"MIK" (space) message & send to 7575

پتھر کی سِل پر نکاح نامہ

ماہرین جب کچھ کرنے، کر دکھانے اور دکھانے کی ٹھان لیں تو رومال سے انڈا اور ٹوپی سے کبوتر بھی نکال کر دکھا سکتے ہیں۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے چار ہزار سال پرانا نکاح نامہ دریافت کیا ہے۔ ترکی کی ہاران یونیورسٹی کے ماہرین نے جو نکاح نامہ دریافت کیا ہے وہ پتھر کی ایک بڑی اور موٹی سِل پر کندہ ہے۔ قدیم زبانوں کے ماہرین نے خاصی محنت کے بعد نکاح نامے کی عبارت کو پڑھنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس پر دلہن کا نام ''ہتالہ‘‘ اور دولہا کا نام ''لاکی پوم‘‘ درج ہے۔ نکاح نامے کے آخر میں درج ہے کہ اگر دلہن کے اولاد نہ ہوئی تو وہ شوہر کے لیے باندی کا اہتمام کرے گی (تاکہ وہ بے اولاد نہ رہے)!
کہا جا رہا ہے کہ اب تک دریافت کیے جانے والے نکاح ناموں میں یہ قدیم ترین ہے۔ اس نکاح نامے سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اُس دور میں عورت کے بے اولاد رہ جانے کی صورت میں مرد کا نام زندہ رکھنے یعنی اُس کا شجرۂ نسب آگے بڑھانے کی خاطر بیوی کو اس بات کا پابند کرنا لازم سمجھا جاتا تھا کہ وہ شوہر کو کسی باندی ہی کے ذریعے اولاد کے حصول کی محض اجازت نہ دے گی بلکہ باندی بھی خرید کر دے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اُس دور میں شادی کے وقت اور بھی بہت سی شرائط کا تعین کیا جاتا ہو مگر جب تک ہمیں مزید نکاح نامے نہیں مل جاتے تب تک ٹھیک سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ تب نکاح یا گھریلو زندگی کی شرائط میں کون کون سے نکات شامل کیے جاتے تھے۔
یہ بات بڑی خوش کُن لگی کہ چار ہزار سال قبل کے لوگوں میں اِتنا شعور بہرحال تھا کہ نکاح نامہ نہ صرف یہ کہ موجود ہو بلکہ انتہائی ٹھوس ہو۔ تب کا نکاح نامہ آج کے نکاح نامے کی طرح کا نہیں ہوتا تھا جسے کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ٹھکرانے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ اوّل تو اُس دور کا نکاح نامہ تھا اِس نوعیت کا کہ اِدھر سے اُدھر کرنے میں بھی بہت احتیاط کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا۔ بصورتِ دیگر پتھر کی سِل ہاتھ یا پیر پر گِرنے سے میاں یا بیوی کے زخمی ہونے کا خدشہ برقرار رہتا تھا۔
آج کل نکاح نامہ کاغذ کے ٹکڑے کی شکل میں ہوتا ہے اس لیے الماری میں کسی چیز کی تلاش کے دوران نہ چاہتے ہوئے ہاتھ میں آجاتا ہے اور انسان شادی سے پہلے کا زمانہ یعنی ''زمانہ ما قبلِ غلامی‘‘ کو یاد کرکے کچھ دیر کے لیے سرد آہیں بھرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چار ہزار سال قبل نکاح نامے کو کسی دور افتادہ کونے میں رکھ کر بھول جانے کو ترجیح دی جاتی ہوگی۔ اور ویسے بھی کس میں اس بات کا یارا ہوتا ہوگا کہ اتنی بھاری چیز اٹھائے اور پھر سرد آہیں بھی بھرے!
بات حیرت انگیز لگتی ہے کہ نکاح کے ثبوت کو پتھر کی سِل پر کندہ کرانا کیوں ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مگر خیر! یہ بات کچھ ایسی حیرت انگیز بھی نہیں کہ سِرے سے سمجھ ہی میں نہ آ سکے۔ چار ہزار سال پہلے کی شادی بھی اِس بات کی ضامن تو نہیں ہوتی تھی کہ میاں بیوی کبھی جھگڑیں گے ہی نہیں۔ شادی چونکہ انسانوں کے درمیان ہوتی تھی اس لیے ناچاقیاں بھی ہوتی ہوں گی۔ اور گھریلو زندگی میں جھگڑا ہوتا ہے تو معاملہ مار پیٹ تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا۔ ڈھائی تین ہزار سال تک دانش کی راہ پر چلتا ہوا انسان اب اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکا ہے۔ تب بھی گھریلو زندگی میں ہنگامہ آرائی، مار پیٹ اور قتل و غارت سے باز نہیں آیا تو سوچا جا سکتا ہے کہ چار ہزار پہلے کے میاں بیوی کس طرح لڑتے ہوں گے۔
ہو سکتا ہے کہ نکاح نامے پتھر کی سِل پر اس لیے تیار کیے جاتے ہوں کہ میاں بیوی کو ناچاقی کی صورت میں ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی حد سے گزرنے میں آسانی رہے۔ مثلاً اگر کوئی جھگڑا خاصی بحث و تمحیص کے بعد بھی نمٹ نہ رہا ہو اور کوئی بھی فریق دوسرے کی بات ماننے پر آمادہ ہی نہ ہو رہا ہو تو ''اتمامِ حُجّت‘‘ کے طور پر نکاح نامے کی سِل ہی اُس کے سَر پر دے ماری جائے! ایسی صورت میں اگر قانون نافذ کرنے والے آلۂ قتل برآمد کر بھی لیتے ہوں گے تو بچ نکلنے کے لیے یہ بھی کہا جاسکتا ہوگا کہ اگر یہ آلۂ قتل ہے تو بزرگوں سے جواب طلبی کی جائے کہ یہ اُنہوں نے دیا تھا۔
مرزا تنقید بیگ کو ہم نے پتھر کی سِل پر کندہ نکاح نامہ دریافت کیے جانے سے متعلق خبر سنائی تو وہ چند لمحات کے لیے خیالات کی دنیا میں گم ہوگئے۔ ہم یہ سمجھے وہ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر ان کا نکاح نامہ بھی پتھر کی سِل کی شکل میں ہوتا تو وہ کوئی اچھا موقع دیکھ کر اُسے بھابی کے سَر پر دے مارتے! مگر خیر یہ امکان زیادہ قوی تھا کہ بھابی یہ کام پہلے کر گزرتیں!
ہم نے کاندھے سے جھنجھوڑ کر مرزا کو خیالات کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں واپس آنے پر مجبور کیا تو وہ ایک عدد خاصی سرد آہ بھر کر رہ گئے۔ ہم نے جب اُنہیں خیالات میں گم دیکھ کر اپنے ذہن میں ابھرنے والے وسوسے کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے دو تین لمحوں تک ہمیں یوں گھور کر دیکھا گویا درست اندازہ لگانے پر دل ہی دل میں ہم پر لعن طعن کر رہے ہوں۔ گھورنے کا دورانیہ ختم ہونے پر اُنہوں نے کہا ''تم بھی چونکہ شادی شدہ ہو اِس لیے یہ گمان رکھتے ہو کہ جس طور تماری گھریلو زندگی میں ناچاقیاں ہیں، اُسی طور تمام شادی شدہ افراد الجھنوں سے دوچار ہوں گے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ہماری گھریلو زندگی میں ایسا کچھ نہیں کہ ہم تمہاری بھابی کے سَر پر 'حَجری نکاح نامہ‘ دے مارنے کے تصوّر سے سرشار ہوں‘‘۔
مرزا کی اِس بات پر ہمارے جی میں آیا کہ خوب ہنسیں بلکہ قہقہے لگائیں۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے درست اندازے سے خار کھاکر‘ محض جھینپ مٹانے کے لیے ہمیں مطعون کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کا بس چلے تو قبر کا کتبہ تیار کرانے کی عمر میں وہ مسالے پیسنے والی گھریلو سِل پر نکاح نامہ کندہ کرا کے چار ہزار سال پرانی روایت کا احیا بھی کریں اور بھابی کو مستقل سراسیمہ رکھنے کا اہتمام بھی۔
مرزا سمیت بہت سے دوستوں کا ''زمانہ ما بعدِ شادی‘‘ دیکھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فی زمانہ نکاح نامہ پتھر کی سِل پر کندہ کرانے میں بھی کچھ ہرج نہیں کیونکہ نکاح کے بعد شروع ہونے والا زمانہ بندے کو کتبے کی منزل تک پہنچانے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا۔ ایسے میں ''حَجری نکاح نامے‘‘ کی پشت کو بروئے کار لاکر اُس سے کتبے کی شکل میں بھی مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
آج کل نکاح نامہ کاغذ کے ٹکڑے کی شکل میں ہوتا ہے اس لیے الماری میں کسی چیز کی تلاش کے دوران نہ چاہتے ہوئے ہاتھ میں آجاتا ہے اور انسان شادی سے پہلے کا زمانہ یعنی ''زمانہ ما قبلِ غلامی‘‘ کو یاد کرکے کچھ دیر کے لیے سرد آہیں بھرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چار ہزار سال قبل نکاح نامے کو کسی دور افتادہ کونے میں رکھ کر بھول جانے کو ترجیح دی جاتی ہوگی۔ اور ویسے بھی کس میں اس بات کا یارا ہوتا ہوگا کہ اتنی بھاری چیز اٹھائے اور پھر سرد آہیں بھی بھرے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں