"MIK" (space) message & send to 7575

جب دوا موت کا سبب بن جائے

مسائل حل ہوں تو کیسے ہوں، زندگی کو بہتر اور بامقصد بنانے کی راہ ہموار ہو تو کیسے ہو؟ مسائل حل کرنے کے لیے دولت ناگزیر ہے اور دولت کا معاملہ یہ ہے کہ اُسے زیادہ میل جول پسند نہیں۔ وہ چند ہاتھوں میں مرتکز رہنا چاہتی ہے۔ دنیا بھر میں اربوں افراد اُسے گلے لگانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں مگر وہ ہے کہ ہاتھ آنے کا نام نہیں آتی۔ یاں یوں کہہ لیجیے کہ سب کے ہاتھ نہیں آنا چاہتی، سب کو منہ نہیں لگنا چاہتی۔ 
یہ تو ہوئی دولت کی فطرت۔ اور دوسری طرف انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ رات دن زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی خواہش کو پروان چڑھاتا رہتا ہے۔ اگر بس میں ہو تو ہر انسان دنیا بھر کی دولت کو اپنی مٹھی میں کرلے۔ یہ تو خیر ممکن نہیں مگر ہاں دانائی اور چالاکی کے ''حسین امتزاج‘‘ کا سہارا لے کر اتنا ضرور ممکن بنایا جاسکا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جائے، بلکہ لونڈی کی طرف اُن کی خدمت کرے اور اُن کے اشاروں پر ناچے۔ 
''سوئس کریڈٹ‘‘ نے حال ہی میں دولت کی تقسیم سے متعلق رپورٹ ''گلوبل ویلتھ رپورٹ‘‘ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکا کی خام قومی پیداوار سے بھی آٹھ گنا دولت محض چند ہاتھوں میں مرتکز ہے۔ غیر معمولی دولت مند افراد ultra rich کہلاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں کم و بیش ایک لاکھ 6 ہزار ارب پاؤنڈ ہیں۔ اِن سے تھوڑی کم دولت رکھنے والے super rich کہلاتے ہیں۔ 
اعداد و شمار کی روشنی میں سامنے آنے والے حقائق حیرت انگیز بھی ہیں اور دل خراش بھی۔ دنیا کی نصف سے زائد دولت عالمی آبادی کے صرف ایک فیصد کے ہاتھوں میں ہے۔ 88 فیصد دولت پر صرف 10 فیصد افراد متصرّف ہیں۔ 90 فیصد آبادی صرف 12 فیصد دولت پر گزارا کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں ساڑھے تین ارب افراد صرف 3 فیصد دولت پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں۔ جنہیں ہم ultra rich قرار دیتے ہیں وہ تعداد میں اتنے کم ہیں کہ اُنہیں شمار کرنا بھی عجیب محسوس ہوتا ہے۔ مگر خیر، انہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ فرق تو ہمیں پڑتا ہے کہ اُن کے ہاتھ میں دنیا کی دولت کا 45.9 فیصد (کم و بیش 128.7 ٹریلین ڈالر) ہے۔ ایک ٹریلین ایک ہزار ارب کا ہوتا ہے! ایک لاکھ سے دس لاکھ ڈالر تک کے اثاثے رکھنے والے محض امیر (rich) کہلاتے ہیں۔ ان کی تعداد 8 فیصد تک ہے اور ان کے پاس دنیا کی دولت کا 39.7 فیصد ہے جو 111.4 ٹریلین ڈالر کے برابر ہے۔ 8 تا 21 فیصد لوگ وہ ہیں جن کے پاس 10 ہزار تا ایک لاکھ ڈالر ہیں۔ ان کے تصرّف میں دنیا کی دولت کا 11.6 فیصد (کم و بیش 32.5 ٹریلین ڈالر) ہے۔ عالمی آبادی کا 70 فیصد غریب ترین کی درجہ بندی میں آتا ہے۔ ان میں 10 ہزار ڈالر سے کم کے اثاثے رکھنے والے شامل ہیں۔ ان کے ہاتھ میں دنیا کی مجموعی دولت کا صرف 2.7 ہے جو 7.6 ٹریلین ڈالر کے برابر ہے۔ 
ستم بالائے ستم یہ کہ عالمی معیشت میں رونما ہونے والی مندی بھی غیر معمولی حد تک دولت مند افراد پر منفی اثرات مرتب نہیں کرتی۔ اور اس سے بھی بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ 2008 کے عالمی معاشی بحران نے super rich کو نقصان کے بجائے فائدہ پہنچایا۔ اس کساد بازاری سے قبل عالمی دولت میں super rich کا حصہ 42 فیصد تک تھا جو بعد میں 50 فیصد تک پہنچ گیا۔ 
2000 کے بعد سے ultra rich کی تعداد پانچ گنا ہوچکی ہے۔ دوسری طرف ملینئرز یعنی 10 لاکھ ڈالر تک کے اثاثے رکھنے والوں کی تعداد 36 ملین یعنی 3 کروڑ 60 لاکھ ہوچکی ہے۔ 
دولت کی ستم ظریفی کے حوالے سے یہ ہے صورتِ حال۔ دنیا کا نظام درست ہو تو کیسے ہو؟ دولت کا مصرف کیا ہے؟ مسائل کا حل۔ مسائل زیادہ ہیں اور وسائل کم یعنی دولت ہماری، آپ کی ضرورت سے کہیں کم ہے۔ اربوں افراد اپنے مسائل حل کرنے کے لیے ہر وقت پریشان رہتے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ حد تک دولت نہیں ہوتی۔ جب وسائل نہ ہوں تو مسائل ٹس سے مس نہیں ہوتے، جوں کے توں رہتے ہیں۔ عالمی معیشتی اور مالیاتی نظام کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ جن کے پاس دولت ہے وہ مزید دولت مند ہوتے جاتے ہیں۔ اور جو مسائل کی چکی میں پستے رہے ہیں وہ پستے ہی رہتے ہیں۔ 
ہم ایک ایسی دنیا کے باشندے ہیں جسے دولت مندوں نے دانائی اور چالاکی کے حسین امتزاج کی مدد سے یوں جکڑ رکھا ہے کہ اب گلو خلاصی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ ع 
جانے اِس قید سے اب کیسے نکلنا ہوگا 
ہم ایک ایسے دین کے پیرو اور داعی ہیں جو دولت کی انتہائی منصفانہ تقسیم پر غیر معمولی حد تک زور دیتا ہے۔ اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، دولت کے ارتکاز کو تو بالکل پسند نہیں کرتا۔ اگر کسی کو دین کی بنیادی تعلیمات پر پورا یقین ہے اور اُن پر عمل بھی کرنا چاہتا ہے تو ناگزیر ہے کہ دولت کی محبت اُس کے دل میں نہ ہو۔ ایسی حالت میں وہ جائز طریقے یا طریقوں سے جو کچھ بھی کمائے گا اُس میں سے اُن کا بھی حصہ نکالے گا جنہیں اِس دنیا نے اب تک ضرورت پوری کرنے جتنی دولت سے محروم رکھا ہے۔ معاشی امور سے متعلق اسلام کی تمام تعلیمات کا محور یہ نکتہ ہے کہ انسان اپنی تمام جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بچ رہنے والی دولت سے اُن کا بھلا کرے جو کسی نہ کسی مجبوری یا معذوری کے باعث زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ 
کتب بینی صاحبِ ذوق و شوق ہونے کی علامت ہے۔ بہت سے لوگ کتب بینی کے بے حد شوقین ہوتے ہیں۔ اور دوسرے بہت سے لوگ کتب بینی سے زیادہ ذخیرۂ کتب بڑھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ اِنہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اِن کے پاس کون کون سی کتب ہیں۔ یہ لوگ کبھی کبھی ایسی کتب بھی خرید لیتے ہیں جو پہلے ہی سے اِن کے ذخیرۂ کتب کا حصہ ہوتی ہیں! ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پڑھنے کی توفیق ہی نصیب نہ ہو رہی ہو تو گھر میں کتب کے پہاڑ کھڑے کرنے سے فائدہ؟ 
ایسا ہی معاملہ دولت کا بھی ہے۔ ہر انسان کی چند ایک بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ اِس کے بعد بہتر زندگی کے لیے مزید دولت درکار ہوتی ہیں۔ بہر کیف، ضرورتوں کی ایک حد ضرور آجاتی ہے۔ ہاں، ہوس کی کوئی حد نہیں ہوا کرتی۔ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہوس کا کارنامہ ہے۔ انسان پوری دنیا کی دولت اپنی مٹھی میں لینا چاہتا ہے جبکہ خود اُسے بھی اندازہ ہے کہ اُس کی ضرورت دو وقت کی روٹی، تن کے کپڑوں اور ایک چھت سے آگے نہیں جاتی۔ دولت دوا ہے مگر انسان کی طمع پسندی اور ہوس پرستی نے اِسے موت کے سبب میں تبدیل کردیا ہے۔ طرح طرح کی تکڑم لڑاکر ultra rich ہو جانے والے اُن اربوں انسانوں کے مجرم ہیں جو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ultra non-rich رہ جاتے ہیں!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں