ناقدین شکوہ سنج رہتے ہیں کہ انسان نے ہزاروں سال کے عمل سے کچھ نہیں سیکھا۔ حالات کی روش دیکھتے ہوئے اُن کی بات بہت حد تک درست بھی محسوس ہوتی ہے۔ جنہیں ہر معاملے پر کچھ زیادہ ہی فلسفیانہ انداز سے غور کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے وہ بات بات پر بد دل اور بد ظن ہو اٹھتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا واقعی آج کی دنیا جینے کے قابل نہیں رہی؟ کیا معاملات واقعی اتنے بگڑ چکے ہیں کہ اب کسی بھی معاملے میں حقیقی خیر کی کوئی گنجائش، کوئی امکان نہیں؟
ہماری ذاتی رائے میں تو ایسا کچھ بھی نہیں۔ بہت بُرے حالات میں بھی کوئی اگر چاہے تو کہیں نہ کہیں سے خیرکا، خوشی کا پہلو نکال ہی لیتا ہے۔ دنیا بھر میں طرح طرح کی رسوم پائی جاتی ہیں جن کا بغور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ خوش ہونے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں اور اگر یہ مواقع ہاتھ نہ لگیں تو وضع کرلیتے ہیں۔ ؎
مل نہیں سکتا جلانے کو اگر کوئی چراغ
اپنے گھر کو آنسوؤں سے جگمگا لیتے ہیں لوگ
گھانا کی ''گا‘‘ برادری نے ثابت کیا ہے کہ دِلوں میں زندگی پائی جاتی ہو تو موت بھی خاصی ''بے مُردہ‘‘ ہو جاتی ہے اور اُس میں ایسا کچھ کم ہی ہوتا ہے جس سے پژ مُردگی پیدا ہوتی ہو۔ خبر آئی ہے کہ ''گا‘‘ برادری میں کوئی مر جاتا ہے تو تین دن تک رسوم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اِس دوران میت والے گھر میں میلے کا سا سماں رہتا ہے۔ دیگر رسوم کے ختم ہونے پر جب تدفین کا وقت آتا ہے تب میت کو جدید ترین فیشن کا نفیس لباس پہناکر تابوت میں لٹایا جاتا ہے اور ساتھ ہی پسی ہوئی مرچیں، مچھلی اور جوتے رکھے جاتے ہیں۔
میت کے ساتھ مرچیں، مچھلی اور جوتے! یہ کیا بات ہوئی؟ میت کو بھلا اِن اشیاء کی کیا ضرورت؟ ''گا‘‘ برادری کا فلسفہ یہ ہے کہ موت زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئی زندگی کا نقطۂ آغاز ہے۔ وہ نئی زندگی کی طرف مُردے کو تمام ضروری تیاریوں کے ساتھ روانہ کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ نئی زندگی میں چونکہ اُسے چند بنیادی اشیاء کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے اس لیے تابوت میں مرچیں، مچھلی اور جوتے بھی رکھے جاتے ہیں۔ خبر کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ شادی سے زیادہ میت پر خرچ کرتے ہیں!
تقریباً تمام ہی مذاہب کی بنیادی تعلیمات میں اِس دنیا کو عارضی قیام گاہ قرار دیتے ہوئے جوابدہی کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یعنی جو کچھ ہم یہاں بوئیں گے وہی کچھ وہاں، اُخروی زندگی میں کاٹیں گے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی اِس دارِ فانی کو آخرت کی کھیتی قرار دیا گیا ہے۔ ہر مذہب کے لوگ اپنی اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق اور اپنے اپنے ڈھنگ سے جسدِ خاکی کو عالمِ بالا کی طرف روانہ کرتے ہیں۔
مُردوں کو رونے اور سوگ منانے کا رواج برصغیر میں کچھ زیادہ ہے۔ دیگر خطوں میں مختلف مذاہب کے لوگ کسی کی وفات اور تدفین کے وقت غیر معمولی سوگ نہیں مناتے، اتنا رونا دھونا نہیں کرتے کہ خود بھی پریشان ہو جائیں۔ بالعموم کوشش کی جاتی ہے کہ آخری رسوم میں سنجیدگی اور وقار نمایاں ہوں! اسلام بھی ایسا ہی کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی دنیا کی چند روزہ حیات پر آخرت کی زندگی کو ہر حال میں ترجیح دینے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ ہم یہاں کے جھمیلوں میں گم ہوکر نہ رہ جائیں اور ہمیشہ کی زندگی پر توجہ مرکوز رہے۔
اردو شاعری گواہ ہے کہ ہمارے مایہ ناز شعراء نے بھی چند روزہ دُنیوی زندگی کو موت کے بعد آنے والی ہمیشگی پر ترجیح دی ہے اور اپنے فن کے ذریعے اس ترجیح کو بیان کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ میر تقی میرؔ کہتے ہیں ؎
موت اِک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
''گا‘‘ برادری میں زندگی پر موت کو ترجیح دینے کا تصور خاصا سبق آموز ہے۔ کوئی دنیا سے جاتا ہے تو متعلقین یا پس ماندگان کے دل و دماغ پر حُزن و ملال کی کیفیت طاری ہو ہی جایا کرتی ہے۔ ایسے میں کچھ دیر کے لیے انسان کا بے حواس اور بیزار سا ہو جانا حیرت کی بات نہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان یا تو زندگی سے بیزار ہو جائے یا پھر موت سے کچھ زیادہ ہی خوفزدہ ہوکر تمام معاملات میں توازن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ موت کا جشن منانا بھی درست نہیں مگر مرنے والے کو ہمیشگی کی طرف روانہ کرنے کا عمل ایسا با وقار ہونا چاہیے کہ ایک طرف تو زندگی میں دلچسپی برقرار رہے اور دوسری طرف مرنے سے خوف کھاتے رہنے کے بجائے موت کو ایک اٹل حقیقت کی حیثیت سے قبول کرنے کی سوچ پروان چڑھے۔ اِسی صورت زندگی میں معنویت پیدا ہوسکتی ہے، سنجیدگی کا گراف بلند ہوسکتا ہے، سوچ میں پختگی کا تناسب بڑھ سکتا ہے اور انسان اِس دارِ فانی میں اپنے قیام کو زیادہ سے زیادہ معنی خیز بناسکتا ہے۔
اِس حقیقت کو ہم عموماً نظر انداز کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں کہ جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اُسے جانا ہے۔ موت کو ہر حال میں آنا ہے اور جب وہ آجائے تو ہمیں جانا ہے۔ معاملہ کہنے کو بہت سیدھا ہے مگر اس سیدھے سے معاملے سے ہم اپنے لیے بہت کچھ کشید کرسکتے ہیں۔ ہم اس دنیا میں ساٹھ، ستر یا اسی سال کی عمر تک بھی جئیں تو بہرحال اس میعاد کو ختم ہو جانا ہے۔ یعنی ہم میں سے ہر ایک کے حصے کا وقت محدود ہے۔ اس محدود وقت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ موت ہر وقت نظر میں رہے تو زندگی ڈھنگ سے گزارنا ناممکن نہیں رہتا۔ وقت کے محدود ہونے کا احساس پوری شدت کے ساتھ حرزِ جاں رہے تو انسان اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہیں کرتا اور اپنی ہر صلاحیت اور سکت کو بھرپور انداز سے بروئے کار لاتا ہے‘ یعنی زندگی ڈھنگ سے گزرتی ہے۔ اور اگر زندگی ڈھنگ سے گزری ہو تو دنیا سے رخصت ہوتے وقت دل میں کوئی غیر ضروری یا بے جا ملال سر نہیں اٹھاتا۔
برصغیر میں بھی بہت سی برادریاں اور قبائل موت کی طرف بڑھتے رہنے کے عمل کو زندگی سے بیزار یا بددل کرنے والے عامل کے روپ میں نہیں لیتے بلکہ اس دنیا میں اپنے قیام کو زیادہ سے زیادہ معنی خیز اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی بار آور بناکر موت کی طرف ہمہ گیر طمانیتِ قلب کے ساتھ بڑھتے ہیں!
خیر، دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ موت سے ہم فی الواقع خوف کھاتے ہوں یا نہ کھاتے ہوں، کسی کے مرنے کو ''سیلیبریٹ‘‘ کرنے کی ''تابندہ روایت‘‘ اب ہم میں بھی پروان چڑھ رہی ہے! میت کا گھر اب دور و نزدیک کے رشتہ داروں کے لیے ''میٹنگ پوائنٹ‘‘ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ یہ سودا بھی بُرا نہیں۔ کسی سے لوگ جیتے جی بھلے ہی نہ ملتے ہوں، اُس کے مرنے پر مل بیٹھنے میں کیا بُرائی ہے؟ لوگ قدم قدم پر زندگی میں کچھ ہنگامہ چاہتے ہیں۔ غالبؔ نے خوب کہا ہے ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی!
میت کے ماحول سے کچھ نہ کچھ ہنگامہ کشید کرنے کے فن تک تو ہم آہی گئے ہیں۔ اللہ نے توفیق دی تو موت کی تفہیم سے زندگی کو زیادہ بامقصد اور بار آور بنانے کی منزل تک بھی پہنچ ہی جائیں گے۔