھا۔ ان ممالک میں بہت کچھ طے پایا تاہم سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ یہ آپس میں تجارت کے لیے ڈالر کو زحمت نہیں دیں گے۔
شاویز نے جو کچھ کیا وہ اپنے ملک اور عوام کے لیے نیک نیتی ہی پر مبنی ہوگا مگر طریقہ غلط تھا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر جو نظام کھڑا کیا ہے‘ اُسے شکست دینے کے لیے سامنے آکر لڑنے کے بجائے ''تیکھی سوچ‘‘ اپنانا پڑے گی۔ انگریزی میں اِسے ''لیٹرل تھنکنگ‘‘ (Lateral thinking)کہتے ہیں۔ ایڈورڈ ڈی بونو نے اِس موضوع پر زندگی بھر لکھا ہے۔ کسی بھی طاقتور انسان کو ہرانے کے لیے یا تو اُس کے برابر طاقت پروان چڑھائی جائے یا پھر اُس میں کمزوریاں تلاش کرکے اُن سے استفادہ کیا جائے۔ شاویز نے‘ بظاہر سوچے سمجھے بغیر‘ امریکا سے متصادم ہونے کو اولین ترجیح کا درجہ دیا اور اِس کا جو نتیجہ برآمد ہوا وہ آج دنیا کے سامنے ہے۔
اِس وقت وینزویلا شدید معاشی اور معاشرتی بحران کی زد میںہے۔ معیشت کا ایسا برا حال ہے کہ لوگ قدم قدم پر الجھنوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پیٹرول کے مقابلے میں پانی کے نرخ تقریباً دس گنا ہیں! اشیائِ خور و نوش کی قلت اِس قدر ہے کہ لوگ عمومی صحت برقرار رکھنے میں بھی شدید مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔ آٹا، میدہ، تیل، گھی، دودھ، انڈے، گوشت ... سبھی کچھ مہنگا ہے۔ ان تمام ضروری اشیاء کے نرخوں میں 300 فیصد سے بھی زائد اضافہ ہوچکا ہے۔ غذا کے ساتھ ساتھ غذائیت کی بھی شدید قلت ہے۔ آبادی کا ایک معقول حصہ فاقہ کشی پر مجبور ہے۔ اشیائے خور و نوش کی ریشننگ شروع ہوچکی ہے۔ اناج، تیل، گھی، دودھ اور انڈوں وغیرہ کے حصول کے لیے لوگوں کو گھنٹوں قطار بند رہنا پڑتا ہے۔ اُن کے درمیان دھینگا مُشتی بھی ہوتی ہے اور مار کٹائی بھی ہوتی ہے۔
عالمی مالیاتی نظام امریکا اور یورپ کا تیار کردہ ہے اور اُنہی کے زیرِ تصرف ہے۔ وہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کا ہنر جانتے ہیں اور فائدہ اٹھا بھی رہے ہیں۔ تیل پیدا اور برآمد کرنے والے ممالک جب بھی مل بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں اور تیل کے نرخ بلند کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں، بڑی طاقتیں عالمی منڈی میں تیل کے نرخ نیچے لے آتی ہیں۔ اس وقت بھی یہی حالت ہے۔ تیل کے نرخ گرنے سے وینزویلا جیسے ممالک کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔
بڑوں سے ٹکرانے کے لیے بڑا بننا پڑتا ہے۔ محض للکارنے سے لڑنے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ طاقتور کو پچھاڑنے کے لیے طاقتور بننا پڑتا ہے یا پھر اُس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ شاویز جیسے قائدین کسی بھی سنگین صورتِ حال کے بنیادی تقاضوں کو نبھانے پر متوجہ ہونے کے بجائے محض جوش و خروش سے کام لینا چاہتے ہیں۔ اِس روش پر گامزن رہنے سے صرف خرابیوں کی منزل ہاتھ آتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی جو لوگ امریکا سمیت کسی بھی طاقت سے اندھا دھند ٹکرا جانے کا مشورہ دیتے نہیں تھکتے اُنہیں دیکھنا چاہیے کہ دھارے کے خلاف بہنے کے لیے اپنے اندر اضافی، بلکہ کہیں زیادہ طاقت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ تیاری کے بغیر بہت کچھ کر گزرنے کی خواہش اور کوشش کسی بھی ریاست کو اُسی مقام تک پہنچا سکتی ہے جہاں آج وینزویلا کھڑا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں