بدھ 8 نومبر کی شام ایک بار پھر کراچی پریس کلب کراچی کی سیاست کا مرکز بنا اور ایک میلہ سجا۔ یہ میلہ مصطفی کمال نے لُوٹ لیا۔ معاملہ تھا کراچی کے مستقل اور اصل باشندوں کا ووٹ بینک منقسم ہونے سے بچانے کا۔ گزشتہ برس اپریل میں جب مصطفی کمال نے ایم کیو ایم کو خیرباد کہتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی بنائی تھی تب سے اب تک کراچی میں ایم کیو ایم کے وابستگان مستقل خلفشار کی حالت میں رہے ہیں۔ 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے کارکنوں سے خطاب میں متحدہ کے بانی الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف جو کچھ کہا اُس کے بعد ایم کیو ایم کا حقیقی بُرا وقت شروع ہوا۔ لازم ہوگیا کہ اِدھر کے ہو رہو یا اُدھر کے۔ تب سے اب تک ایم کیو ایم میں انتشار چل رہا ہے اور یہ انتشار اب بھی ختم نہیں ہوا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے مل کر جو پریس کانفرنس کی ہے وہ اپنے نتائج کے اعتبار سے کتنی بار آور ثابت ہوتی ہے اِس کا درست تعین کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔ اس پریس کانفرنس کے حوالے سے خود ایم کیو ایم میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں اور انتشار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ عامر خان ملک سے باہر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کراچی پریس کلب میںجو کچھ کہا گیا ہے وہ اُس سے ہٹ کر ہے جو طے کیا گیا تھا۔ چند ایک نمایاں شخصیات نے فاروق ستار اور مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے اعلانات سے خود کو الگ یا لاتعلق ظاہر کیا ہے۔ پارٹی سے اعلانیہ الگ ہو جانے والے بھی کئی ہیں۔ پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتیں ایم کیو ایم کے درخت سے گرنے والے پھل اپنی جھولی میں لینے کے لیے تیار و بے قرار ہیں۔
کراچی نے قتل و غارت کے کئی ادوار دیکھے اور جھیلے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ پورے شہر کو چند افراد نے یرغمال بنایا اور اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کی۔ اِس کے نتیجے میں شہر کی کیا حالت ہوئی یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مصطفی کمال اور اُن کے ساتھیوں نے ایم کیو ایم سے الگ ہونے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ وہ اس بات پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ ایم کیو ایم سِرے سے مٹ جانی چاہیے۔ تنظیم کا بنیادی ڈھانچا جس نوعیت کا ہوچکا تھا اُس کا یہی انجام ہونا تھا۔ سب کچھ ایک فرد کی ذات کی میں سمٹ گیا تھا۔ اور جب طاقت اِس قدر مرتکز ہو تو صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ چائے کی پیالی میں چینی اِتنی نہیں ہونی چاہیے کہ چمچ کھڑا ہوجائے! ارتکازِ اختیار سے خرابیاں نہ صرف پیدا ہوئیں بلکہ اِس حد تک پروان چڑھ گئیں کہ جو اِکّا دُکّا خوبیاں تھیں اُن کا نام و نشان تک نہ رہا۔ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
ایم کیو ایم شکست و ریخت کے جس عمل سے گزر رہی ہے اُس سے تو اُسے گزرنا ہی تھا۔ تنظیمی ڈھانچا صرف بندر بانٹ تک رہ گیا تھا۔ تمام افکار و اعمال مال و منال کی چوکھٹ پر دھرے رہ گئے تھے۔ کئی گروہ پہلے ہی بن چکے تھے جو اپنے اپنے مفادات کی نگہبانی تک محدود تھے۔ ایسے عالم میں کوئی بھی پارٹی کہاں چلتی ہے۔ اور پارٹی ہوتی تو شاید کچھ چل بھی پاتی، ایم کیو ایم تو شروع ہی سے محض تنظیم رہی ہے اور وہ بھی عام ڈگر سے ہٹ کر محض مافیا کے انداز کی۔ بیشتر معاملات دھونس دھمکی سے شروع ہوکر دھونس دھمکی کے عملی نتائج پر ختم ہوتے تھے۔
اہلِ کراچی کی اکثریت اپنے مسائل کے حل کے لیے ایم کیو ایم کی طرف دیکھتی رہی مگر معاملہ دیکھتے رہنے تک ہی محدود رہا۔ کئی بار مینڈیٹ ملنے پر بھی ایم کیو ایم نے ڈلیور نہ کیا۔ عوام کی امیدیں ہوں یا اُن میں پایا جانے والا خوف، ہر چیز کی ایک حد ضرور ہوا کرتی ہے۔ جب وہ حد آگئی تو ایم کیو ایم کے لیے مزید پنپنے کی گنجائش نہ رہی۔ تمام قوت ایک فرد میں جمع کردینے سے گزشتہ برس وہ ''بگ بینگ‘‘ ہوگیا جس کے بارے میں سوچ سوچ کر لوگ لرزاں و ترساں رہا کرتے تھے۔ 22 اگست 2016 کے بگ بینگ کے بعد تنظیم کی جو حالت ہوئی اُسے دیکھ کر محمد رفیع مرحوم کے گائے ہوئے ایک فلمی گیت کا مکھڑا یاد آگیا۔ ع
اِک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
کارکن گو مگو کی حالت میں تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ رک جائیں یا چلتے رہیں۔ اور چلیں تو کس کے ساتھ؟ کیفیت یہ تھی کہ ع
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک راہ رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
عوام بھی پریشان تھے کہ عام انتخابات کی منزل زیادہ دور نہیں۔ کراچی کے مینڈیٹ کا سوچ سوچ کر وہ اندر ہی اندر الجھ رہے تھے۔ اگر ایوان میں نمائندگی گروپوں کی شکل میں ہوئی تو کراچی کی بات ڈھنگ سے کون کر پائے گا، مسائل کے حل کی صورت کیسے نکل پائے گی؟ مصطفی کمال اور فاروق ستار کی مشترکہ پریس کانفرنس اور مل کر ایک نام، ایک نشان اور ایک منشور کے تحت الیکشن لڑنے کے اعلان نے تمام معاملات کو تو خیر درست نہیں کیا تاہم خرابیوں کی گرد قابل قبول اور قابل ذکر حد تک ضرور بٹھادی ہے۔ شہریوں کو اطمینان ہو چلا ہے کہ انتخابات نزدیک آنے پر شہر میں باہمی تصادم کی کچھ خاص گنجائش باقی نہ رہے گی۔
یہ تو ہوا ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کے نتیجے میں ہزاروں کارکنوں کو شش و پنج کی کیفیت سے نکالنے کا معاملہ۔ مصطفٰی کمال نے اردو بولنے والوں کے ووٹ بینک کو ٹوٹنے، بکھرنے سے بچانے کی بات تو خیر کی۔ ساتھ ہی اچھی ٹائمنگ کے ساتھ ایک اور اچھی بات بھی کی ... یہ کہ دیگر صوبوں سے آکر کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرنے والوں کو محض تماشائی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اُنہیں شہر کے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرکے یوں اپنایا جائے کہ وہ بھی شہر کے حوالے سے اپنے دلوں میں ''اونر شپ‘‘ کا احساس پائیں! مصطفی کمال نے pluralism اور multi-culturalism کی بات کی ہے۔ آج بھی کراچی میں آباد کم و بیش 30 لاکھ پٹھانوں کی واضح اکثریت ghettos (الگ تھلگ علاقوں) میں رہتی ہے۔ کراچی جیسے کاسموپولیٹن شہر میں رہنے کے جو اطوار ہوا کرتے ہیں اُن سے یہ لوگ بہت دور ہیں۔ یہ فرق ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کے علاقوں میں بنیادی مسائل حل کیے جانے چاہئیں اور ساتھ ہی ساتھ اُنہیں بھی یہ احساس دلایا جائے کہ کراچی کو محض نوکری یا کاروبار کا مقام سمجھ کر مستفید ہوتے رہنے تک محدود نہ رہیں بلکہ اِسے اپنا سمجھ کر، اپناتے ہوئے اِس کی ترقی اور استحکام میں اپنا کردار پوری دیانت سے ادا کریں۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ ہماری کائنات اپنی تخلیق کے ابتدائی مرحلے میں یعنی بگ بینگ کے بعد انتشار کی حالت میں تھی۔ پھر اِس کی ''فائن ٹیوننگ‘‘ شروع ہوئی یعنی یہ معقول و متوازن ہوتی گئی تاکہ زندگی اُبھر اور پنپ سکے۔ 22 اگست 2016 کو بگ بینگ ہوچکا۔ اب مصطفی کمال، فاروق ستار، آفاق احمد اور ایم کیو ایم کی دلدل سے نکلنے والے دیگر قائدین کو شہر کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اِس شہر کی کائنات کو فائن ٹیوننگ کی طرف لے جانا چاہیے تاکہ حقیقی ترقی و خوش حالی کے پنپنے کی راہ ہموار ہو۔ گبّر سنگھ کی ساکھ اور دھاک ختم ہوچکی۔ وہ کونے میں دُبکا ہوا ہے۔ فی الحال لوگ ''ٹھاکر صاحب‘‘ کے بارے میں زیادہ نہیں سوچ رہے۔ جے اور ویرو پوری آب و تاب کے ساتھ میدان میں ہیں۔ اب تو کراچی کے رام گڑھ میں ایسا کچھ ہونا ہی چاہیے کہ یہاں کی بسنتی رانی بن کر راج کرے! ۔