منیرؔ نیازی نے ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ کے زیر عنوان خوب نظم کہی ہے۔ یہ نظم اُن کے اپنے مزاج کی عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے قومی مزاج کی بھی آئینہ دار ہے۔ ہم بھی تو زندگی بھر یہی کرتے ہیں۔ ہر معاملے میں تاخیر ہماری فطرتِ ثانی ہو کر رہ گئی ہے۔ کبھی کبھی تو کوئی اس قدر دیر کر دیتا ہے کہ خود اُسے بھی ہنسی آ جاتی ہے! اب یہی دیکھیے کہ والدین بچے کو پڑھانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں اور بچہ پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اُسے عملی زندگی میں کب قدم رکھنا چاہیے اس حوالے سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ جب بچہ اچھی خاصی جوانی گزار چکتا ہے تب خیال آتا ہے کہ چلو، اب اِسے کام پر بھی لگایا جائے مگر تب تک خاصی تاخیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پڑھتے پڑھتے اولاد کو مفت کی روٹیاں توڑنے کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے اور ایسے میں عملی زندگی کا آغاز کرنا اُس کے لیے سوہان روح ہو جاتا ہے۔
زندگی ہو یا کھیل، سیاست ہو یا سفارت... ہر معاملے میں ہم دیرکرنے کے ایسے بھرپور عادی ہو چکے ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا‘ اب معاملات کو درست کرنے کی کوئی بہتر سبیل کیا ہو سکتی ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ بھارت سے جب جب جو کچھ کہنا چاہیے تھا وہ ہم نے کہا نہیں اور جب کہنے کا وقت گزرے زمانہ گزر گیا تو کہنے کا ارادہ کیا۔ کنٹرول لائن پر شدید کشیدگی ہو تو آلو پیاز کی درآمد و برآمد دنیا کو ہنسنے ہی کا موقع فراہم کرے گی!
چوٹ گرم لوہے پر لگائی جاتی ہے مگر ہم ٹھنڈے لوہے کو پیٹنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ امریکا کے معاملے میں بھی ہمارا یہی حال ہے۔ دنیا بھر میں امریکا کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کئی چھوٹے ممالک نے بروقت ٹھوس موقف اپنا کر امریکا سے بات منوائی ہے۔ اور ایک ہم ہیں کہ اُس کے ہر حکم پر سر جھکانے کی ''تابندہ روایت‘‘ کو سینے سے لگائے اپنی بربادی کو دعوت دیتے آئے ہیں۔ عالمی حالات بدلے، ہمارے لیے امریکا سے کھل کر بات کرنے کے متعدد مواقع بھی آئے، پارٹنرشپ کے نام پر امریکا سے صرف ذلت پانے کا سودا ترک کرنے کا وقت بھی آیا مگر ہمارے پالیسی میکرز کی غیرت نہ جاگی۔ اور جاگی کب؟ تب کہ جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ محلِ وقوع کے اعتبار سے پاکستان اپنی بہت سی باتیں منوانے کی پوزیشن میں تھا مگر اسلام آباد میں کلیدی فیصلے کرنے والوں نے منیرؔ نیازی کے نقشِ قدم پر چلتے رہنا گوارا کیا اور کبھی کوئی کام بروقت نہ کرنے کی روش ترک نہ کی!
منیرؔ نیازی کے مداح، بلکہ عقیدت مند ہمیں گورننس کے شعبے میں بھی خوب دکھائی دیتے ہیں۔ معاملہ تعلیم کا ہو یا صحتِ عامہ کا، ہر طرف ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘‘ والے مزاج کا راج ہے۔ پہلے تو کچرا پھیلایا جاتا ہے، گندا پانی پڑا رہنے دیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں مکھی، مچھر، لال بیگ وغیرہ خوب پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں طرح طرح کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ اور جب بیماریاں خوب پھیلتی ہیں اور لوگ ان بیماریوں کے ہاتھوں ادھ موئے ہو جاتے ہیں تب کہیں جا کر متعلقہ ادارے سپرے کرنے نکلتے ہیں! ع
یاد آئی مِرے عیسٰی کو دوا میرے بعد
یہ تو ہوئے اجتماعی معاملات۔ انفرادی معاملات میں بھی دیر کرنے کی روایت دور دور تک کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ نئی نسل کو سال بھر رات بھر نائٹ پیکیج پر باتیں کرنے سے فرصت نہیں ملتی اور امتحانات کا شیڈول ہاتھ میں آتے ہی ہاتھوں کے طوطے ہی نہیں بلکہ تمام ہی پرندے اڑ جاتے ہیں!
ہم بھی منیرؔ نیازی کے مقلدین میں سے ہیں۔ بہت زیادہ نہ سہی، اُن کے مزاج سے تھوڑا بہت ''اکتساب‘‘ تو ہم نے بھی کیا ہے! مرزا تنقید بھی عام پاکستانی کی طرح دیر سے جاگنے کے عادی ہیں یعنی کوئی بھی کام وقت پر نہیں کرتے مگر ہماری ''تاخیر پسندی‘‘ کو ہدفِ تمسخر بنانے میں منیرؔ نیازی سے صاف بغاوت کر جاتے ہیں یعنی ذرا دیر نہیں لگاتے!
اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں؟ ہمارے معاملے میں مرزا تنقید بیگ کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اُنہیں صرف موقع ملنا چاہیے ہمارا تمسخر اڑانے کا، ہمیں تحقیر کی منزل تک پہنچانے کا۔ بس، اِس کے بعد وہ کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتے۔ کل کئی ہفتوں بعد آئے تو موقع ہاتھ سے نکل جانے کا افسوس کرنے لگے۔ ہم نے استفسار کیا کہ کون سا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ جواب ملا ''ہر سال 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ اِس بار تمہیں محروم نہیں رکھیں گے، ذہنی صحت کا عالمی دن آئے گا تو ماہرین سے تمہارا چیک اپ ضرور کرائیں گے مگر کیا کیجیے کہ ہم بھی ''شیوۂ منیری‘‘ کا شکار ہو گئے اور اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہم نے بھی ایک بار پھر دیر کر دی!‘‘
ہم نے عرض کیا‘ آپ کا ارادہ واقعی حقیقت پسندی کی دلیل تھا۔
حقیقت پسندی؟ مرزا یہ سن کر حیران ہوئے اور پوچھا کہ اِس میں حقیقت پسندی کی بات کیا ہے تو ہم نے عرض کیا کہ آپ سے دوستی ایسا معاملہ ہے کہ ہماری ذہنی حالت کا چیک اپ ضرور کیا جانا چاہیے!
مرزا نے بہ آوازِ بلند لاحول پڑھتے ہوئے کہا ''ہم اتنے تنگ نظر نہیں کہ صرف تماری ذہنی صحت کا سوچیں۔ ہم تو اجتماعی مفاد کے بارے میں سوچنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جب ہم تمہاری ذہنی صحت کے حوالے سے فکر مند ہوتے ہیں تو دراصل ہم تم سے زیادہ تمہارے قارئین کے مفاد کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں! اپنے پیچیدہ ذہن کو بروئے کار لاتے ہوئے جو کچھ بھی انٹ شنٹ تم لکھتے ہو وہ تمہارے لیے ذرا بھی مُضِر نہیں ہوتا مگر تمہارے قارئین تو ناکردہ گناہوں کی سزا پاتے ہیں! ہم نے تمہارے ذہنی چیک اپ کا اِس لیے سوچا تھا کہ ماہرین کی مدد سے تمہیں مزید لکھنے سے باز رکھیں کہ اسی میں تمہارے قارئین کی بھلائی مُضمر ہے۔‘‘
مرزا کو ہماری کوئی بات، کوئی بھی کام اچھا نہیں لگتا۔ حد یہ ہے کہ ہماری کالم نگاری بھی اُنہیں کَھلتی ہے۔ انہیں شکایت رہتی ہے کہ ہم کالم لکھتے وقت ذہن کو بروئے کار نہیں لاتے۔ اتنا سوچنے کی زحمت انہوں نے کبھی گوارا نہیں کی کہ ذہن کو زحمتِ کار نہ دے کر ہم خود کو سچا پاکستانی ثابت کرتے ہیں! اِس ملک میں کون سا کام ہے جو سوچ سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے یا جسے دیکھ کر محسوس ہو کہ ذہنی صلاحیت و سکت کو زحمتِ کار دی گئی ہے؟ جو شخص ذہن کو بروئے کار لا کر کوئی کام انجام دیتا ہے وہ بھیڑ سے الگ کھڑا دکھائی دیتا ہے!
خیر، ہمیشہ دیر کر دینے کی روایت اس ملک میں اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ اب کوئی صاحب کسی کام کو وقت پر انجام دے بیٹھیں تو لوگ ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ یااللہ! یہ بندہ پاک سرزمین کا باشندہ ہے بھی یا نہیں! منیرؔ نیازی کی روش پر ہم بھی گامزن رہتے ہیں۔ صرف ایک معاملے میں ہم سے ''بغاوت‘‘ سرزد ہو جاتی ہے... یہ کہ کالم وقت پر لکھ مارتے ہیں! اس گستاخی پر منیرؔ نیازی کی روح سے معذرت!!