مرے کو مارے شاہ مدار۔ یہ کہاوت ایسی حالت میں کہی جاتی ہے جب بے بس پر ستم بالائے ستم والا معاملہ ہو۔ ٹیکنالوجی نے کچھ ایسا ہی تو ستم ڈھایا ہے۔ اور خاص طور پر کمیونی کیشن ٹیکنالوجی نے تو ہر معاملے کا بینڈ ہی بجادیا ہے۔ آج فضاء میں اُتنی آکسیجن نہیں جتنی ''انفارمیشن‘‘ بسی ہوئی ہے۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان کے مصداق ہمیں معلومات کی ضرورت ہو یا نہ ہو، معلومات سیلابی ریلے کی طرح امڈی چلی آرہی ہیں اور معقولیت کے ہر امکان پر پانی پھیرتی ہوئی گزر رہی ہیں۔ یارانِ وطن کا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی دُھن میں رہتے ہیں۔ ناشتے کے وقت چائے کی چُسکی لوگ بعد میں لیتے ہیں، معلومات کی intake پہلے لی جاتی ہے۔ کھانا کم کھایا جاتا ہے، انفارمیشن زیادہ ڈکاری جاتی ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی معلومات خیر سے اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ معاملات بدہضمی کی منزل پر پہنچ کر دم لیتے ہیں۔
غالبؔ کے خطوط میں مذکور ہے ؎
پُر ہوں میں درد سے یُوں راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے!
اہلِ پاکستان کی اکثریت پر اس وقت یہی کیفیت طاری ہے۔ جو کچھ سمجھنا چاہیے بس وہی نہیں سمجھ رہے، باقی سب کچھ سمجھ میں آرہا ہے اور دنیا کو سمجھانے نکل پڑے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی اہم معاملے سے جس بات کا کوئی تعلق نہ ہو وہی بات دماغ میں ٹھونس لی گئی ہے اور خوش گمانی یہ ہے کہ اب مزید کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں رہی۔
معمولات بدل گئے ہیں۔ کل تک لوگ ملتے تھے تو کھل کر گپ شپ لگاتے تھے۔ ملنا جلنا اب بھی لگا رہتا ہے مگر اس طور کہ سب اپنے اپنے اسمارٹ فون میں لگے رہتے ہیں اور پاس ہوتے ہوئے بھی ان کے درمیان دنیاؤں کا فاصلہ رہتا ہے۔ یہ ہے ٹیکنالوجی کا کمال۔ اور معاملہ سیل فون پر لگے رہنے تک محدود نہیں رہتا۔ ایک کی بھی بہرحال ایک حد تو ہے۔ آدمی بیزار بھی تو ہو جاتا ہے۔ بیزاری کا علاج بھی دریافت کرلیا گیا ہے۔ جب سیل فون پر فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ وغیرہ کی مدد سے معمولات کا خزانہ اپنے دماغ میں انڈیل لیا جاتا ہے تو لازم ہو جاتا ہے کہ یہ سارا کچرا کسی کھلی جگہ ڈمپ کیا جائے۔ اب ڈمپنگ گراؤنڈ کہاں سے پیدا کیا جائے؟ دور جانے کی کیا ضرورت ہے؟ چاروں طرف لوگ تو ہیں اور ان کے دماغ بھی ہیں، نا؟ بس یہ دماغ ہی تو ڈمپنگ گراؤنڈ کا کردار ادا کریں گے!
اپنے اہم ترین معاملات کو یکسر نظر انداز کرکے زمانے بھر کی ازکارِ رفتہ باتوں پر توجہ دینے والوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ لے دے کر بس ایک یہی مصروفیت رہ جاتی ہے کہ دنیا بھر سے جو کچرا انہوں نے انفارمیشن کے نام پر ''ایٹریکٹ‘‘ کیا ہے اُس سے جان چھڑائیں۔ ایسا کرنا بھی لازم ہے کیونکہ فضول باتیں دماغ میں جتنی دیر رہیں گی اُتنی ہی خرابیاں بڑھاتی جائیں گی۔ فضول، غیر متعلق اور لاحاصل باتوں سے
بھرتے ہوئے لوگ خالی دماغ کی بُو سُونگھتے پھرتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی مطلب کا دماغ دکھائی دیتا ہے، وہ اپنے دماغ کی کچرا کنڈی فریقِ ثانی کے دماغ میں خالی کردیتے ہیں!
یہ تو ہوا سوشل سائٹس کا بیان۔ اب آئیے ''ایڈیٹ باکس‘‘ کی طرف۔ پرائم ٹائم میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھ دیکھ کر جن لوگوں کے پاس ''علم کا خزانہ‘‘ تیار ہوچکا ہوتا ہے وہ رات گیارہ بجے کے بعد ریفریش ہوکر گھر سے باہر آتے ہیں اور ''شکار‘‘ تلاش کرتے ہیں۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں؟ زمانے بھر کی متعلق اور غیر متعلق گفتگو اور تجزیے سُن کر خوب پک جانے والے عقل کے یہ اندھے کیا چاہیں؟ دو کان! اِنہیں سامعین درکار ہوتے ہیں تاکہ اپنا ''منجن‘‘ بیچ سکیں۔ یہ صرف اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کوئی بٹن دبادے۔ اِدھر بٹن دبا اور اُدھر ''دریائے فصاحت و بلاغت‘‘ بہنے لگا! یہ اللہ کے بندے جب نکتہ آفرینی کو نیا پیرایہ فراہم کرنے پر تُل جاتے ہیں تب اِن کی قوتِ گفتار کا عجب ہی عالم ہوتا ہے۔ ع
وہ بَکیں اور سُنا کرے کوئی!
منہ کھولنے کے بعد یہ آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ممکن اِس کی غایت یہ ہو کہ سننے والوںکو شدید کوفت سے دوچار نہ دیکھنا چاہتے ہوں! یہ عوامی تجزیہ کار جب ''حکمت‘‘ کے گنج ہائے گراں مایہ لُٹانے پر کمر کس لیتے ہیں تب یہ بھی نہیں دیکھتے کہ فریقِ ثانی اِن کی انتہائی ٹھوس ''علمیت‘‘ کا بوجھ سہار بھی سکے گا یا نہیں۔ باڑے کا ملازم جب چارے کا گٹھڑ کمر پر لاد کر باڑے میں داخل ہوتا ہے تب اگر باڑے میں صرف ایک بھینس بندھی ہو تو وہ سارا چارا اُس ایک بھینس کے سامنے نہیں ڈال دیتا۔ مگر از خود نوٹس کے تحت بولنے کے منصب پر فائز ہو جانے والے یہ مہربانانِ گرامی جب بولنے پر آتے ہیں تو چارے اور بھینس کا اُصول یکسر نظر انداز کرکے اپنے دماغ میں اُگنے والا سارا چارا سامع کا کردار ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کرنے والے فردِ واحد کے سامنے ڈھیر کردیتے ہیں!
معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ اب تو سلام دعا کے بعد کسی سے دو اضافی جملے کہتے بھی ڈر لگتا ہے۔ سیاسی گفتگو سے پرہیز کیجیے تب بھی دال نہیں گلتی۔ جنہیں اللہ نے ''ذہنِ رسا‘‘ عطا فرمایا ہے اُن کی صلاحیتیں کچھ سیاست تک محدود نہیں۔ سوچنے اور بولنے سے متعلق اُن کی لیاقت کسی ایک یا چند موضوعات کے دائرے میں مقید نہیں رہتی۔ عمرانیات، معاشیات، سیاسیات، نفسیات، علم الابدان، علم الحیات، علم الحیوان، بین الریاستی تعلقات، بین الامم امور ... کون سا میدان ہے جسے اُن کا اشہبِ تخیل پامال کرکے نہیں چھوڑتا! روکنا تو بہت دور کا معاملہ ہے، کسی میں دم ہے تو ذرا اِن کے سامنے ہی آکر دکھائے!
آپ کو زیادہ زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو آپ کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو چار گھنٹے ٹی وی کی نذر کرنے کے بعد تیار ہوکر نکلتے ہیں، اُن کی آنکھیں ''شکار‘‘ تلاش کر رہی ہوتی ہیں۔ آپ کو شکار کا کردار ادا کرنے سے بچ کر دکھانا ہے! سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا آپ پر فرض ہے۔ اس کے بعد خیریت کا ایک جملہ۔ بس، یہی وہ منزل ہے جہاں آپ کو رک جانا ہے۔ آپ کی طرف سے شہر، صوبے یا ملک کے حالات سے متعلق کوئی ایک جملہ بھی ہنگامہ برپا کرسکتا ہے۔ اِس سرخ لکیر کو پار کیا تو سمجھ لیجیے لایعنی طلسمات کی حدود شروع ہوئیں!
چینلز کے بزرجمہروں کے اِن پرستاروں سے بچنے کے لیے آپ کو پتلی گلی سے نکل جانا ہے۔ یہی ہے آپ کی صلاحیتوں کا اصل امتحان۔ اگر آپ اس معاملے میں ڈھیلے پڑگئے اور اگر لاپروائی یا نادانستگی کے عالم میں کوئی ایک بے ربط جملہ بھی آپ کی زبان سے ادا ہوا اور بٹن دب گیا تو سمجھ لیجیے سارے کا سارا توبڑا صرف آپ پر آن گرے گا۔ وہی باڑے والا منظر منصۂ شہود پر آجائے گا یعنی از خود نوٹس کے تحت عوامی تجزیہ کار کے منصب پر فائز محترم سارا چارا آپ کے آگے ڈال دیں گے اور، ظاہر ہے، اِس کے بعد آپ کے چراغوں میں روشنی نہ رہے گی!