"MIK" (space) message & send to 7575

کامیابی کا ’’اوپن سیکریٹ‘‘

کون ہے جو کامیابی، بلکہ بھرپور کامیابی نہیں چاہتا؟ ہر انسان کی خواہش ہے کہ اُس کے حصے میں بھرپور کامیابی آئے۔ مگر محض خواہش کرلینے سے تمام مسائل حل نہیں ہوجاتے اور من کی مراد نہیں مل جاتی۔ اگر محض سوچنے یا خواہش کرلینے سے سب کچھ مل جایا کرتا اور انسان کامیاب ہو جایا کرتا تو پھر اِس دنیا میں کوئی بھی محروم نہ رہتا۔ سبھی کی زندگی میں خوشیاں دکھائی دیتیں۔ 
کامیابی کے راز کون بیان کرسکتا ہے؟ جو کامیاب ہیں وہ، اورکون! اگر آپ کو بھرپور کامیابی یقینی بنانی ہے یعنی دنیا پر اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے تو اُن سے سیکھنا پڑے گا جن کے حصے میں بھرپور کامیابی آئی ہے۔ ویسے کامیابی کے حوالے سے حصے میں آنے کا ذکر کچھ مناسب نہیں۔ کامیابی حصے میں نہیں آتی بلکہ اِسے ناکامی کے جبڑوں سے چھیننا پڑتا ہے۔ ؎ 
دستِ ظلمت سے ہم نے چھینی ہے 
روشنی میں جو دل نشینی ہے 
زندگی کے ہر معاملے کا یہی حال ہے۔ اِس دنیا میں مسائل زیادہ ہیں اور وسائل کم۔ کم سے کم وسائل خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ مسائل حل کرنا انسان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ جو ایسا کر پاتے ہیں وہی کامیاب کہلاتے ہیں۔ اگر آپ ہر اعتبار سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو بھی یہ ہنر سیکھنا پڑے گا۔ اور یہ ہنر آپ کو سکھائیں گے اپنے اپنے شعبے میں غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہونے والے افراد۔ شعبہ خواہ کوئی ہو، اُس کے کامیاب افراد کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ سبھی نے بہت محنت کی، بہت کچھ اپنایا اور دوسری طرف بہت کچھ ترک کیا۔ اس مرحلے سے گزر کر ہی وہ کچھ کر پانے اور پانے میں کامیاب ہوئے۔ 
انٹر نیٹ پر کامیابی کے حوالے سے تھوڑی سی براؤزنگ کی کیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ ہر شعبے کے کامیاب ترین افراد اپنی جدوجہد کی کہانی دنیا کے گوش گزار کرنے اور کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے حوالے سے اختیار کی ہوئی حکمتِ عملی کی تفصیلات دنیا کے سامنے رکھنے میں کچھ بھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ترقی یافتہ معاشروں کے کامیاب ترین افراد اپنی کامیابی کے مختلف مراحل بیان کرنے اور دوسروں کو بھی کامیاب ہونے کی زیادہ سے زیادہ تحریک دینے کے معاملے میں تساہل سے کام لیتے ہیں نہ بخل سے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کیا وہی کچھ کرنے کی تحریک دوسرے بھی پائیں اور اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر اس دنیا کو زندہ رہنے کے زیادہ قابل بنائیں۔ 
ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ مختلف حوالوں سے میڈیا کی بھرپور ترقی نے ہمیں کامیاب شخصیات کے حالاتِ زندگی سے مستفید ہونے کا بھرپور موقع فراہم کردیا ہے مگر بدنصیبی یہ ہے کہ اب کامیابی کے راز، اصول اور طریقے بیان کرنے کا بیڑا ''ثقافت کے علم برداروں‘‘ نے اٹھالیا ہے۔ بات شوبز سے شروع ہوکر شوبز پر ختم ہوتی ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کیمرے کے سامنے آنا اور مائکروفون کے سامنے کھڑے ہوکر حلق پھاڑنا ہی کامیابی کی حقیقت ہے، باقی تو محض افسانہ ہے یا پھر زیبِ داستاں کا سامان۔ ایسا لگتا ہے جیسے دیگر تمام شعبوں کے لوگوں نے منہ میں گھنگھنیاں دے رکھی ہیں یا کسی نے اُن پر بندش کردی ہے تاکہ اپنی بھرپور کامیابی کے راز کسی کو نہ بتا پائیں! صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ کامیابی کے تمام گُر اور نسخے دیکھنے کے لیے اب صرف شوبز کی شخصیات کو سُنتے ہیں اور اُن کی بیان کردہ ہر بات پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ 
فی زمانہ کسی بھی شعبے میں بھرپور اور مثالی کامیابی انتہائی جاں گسل مرحلہ ہے۔ محنت کافی نہیں ہوتی، ذہانت بھی بروئے کار لانا پڑتی ہے۔ اور ایک بار مل جانے والی بھرپور کامیابی کو برقرار رکھنا مستقل عذاب سے کم نہیں۔ کامیابی کی راہ پر گامزن رہنے کے لیے ہر وقت الرٹ رہنا پڑتا ہے۔ ذرا لاپروائی برتی اور ''ڈی ریل‘‘ ہوئے! شوبز میں بھی کامیابی کا حصول بچوں کا کھیل نہیں۔ کبھی کبھی عشروں کی محنت کے بعد کامیابی ملتی ہے اور یوں بھی ہوتا ہے کہ اچانک مل جانے والی کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے عشروں تک محنت کرنا پڑتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ کامیابی کے نسخے بیان کرنے کی ذمہ داری شوبز کے چمکیلے چہروں نے اپنے سَر لے لی ہے۔ لبرل ازم کی کھوکھلی تعبیر سے آشنا طبقہ گھوم پھر کر کامیابی کو صرف اس بات سے تعبیر کرتا ہے کہ عورت کو زیادہ سے زیادہ empower کیا جائے۔ اور اور عورت کی ساری کی ساری empowerment صرف ایک نقطے پر مرکوز کردی گئی ہے ... یہ کہ وہ زیادہ سے بے حجاب و بے حیا ہو جائے، چہرے سے پردہ اور دل سے جھجک نوچ کر پھینک دے۔ عورت کو ورک فورس اور کیریئر کے حوالے سے مرکزی دھارے میں لانے کا مفہوم صرف یہ لیا جارہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آواز خیال ہو، جو چاہے کرتی پھرے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ 
کامیابی کے نسخے شوبز کے باغ کی چُلبلی اور تیز و طرّار تتلیوں کی زبانی بیان کرنے کی وباء ہمارے ہاں بالی وڈ سے آئی ہے۔ وہاں جو تتلی جتنی اونچی اڑان بھر رہی ہے وہ اپنے آپ کو اُتنی ہی کامیاب گردانتی ہے اور چاہتی ہے کہ ملک بھر کی بچیاں اُس کے نقوشِ قدم پر چلتی ہوئی شہرت، دولت اور ''عزت‘‘ پائیں! 
شوبز میںبھی باوقار خواتین رہی ہیں اور اُن کے کردار سے متعلق کچھ بھی کہنے سے پہلے لوگوں کو کئی بار سوچنا پڑا ہے مگر ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ بولنے کی ذمہ داری اُنہیں سونپ دی گئی ہے جن میں صرف بے باکی و بے حیائی پائی جاتی ہے۔ بھارت کی انتہائی بے باک و بے حیا اداکارہ راکھی ساونت نے کئی بار ٹی وی پروگرامز میں آنسو بہاتے ہوئے لوگوں سے کہا ہے کہ بیٹیوں کو گھروں میں قید نہ رکھو، انہیں معاشرہ دیکھنے اور صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع دو تاکہ وہ بھی اپنے لیے (خود راکھی ساونت کی طرح) باعزت مقام پیدا کرسکیں!
بولڈ کرداروں کے حوالے سے نام کمانے والیوں میں ودیا بالن بھی شامل ہے۔ اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کامیابی کا نسخہ قدرے کھل کر بیان کیا ہے۔ نسخہ یہ ہے کہ شرم و حیا کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا جائے۔ ودیا بالن کہتی ہے کہ جو لوگ شرم و جھجک میں مبتلا رہتے ہیں اُنہیں بھرپور کامیابی کبھی نہیں ملتی۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے بے شرمی کی راہ پر گامزن ہونا لازم ہے۔ خیر گزری کہ اُنہوں نے بے شرمی کے محض تذکرے پر اکتفا کیا، اس کی پوری تشریح سے اجتناب برتا۔ مگر خیر، سبھی سمجھتے ہیں کہ وہ قوم کی بھولی بھالی بچیوں کو کس راہ پر گامزن ہونے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ 
ہمارے ہاں ہر شعبے میں کامیاب ترین افراد موجود ہیں۔ بات علم کی ہو یا کھیل کی، کوئی بھی شعبہ مثالی کامیابی سے متصف افراد سے محروم نہیں مگر افسرس اس بات کا ہے کہ کامیابی کا مفہوم صرف اور صارف ناچ گانے اور بھانڈ پن سے جوڑ دیا گیا ہے۔ عام آدمی کی ایسی بھرپور برین واشنگ کی گئی ہے کہ تدریس کے شعبے میں 50 سال تک خدمات انجام دے کر مختلف شعبوں کو بیسیوں کامیاب افراد فراہم کرنے والی کوئی نمایاں شخصیت اپنے مشاہدات و تجربات بیان کر رہی ہو تو لوگ اُسے سننے کے بجائے چینل فلپ کرکے کسی دو ٹکے کی اداکارہ کی لایعنی باتیں سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے حقیقی زوال کی بنیاد اِسی طور پڑا کرتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں