"MIK" (space) message & send to 7575

’’پدماوتی‘‘ کا ہاہا کار

سنجے لیلا بھنسالی نے ایک بار پھر خود کو اچھے خاصے تنازع میں پھنسالیا ہے۔ علائوالدین خلجی اور پدماوتی کے کھٹے میٹھے تعلق کو بنیاد بناکر بنائی جانے والی فلم نے ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ سنجے لیلا بھنسالی اور ''پدماوتی‘‘ کے مخالفین کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ اس صورتِ حال سے مودی سرکار بہت خوش ہے۔ خوش کیوں نہ ہو کہ قوم ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ گئی ہے! 
بات یہ ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں بعض لوگوں کو ذرا ذرا سی بات پر اسلام خطرے میں پڑتا دکھائی دیتا ہے بالکل اسی طرح سرحد کے پار بھی کچھ لوگ اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی ایسی ویسی بات دکھائی دیتی ہے وہ دہائی دینے لگتے ہیں کہ ہندو دھرم اور بھارتی سنسکرتی دونوں ہی پر ''سنکٹ‘‘ آ پڑا ہے۔ اور اب اِن کی رکشا کے لیے میدان میں تو آنا ہی پڑے گا۔ یہ معاملہ احساس اور ذمہ داری سے کہیں زیادہ مال پانی کا ہے۔ کچھ لوگو ں کی روزی روٹی شور مچانے اور ہنگامہ کھڑا کرنے سے وابستہ ہے۔ اگر کوئی ایشو نہ ملے تو یہ خود پیدا کرلیتے ہیں۔ ع 
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر 
انتہا پسند ہندوؤں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کے دیگر گروپوں کو بھی تیزی سے آگے آنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ ''پدماوتی‘‘ میں ایک ہندو رانی کے دل میں مسلم بادشاہ کے لیے نرم گوشہ دکھائے جانے پر راجستھان کے راجپوت بھڑک اٹھے ہیں۔ پدماوتی کا کردار اُسی طرح متنازع ہے جس طرح جلال الدین محمد اکبر اور نورالدین محمد سلیم المعروف بہ جہانگیر کے حوالے سے انار کلی کا ہے۔ مورخین کہتے ہیں کہ یہ کردار تاریخ کی کتب میں درج نہیں یا مستند نہیں۔ اور یہ کہ اس کردار کو ڈراما نگاروں نے پیدا کیا ہے تاکہ جنگ و جدل کے ماحول میں تھوڑا بہت محبت کا ماحول بھی پیدا کیا جاسکے۔ انار کلی کو موجودہ روپ میں اور ایسی آن بان شان کے ساتھ پیش کرنے کا سہرا امتیاز علی تاج کے سر ہے۔ 
پدماوتی کے بارے میں بھی کچھ ایسی ہی داستان بیان کی جاتی ہے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ چتوڑ گڑھ کے حوالے سے پدماوتی کا ذکر تاریخ کی مستند کتب میں ناپید ہے یا پھر سرسری نوعیت کا ہے۔ یہ کردار ہندی کے معروف شاعر ملک محمد جائسی کے ذہن کی تخلیق ہے۔ راجستھان کی کرنی سینا پدماوتی اور علائوالدین خلجی کے درمیان جنگ و جدل سے ہٹ کر کچھ اور ماحول پیش کرنے پر تلواریں سونت کر میدان میں آگئی ہے۔ کرنی سینا دراصل راجپوتوں کا گروپ ہے جو اس بات پر بضد ہیں کہ یا تو ''پدماوتی‘‘ کی ریلیز روک دی جائے یا پھر اس فلم سے وہ تمام مناظر نکال دیئے جائیں جن میں پدماوتی (دیپیکا پڈوکون) کو علائو الدین خلیجی (رنویر سنگھ) پر فریفتہ ہوتے دکھایا گیا ہے۔ 
سمجھ میں نہیں آتا کہ کرنی سینا کے بڑوں کو کیا ہوگیا ہے۔ پدماوتی کو علائو الدین خلجی پر فدا ہوتے دکھائے جانے پر اس انتہا پسند و نسل پرست گروپ کو شدید اعتراض ہے۔ اکیسویں صدی میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے۔ دو دلوں کے درمیان کچھ بھی جنم لے سکتا ہے۔ ایسے میں تخت و تاج بھی ایک طرف دھرے رہ جاتے ہیں۔ 
علائو الدین خلجی اور پدماوتی کے درمیان تھوڑی سی مفروضہ محبت کو کرنی سینا نے راجپوتوں کی آن بان، شان و شوکت اور غیرت کے لیے گہرے داغ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے خلاف جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس گروپ کی نظر میں پدماوتی کا علائو الدین کے لیے جھکاؤ دکھانا راجپوتوں کی شان اور غیرت کے منافی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی مسلم بادشاہ کے لیے کسی راجپوت رانی کے دل میں نرم گوشے کا پایا جانا ایسی ہی ''آپتّی جنک‘‘ بات ہے تو پھر 1950 کے عشرے کے اواخر میں راجستھان کے راجپوتوں کے غیرت مند اجداد کہاں جا چھپے تھے؟ اُس دور میں کے آصف نے دھڑلّے سے ''مغلِ اعظم‘‘ بنائی جس میں راجستھان ہی کی ایک جدّی پُشتی راجپوت خاتون جودھا بائی کو مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی منکوحہ، ملکہ اور ولی عہد نورالدین محمد سلیم المعروف بہ جہانگیر کی ماں کے روپ میں دکھایا گیا۔ مغل شہنشاہ کے حرم میں جودھا بائی کو باضابطہ ملکہ کے روپ میں دیکھ کر بھی اُس وقت کے راجستھانی بزرگ طیش میں آئے نہ تلواریں سونت کر میدان میں نکلے۔ ''مغلِ اعظم‘‘ میں مکالموں اور موسیقی کا ایسا ریلا تھا جو سبھی کو اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔ 
میدان جنگ کے مناظر پیش کرنے والی ''پدماوتی‘‘ نے ریلیز ہونے سے پہلے ہی اچھا خاصا میدانِ جنگ کھڑا کردیا ہے۔ ''پدماوتی‘‘ یکم دممبر کو ریلیز کی جانی ہے۔ کرنی سینا نے اُس دن ''بھارت بند‘‘ کی کال دی ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ نے مرکز کو خط لکھا ہے کہ ''پدماوتی‘‘ کی ریلیز سے ریاست میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ 
چھتیس گڑھ کے سابق شاہی خاندان کے دلیپ سنگھ یادو کی صاحبزادی ہینا سنگھ یادو کہتی ہیں کہ فلم میں پدماوتی کو گھومڑ ڈانس کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ تاریخ سے ثابت نہیں کہ کسی راجپوت رانی نے کسی کے سامنے بھرے دربار میں رقص کیا ہو۔ 
راجستھان کی وزیر برائے اعلٰی و تکنیکی تعلیم کرن مہیشوری نے بھی سنجے لیلا بھنسالی پر تاریخ کو مسخ کرنے اور صرف مال بنانے کے لیے فلم بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ 
بنگالورو (بنگلور) میں احتجاج کے دوران راشٹریہ ایکتا منچ کے ادے کمار سنگھ نے مطالبہ کیا ہے کہ ''پدماوتی‘‘ سے تمام قابلِ اعتراض مناظر اور مکالمے حذف کردیئے جائیں۔ 
کرنی سینا کے کارکنوں نے راجستھان کے شہر کوٹا کے آکاش مال میں توڑ پھوڑ کی ہے جس میں واقع تھیٹر نے ''پدماوتی‘‘ کا ٹریلر چلایا تھا۔ یہی حال گجرات کا ہے جہاں لاکھوں راجپوت سڑکوں پر نکلے ہیں اور فلم کی ریلیز روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 
دوسری طرف بالی وڈ کی نمائندہ شخصیات بھی میدان میں نکلی ہیں۔ ان کا کہنا ہے یوں ہر فلم پر اعتراضاات لگاکر ریلیز روکنے کی کوشش کی جاتی رہی تو فلم انڈسٹری چل چکی۔ مرکزی حکومت کو اس حوالے سے لازمی طور پر کچھ کرنا چاہیے۔ 
خیر، کرنی سینا حد سے آگے بڑھ گئی ہے۔ دیپیکا پڈون کی ناک اور سنجے لیلا بھنسالی کی گردن کاٹنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کرنی سینا نے اعلان کیا ہے جو بھی سنجے لیلا بھنسالی کا سر کاٹ کر لائے گا اُسے پانچ کروڑ روپے دیئے جائیں گے۔ کوئی ذرا کرنی سینا کے سرغنہ سے پوچھے کہ پانچ کروڑ میں کتنے صفر لگتے ہیں! 
جی ایس ٹی کے مسئلے پر شدید نکتہ چینی جھیلتے جھیلتے تھکن محسوس کرنے والی مودی سرکار کے لیے یہ ''بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ والی صورتِ حال ہے۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ مودی سرکار کو ایک آدھ ایسا ایشو درکار تھا جو عوام کی توجہ کچھ دن کے لیے سرکار کی نا اہلی سے ہٹاسکے۔ فی الحال یہ کام ''پدماوتی‘‘ نے کر دکھایا ہے۔ جب اِس کی گرد بیٹھے گی تو مودی سرکار کسی اور ''پدماوتی‘‘ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوگی۔ 
آپ دل تھام کر یکم دسمبر کا انتظار کیجیے۔ اصل ہاہا کار تو اُسی دن مچے گا۔ تب پتا چلے گا کہ روشنی کس کے چراغوں میں نہ رہے گی۔ سنجے لیلا بھنسالی کے یا پھر کرنی سینا کے کیونکہ راجستھان، گجرات اور یو پی کے چند علاقوں کو چھوڑ کر باقی ملک کو اِس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ پدماوتی تھی بھی نہیں یا اور اگر تھی تو اُس کے اور علائو الدین خلجی کے درمیان کیا چلتا رہا تھا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں