"MIK" (space) message & send to 7575

جب چل پڑے سفر کو تو کیا مُڑکے دیکھنا

چین، روس، ترکی اور پاکستان نے مل کر ایشیا کو عالمی سیاست میں نمایاں حیثیت کا حامل کرنے کا جو عظیم الشان منصوبہ شروع کیا ہے، وہ اب مغرب کی آنکھوں میں بہت واضح طور پر کھٹک رہا ہے۔ یورپ تو خیر زیادہ بے صبرا نہیں ہوا جا رہا اور اُس نے اب تک حواس پر معقول حد تک قابو رکھا ہوا ہے مگر امریکا کا معاملہ، محتاط ترین الفاظ میں بھی، باؤلے پن کا ہے۔ اُس نے صاف محسوس کر لیا ہے کہ عالمی سیاست و معیشت میں اُس کی بالا دستی کا دور خاتمے کی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چین اور روس اگر پاکستان اور ترکی کی معاونت سے ''بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو‘‘ کو عمدگی سے بروئے کار لانے میں کامیاب ہوگئے تو ایک طرف ایشیا کو عالمی سیاست و معیشت کے حوالے سے مرکز کا درجہ حاصل ہو جائے گا اور تمام اہم فیصلے یہاں ہوا کریں گے اور دوسری طرف پاکستان اور ترکی کے اہم کردار کی بدولت اس تبدیلی کے اثرات اسلامی دنیا کے دیگر ممالک، بالخصوص عرب دنیا پر بھی مرتب ہوں گے اور یوں تقریباً پورے مشرقِ وسطیٰ پر مغرب اور بالخصوص امریکا کی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ شمالی افریقا پر بھی مغربی طاقتیں اپنے اثرات تادیر برقرار نہیں رکھ پائیں گی۔
چین اور روس کا مل کر عالمی سیاست و معیشت میں وسیع تر اور قابلِ رشک کردار کے لیے‘ متحرک ہونا کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز ہے نہ باعثِ تشویش۔ مگر یہ تو ہمارا معاملہ ہے۔ سوال اُن کا ہے جن کی بالا دستی پر ضرب پڑنے والی ہے۔ اُنہیں تو پریشانی میں مبتلا ہونا ہی ہے۔ دُم پر پاؤں پڑنے سے جو کیفیت پیدا ہوا کرتی ہے کچھ ویسی ہی کیفیت اِس وقت امریکا اور اُس کے چند کلیدی حاشیہ برداروں کی ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ حاشیہ بردار زیادہ پریشان ہیں کیونکہ جب ستون ہی نہ رہے گا تو وہ کس کے سہارے کھڑے رہیں گے؟
پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) بجائے خود خاصا بڑا منصوبہ ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ منصوبہ بجائے خود ایک بہت بڑے منصوبے یا کئی منصوبوں کے مجموعے کا ہراول دستہ ہے۔ یہ بڑا منصوبہ ''بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو‘‘ کی چھتری تلے شروع کیا جانے والا ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ ہے۔ عرف عام میں OBOR کہلانے والا یہ منصوبہ‘ مالیت کے اعتبار سے 100 ارب ڈالر تک پہنچے گا۔ اِتنے بڑے معاملات جب کھل کر سامنے آئیں گے تو بہت سوں کو پریشانی تو لاحق ہو گی ہی۔ کئی خطوں کے لیے امکانات پیدا ہو رہے ہیں اور دوسری طرف کئی خطوں کو مسائل کی چاپ بھی سُنائی دے رہی ہے۔
امریکا اور اُس کے بڑے حاشیہ برداروں کے تجزیہ کاروں اور تجزیہ نگاروں نے کام شروع کر دیا ہے۔ چین اور اُس کے ہم نوا کمر کس کر میدان میں آئے ہیں تو گرد اُڑائی جا رہی ہے، انتشار کی کیفیت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے تاکہ معاملات یا تو الجھ کر رہ جائیں یا کم از کم الجھے ہوئے دکھائی دیں۔
امریکا اور چند ایک یورپی ممالک کے ''دانشور‘‘ اشارے پاتے ہی یعنی ایجنڈے کے تحت لنگوٹ کس کر میدان میں نکل آئے ہیں اور سی پیک کے حوالے سے طرح طرح کے خدشات پھیلا رہے ہیں۔ سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے کہ جنوبی ایشیا، وسطِ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے عوام کو سی پیک کے حوالے سے طرح طرح کی الجھنوں سے دوچار کیا جائے، خدشات و تحفظات پروان چڑھانے پر مجبور کر دیا جائے۔
معروف امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ساؤتھ ایشیا پروگرام کے ایسوسی ایٹ فیلو مائیکل کوگلمین نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سی پیک کی بدولت جنوبی ایشیا اور وسطِ ایشیا میں چین کا اثر و رسوخ بڑھے گا۔ وہ ان دونوں خطوں میں زیادہ کھل کر کھیل سکے گا۔ مائیکل کوگلمین کی رائے ہے کہ بھارت کے لیے یہ سب کچھ انتہائی تشویشناک، بلکہ ہیبت ناک ہے۔ ایک طرف تو یہ خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور دوسری طرف اُسے وسطِ ایشیا سے تیل اور گیس کے حصول میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہاں تک رسائی کے لیے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا ناگزیر ہے مگر اب تک بھارتی قیادت اس تصور ہی سے گریزاں رہی ہے۔
کوگلمین لکھتے ہیں کہ بھارتی قیادت پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتی اور دوسری طرف چین اور روس دونوں کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان میں غیر معمولی معاشی و سیاسی استحکام ہو۔ اگر پاکستان سیاسی و معاشی طور پر غیر مستحکم رہا اور سکیورٹی کے معاملات خراب رہے تو سی پیک کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکے گا۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کی بروقت تکمیل اور بھرپور کامیابی کے لیے سی پیک کی کامیابی ناگزیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوکس ہر اعتبار سے پاکستان پر ہے۔
مائیکل کوگلمین نے یہ کہتے ہوئے پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کی ہے کہ چین کی معاونت سے بجلی گھر ضرور قائم ہوں گے تاہم توانائی کا بحران مستقل بنیاد پر حل نہ ہوسکے گا کیونکہ اُس کی پشت پر رسد کی کمی کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں۔ اِن عوامل کی نشاندہی کرنا مائیکل کوگلمین نے ضروری نہیں سمجھا۔
کوگلمین نے تقریباً بغلیں بجانے کے انداز سے بیان کیا ہے کہ بلوچستان میں سکیورٹی کے ایشوز برقرار ہیں اور پنجاب میں بھی سی پیک کے حوالے سے خطرات موجود ہیں۔ پنجاب کے ذیل میں انہوں نے بارہ چینی انجینئرز کے اغوا میں چھوٹو گینگ کے کردار کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ سلامتی سے متعلق خدشات کا ذکر کرتے ہوئے مائیکل کوگلمین نے ''مژدۂ جاں فزا‘‘ سنایا ہے کہ پاکستانی قیادت کے لیے اپنے غیر ریاستی عناصر سے نمٹنا ایسا آسان نہ ہوگا۔ معاشی معاملات میں خرابی کا ذکر کرتے ہوئے کوگلمین نے ''نوید‘‘ سنائی ہے کہ پاکستان میں قرضے واپس کرنے کی صلاحیت اب تک قابلِ رشک حد کو نہیں چُھو پائی۔
اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ بھی خاتمے پر ہے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ایسے میں ہمارا بدلنا بھی شرط ٹھہرا ہے۔ سات عشروں کے دوران امریکا اور یورپ کی حاشیہ برداری سے پاکستان نے کیا پایا ہے؟ اُن کی فرمائشیں پوری کرنے پر بھی لعن طعن کا سامنا رہا ہے۔ متعدد مواقع پر معاملہ یہ رہا ہے کہ ؎
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
امریکا اور یورپ کی طرف غیر معمولی جھکاؤ ہمارے لیے صرف خرابیاں پیدا کرتا رہا ہے۔ بالخصوص امریکا سے تعلقات کی نوعیت یہ رہی ہے کہ ؎
بازی کسی نے پیار کی جیتی یا ہار دی
جیسے گزر سکی یہ شبِ غم گزار دی
شبِِ غم ختم ہونے کو آئی ہے۔ نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ نیا سفر بھی شروع ہو رہا ہے۔ اب جو ہو سو ہو۔ پاکستان کے لیے ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اب جھجھکنے اور ڈرنے کی گنجائش نہیں۔ ؎
جب چل پڑے سفر کو تو کیا مُڑ کے دیکھنا
دنیا کا کیا ہے، اُس نے صدا بار بار دی
ساحل کرے گا یاد اُسی نامراد کو
کشتی خوشی سے جس نے بھنور میں اُتار دی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں